مسلم معاشرہ میں نکاح ایک بوجھ کے مترادف،جہیز کے رواج کو چھوڑ کر شادی کو سادی بنانے کی ضرورت:مولانا محمد حبیب الرحمن حسامی
اسلامی نکاح یہ ہے کہ لڑکی والوں کو لڑکے والے یہ کہیں کہ آپ کچھ مت دیجئے صرف آپ کی دختر نیک اختر کا نکاح ہمارے بچہ سے کرادیں اور بقیہ تمام انتظامات ہم ہی کرلیں گے۔ لڑکی والوں کو کسی بھی طرح کے خرچے میں نہ ڈالیں۔
حیدرآباد :مولانا محمد حبیب الرحما ن حسامی نے کہا مسلم معاشرہ میں نکاح ایک بوجھ کے مترادف ہوگیا ہے،غیر ضروری رسومات،خرافات، جہیز کی مانگ، لین دین کا رواج، جوڑے کی رقم کی بڑھتی ہوئی مانگ نے نکاح کو مشکل ترین بنادیا ہے،اسلامی شادی اور مروّجہ شادیو ں میں زمین وآسمان کا فرق ہے، جہیز کے رواج کو چھوڑ کر شادی کو سادی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
لوگ صرف مسجد میں نکاح پڑھانے کو ہی اسلامی نکاح تصور کررہے ہیں ، جہیز ، جوڑے کی رقم ا ور دیگر مطالبات کرکے لڑکی والوں کو پریشان کرنا اور نکاح مسجد میں پڑھا کر یہ سمجھنا کہ ہم اسلامی نکاح کررہے ہیں ،یہ غلط سوچ ہے۔
اسلامی نکاح یہ ہے کہ لڑکی والوں کو لڑکے والے یہ کہیں کہ آپ کچھ مت دیجئے صرف آپ کی دختر نیک اختر کا نکاح ہمارے بچہ سے کرادیں اور بقیہ تمام انتظامات ہم ہی کرلیں گے۔ لڑکی والوں کو کسی بھی طرح کے خرچے میں نہ ڈالیں۔
با برکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو،ہر دو کے لئے آسانی کا باعث ہو، ان خیالات کا اظہار مولانا محمد حبیب الرحمن حسامی ناظم جامعہ عربیہ ارشاد العلوم سلیمان نگر میر محمود پہاڑی حیدرآباد نے جامعہ ہذا میں انجمن ارشاد البیان کے سالانہ دو روزہ مسابقتی اجلاس کی آخری نشست سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کیا، واضح ہو کہ ان دو روزہ مسابقی اجلاس میں تقاریر ، نعتیں، محاضرے، مکالمے، مباحثے، مناظرے مختلف حساس عناوین پر پیش کئے گئے ۔
مولانا حسامی نے اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں جس گھر میں بیٹی ہوتی ہے اس کے والدین کے لئے بڑی فکر مندی کا باعث ہوتی ہے کیونکہ اس کے شادی کے لئے اس کے والد کو اپنی عمر بھر کی محنت والی کمائ کو خرچ کرنا پڑتا ہے،رشتہ کے انتخاب سے لے کر شادی ہونے تک بلکہ اس کے بعد بھی لگاتار مانگنے کا سلسلہ جاری رہتاہے ،جتنے مالدار ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ مانگتے ہیں ، مگر اس پر فتن دور میں بھی بعضے ایسے اہل دل اور اللہ کے محبوب بندے موجود ہیں جو اسلامی احکام پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتے ہیں اور تمام امور کو اسلامی تعلیمات کے مطابق انجام دینے کی بھر پور کو شش کرتے ہیں۔
ایسی مثالیں آج بھی موجود ہیں کہ لڑکے والے ہی تمام تر انتظامات ازخود کرکے شادی کرتے ہیں اور لڑکی والوں سے کوئی چیز نہیں لیتے ، حتی کہ ایک جوڑا کپڑے لینے کو بھی پسند نہیں کرتے ، بلکہ وہ یو ں کہتے ہیں کہ ہمارے لئے شرمندگی کی بات ہے کہ اپنے بچہ کو بچپن سے لے کر جوانی تک ہم اپنے خرچ سے کپڑے پہنائے اور آج شادی کے دن آپ کے کپڑے پہنائیں۔ ؟۔
یہ ہمیں گوارہ نہیں ، مولانا حسامی نے کہا جامعہ ہذا میں اس سال انجمن ارشاد البیان کے سالانہ مسابقتی پروگرام میں اسی طرح کے حساس عناوین کو موضوع بناکر تقاریر، محاضرات و مکالمات پیش کئے گئے، تقاریر کےلئے سیرت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا، سیرت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا، تواضع و انکساری کی اہمیت و افادیت، جیسے عناوین منتخب کئے گئے تھے، اور مکالمات کے لئے نکاح کے سلسلہ میں رشتے کا انتخاب، موجودہ معاشرہ میں نکاح بوجھ کیوں؟
عورتوں میں مروجہ برائیاں ، مسلم معاشرہ میں بدعات کا رواج ، اہل سنت والجماعت اور فتنہ قادیانیت و شکیلیت ، جیسے عناوین منتخب کئے گئے،اور دلچسپ انداز سے طالبات نے بڑی ظرافت کے ساتھ مکالمات پیش کئے ، نیز حالات حاضرہ پر ایک مباحثہ بھی پیش کیا گیا، اوراردو زبان کی اہمیت و افادیت ،نظافت و ضیافت ، اسلام اور جدید سائنس کے عناوین پر محاضرات کے لئے پیش کئے گئے۔
اس موقع پر جامعہ ریاض البنات ملک پیٹ حیدرآباد اور دیگر مدارس عربیہ سے فارغ شدہ معلمات نے حکم کے فرائض انجام دئے، انگریزی زبان میں بھی طالبات نے انٹرویو پیش کیا ۔ اس موقع پرمہمان خواتین و سرپرست خواتین کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور دلچسپی سے سنا ۔مولانا حسامی کی دعا پر یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا۔