حیدرآباد

مولانا صابر پاشاہ قادری: مصنوعی ذہانت ترقی کے ساتھ انسانی اقدار میں کمی کا باعث بن رہی ہے

چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بدھ کے روز بنجارہ ہلز، روڈ نمبر 12 پر منعقدہ فکری نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی زندگی کو بے پناہ سہولتیں فراہم کی ہیں

حیدرآباد: چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بدھ کے روز بنجارہ ہلز، روڈ نمبر 12 پر منعقدہ فکری نشست میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی زندگی کو بے پناہ سہولتیں فراہم کی ہیں، تاہم اس کے ساتھ انسانی اقدار اور اخلاقی رشتوں میں کمی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

متعلقہ خبریں
مثالی پڑوس، مثالی معاشرہ جماعت اسلامی ہند، راجندر نگر کا حقوق ہمسایہ ایکسپو
عالمی یومِ معذورین کے موقع پر معذور بچوں کے لیے تلنگانہ حکومت کی مفت سہولتوں کا اعتراف مولانا مفتی صابر پاشاہ
تحفظِ اوقاف ہر مسلمان کا مذہبی و سماجی فریضہ: ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
محکمہ تعلیم کے سبکدوش اساتذہ کو شاندار اعزاز، ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
دعا اللہ کی قربت کا دروازہ، مومن کا ہتھیار ہے: مولانا صابر پاشاہ قادری

مولانا صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ مصنوعی اشیاء، مشینیں اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) نے جہاں محنت اور وقت کی بچت ممکن بنائی ہے، وہیں انسانی جذبات، خلوص، ایثار اور قربانی جیسی صفات مدھم پڑ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر انسان اپنے اخلاقی اصولوں اور روحانی اقدار کو مضبوط نہ کرے تو ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود انسان تنہائی اور بےمعنویت کا شکار ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ تعلیم، تربیت، صنعت، علاج، کھیل اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بہت زیادہ دخل اندازی کر چکی ہے۔ مولانا نے کہا کہ بغیر ڈرائیور کی کاریں، بغیر پائلٹ کے جہاز اور ڈرون حملے انسانیت کے لیے ممکنہ خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے شرعی احکام اور حدود واضح کیے جائیں۔

مولانا صابر پاشاہ قادری نے وضاحت کی کہ مصنوعی ذہانت، کمپیوٹر پروگرام اور روبوٹ کے ذریعے پیدا کی گئی مشینی ذہانت انسانی روح یا ذمہ داری کی حامل نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کے عمل کے نتائج کے ذمہ دار مالک یا پروگرامر ہوں گے نہ کہ روبوٹ خود۔ انہوں نے کہا کہ شرعی نقطہ نظر سے مصنوعی ذہانت کا استعمال صرف نیکی اور فلاح کے لیے ہونا چاہیے، جبکہ دین، انسانی جان، عقل، نسل اور مال کی حفاظت بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔

انہوں نے مختلف ممالک میں روبوٹ کے استعمال کی مثالیں دیتے ہوئے بتایا کہ جاپان میں ایک روبوٹ لوگوں کو بودھ تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے، جبکہ جرمنی اور کیتھولک چرچ میں مذہبی امور میں روبوٹ استعمال کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، مولانا نے واضح کیا کہ مسلمانوں کے لیے نماز، وضو، نکاح، طلاق اور دیگر فقہی امور میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر علماء کرام کی رہنمائی ضروری ہے تاکہ شرعی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔

مولانا صابر پاشاہ قادری نے اختتامیہ کلمات میں زور دیا کہ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانی ہمدردی، محبت، اخوت اور اخلاقی اقدار کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہیے تاکہ انسانیت کی اصل پہچان برقرار رہے۔

اہم نکات:

  • مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اس کے انسانی رویوں پر اثرات
  • مشینی انسان (روبوت) اور اس کے ذمہ داری کے پہلو
  • شرعی احکام کے تحت مصنوعی ذہانت کے استعمال کی حدود
  • مذہبی اور فقہی امور میں روبوٹ کے استعمال پر رہنمائی کی ضرورت

اگر آپ چاہیں تو میں اس کو مزید مختصر اور خبری انداز میں بھی بنا سکتا ہوں تاکہ اخبارات یا ویب پورٹلز پر شائع کیا جا سکے۔ کیا میں ایسا کر دوں؟