تلنگانہ

تلنگانہ میں سرپنچ انتخابات پر 11 ہزار کروڑ روپے سے زائد خرچ،ہر گاوں میں ایک کروڑکا صرفہ

تلنگانہ کی تمام دیہی پنچایتوں میں سرپنچ انتخابات کے لئے امیدواروں کی جانب سے کئے گئے اخراجات کے بارے میں یہ بحث جاری ہے کہ مجموعی خرچ 11 ہزار کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ کامیابی کے مقصد سے زیادہ تر دیہات میں سرپنچ امیدواروں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اخراجات کئے۔

حیدرآباد: تلنگانہ کی تمام دیہی پنچایتوں میں سرپنچ انتخابات کے لئے امیدواروں کی جانب سے کئے گئے اخراجات کے بارے میں یہ بحث جاری ہے کہ مجموعی خرچ 11 ہزار کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ کامیابی کے مقصد سے زیادہ تر دیہات میں سرپنچ امیدواروں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اخراجات کئے۔

متعلقہ خبریں
زندہ دلان کے مزاحیہ مشاعروں کی  دنیا  بھر میں منفرد شناخت،پروفیسرایس ا ے شکور، نواب قادر عالم خان کی شرکت
جمعہ: دعا کی قبولیت، اعمال کی فضیلت اور گناہوں کی معافی کا سنہری دن،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
کےسی آر کی تحریک سے ہی علیحدہ ریاست تلنگانہ قائم ہوئی – کانگریس نے عوامی مفادات کوبہت نقصان پہنچایا :عبدالمقیت چندا
طب یونانی انسانی صحت اور معاشی استحکام کا ضامن، حکیم غریبوں کے مسیحا قرار
وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے وزیراعلٰی اور چیف جسٹس سے ٹریبونل کو مضبوط کرنے کی گزارش


ذرائع کے مطابق کامیاب امیدواروں نے اوسطاً 50 لاکھ سے 60 لاکھ روپے تک خرچ کیے جبکہ ہارنے والے امیدواروں نے تقریباً 40 لاکھ روپے تک اخراجات برداشت کئے۔ انتخابی میدان میں موجود دیگر امیدواروں کا خرچ اوسطاً 10 لاکھ روپے تک رہا۔ اس کے علاوہ وارڈ ارکان نے بھی اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات کئے۔ اس طرح ایک اندازہ کے مطابق ہر گاؤں میں سرپنچ انتخابات کے نام پر تقریباً ایک کروڑ روپے خرچ ہوئے۔


ریاست کی 12 ہزار 728 دیہی پنچایتوں میں تین مرحلوں میں انتخابات منعقد ہوئے جن میں سے تقریباً 1200 دیہاتوں میں سرپنچ انتخابات بلا مقابلہ ہوئے۔ بقیہ 11 ہزار 528 دیہاتوں میں سرپنچ کے لئے مقابلہ ہوا۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ان دیہاتوں میں تمام امیدواروں کی جانب سے کیے گئے اخراجات اوسطاً ایک کروڑ روپے فی گاؤں کے حساب سے رہے جس کے نتیجہ میں ریاست بھر میں مجموعی انتخابی خرچ 11 ہزار کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا۔


ماضی میں سرپنچ انتخابات کے دوران ووٹروں میں نقد رقم کی تقسیم بہت کم ہوتی تھی۔ اس وقت ذات پات کی تنظیموں کے اجلاس منعقد کر کے ان کی اجتماعی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ دیہاتوں کے نوجوانوں کو کرکٹ کٹس اور دیگر کھیلوں کا سامان تحفے میں دیا جاتا تھا اور مجبوری کی صورت میں رات کے وقت دعوتیں دی جاتی تھیں تاہم اس بار ووٹروں میں نقد رقم کی تقسیم بھی کی گئی۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابی میدان میں اترنے والے زیادہ تر امیدوار دولت مند نہیں تھے بلکہ چار سے پانچ ایکڑ اراضی رکھنے والے کسان ہی بڑی تعداد میں مقابلہ میں تھے۔ شکست کی صورت میں بدنامی کے خوف سے امیدواروں نے اخراجات سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ اس مقصد کے لئے کئی دیہات میں امیدواروں نے اپنی اراضیات اور زیورات فروخت کئے جبکہ بعض نے رہن رکھ کر حاصل کی گئی رقم سے انتخابی مہم چلائی۔


حاصل شدہ رقم کے ذریعہ رائے دہندوں کوراغب کرنے کھل کر خرچ کیا گیا۔ زیادہ تر دیہاتوں میں فی ووٹ ایک ہزار روپے تقسیم کئے گئے جبکہ بعض دیہاتوں میں دو ہزار سے تین ہزار روپے تک دیے گئے۔ سخت مقابلہ والے دیہات میں فی ووٹ پانچ ہزار روپے تک دینے کی اطلاعات ہیں۔ پولنگ سے ایک دن قبل گھروں تک فی کلو کے حساب سے چکن پہنچایا گیا۔ خاتون رائے دہندوں میں ساڑیاں، برتن، انگوٹھیاں اور دیگر اشیاء تقسیم کی گئیں جبکہ مرد رائے دہندوں کو شراب کی بوتلیں فراہم کی گئیں۔