قومی

ممبئی ٹرین بم دھماکے۔ 19 سال بعد تمام 12 مسلم نوجوان بری (تفصیلی خبر)

بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے لئے بڑی شرمندگی کا باعث بنا ہے جس نے کیس کی تحقیقات کی تھیں۔ جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چنڈک کی خصوصی بنچ نے کہا کہ استغاثہ یہ تک ریکارڈ پر لانے میں ناکام رہا کہ کس قسم کے بم استعمال کئے گئے۔

ممبئی (پی ٹی آئی) مہاراشٹرا کے دارالحکومت ممبئی میں کئی ٹرین دھماکوں میں 180 سے زائد افراد کی ہلاکت کے 19 برس بعد بمبئی ہائی کورٹ نے پیر کے دن یہ کہتے ہوئے تمام 12 ملزمین کو بری کردیا کہ استغاثہ کیس کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔

یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمین نے جرم کا ارتکاب کیا۔ بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے لئے بڑی شرمندگی کا باعث بنا ہے جس نے کیس کی تحقیقات کی تھیں۔ جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چنڈک کی خصوصی بنچ نے کہا کہ استغاثہ یہ تک ریکارڈ پر لانے میں ناکام رہا کہ کس قسم کے بم استعمال کئے گئے۔ اس نے جس ثبوت پر انحصار کیا وہ ملزمین کو خاطی قراردینے کے لئے حتمی نہیں ہے۔

گواہوں کے بیانات اور ملزمین سے مبینہ برآمدگی کی بھی بہ لحاظ ثبوت کوئی اہمیت نہیں۔ ہائی کورٹ نے 12  افراد کی سزا رد کردی۔ ان میں 5 کو خصوصی عدالت نے سزائے موت اور 7 کو عمرقید کی سزا سنائی تھی۔ ممبئی میں ویسٹرن لائن پر 11 جولائی 2006 کو لوکل ٹرینوں میں مختلف مقامات پر 7 دھماکے ہوئے تھے۔ 180 سے زائد افراد اور کئی دیگر زخمی ہوئے تھے۔

استغاثہ ملزمین کے خلاف کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ بنچ نے 5 خاطیوں کی سزائے موت اور دیگر 7 کی عمرقید کی توثیق کرنے سے انکار کردیا اور انہیں بری کردیا۔ خصوصی عدالت نے 2015 میں انہیں یہ سزائیں سنائی تھیں۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ملزمین کو اگر وہ کسی اور  کیس میں مطلوب نہ ہوں تو فوری جیل سے رہا کردیا جائے۔

بنچ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ استغاثہ اہم گواہوں پر جرح میں ناکام رہا۔ اس نے برآمدکردہ اشیاء کی نہ تو اچھی طرح مہربندی کی اور نہ ہی انہیں سنبھال کر رکھا۔ استغاثہ یہ تک ریکارڈ پر نہ لاسکا کہ مبینہ جرم میں کس قسم کے بم استعمال ہوئے۔ ہائی کورٹ نے بعض ملزمین کے اقبالیہ بیانوں کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ملزمین کو اذیت دے کر یہ بیانات لئے گئے۔ یہ بیانات ناکافی اور جھوٹے پائے گئے۔

یہ ایک دوسرے کے کاپی پیسٹ پائے گئے۔ ملزمین نے ثابت کردیا کہ اقبال ِ جرم کرواتے وقت انہیں ٹارچر کیا گیا۔ عدالت نے ملزمین کی شناختی پریڈ کو بھی مسترد کردیا اور کہا کہ پولیس کے جن عہدیداروں نے یہ پریڈ کرائی انہیں اس کا اختیار نہیں۔ عدالت نے گواہوں کی گواہی بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ عینی شاہدین نے پولیس کے سامنے ملزمین کی شناخت واقعہ کے 4 ماہ بعد اور عدالت میں اس کے 4 سال بعد کی۔

گواہوں کو واقعہ کے دن ملزمین کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ وہ بعد میں ان کی درست شناخت کیسے کرسکتے تھے۔ آج ملزمین کو مہاراشٹرا کی مختلف جیلوں سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے اپنے وکیلوں کا شکریہ ادا کیا۔ 12 ملزمین میں ایک کی موت‘اپیل کی سماعت زیرالتوا رہنے کے دوران ہوگئی تھی۔

خصوصی عدالت نے 2015 میں جنہیں سزائے موت سنائی تھی ان میں کمال انصاری(اب مرحوم)‘ محمد فیصل عطاء الرحمن شیخ‘ احتشام قطب الدین صدیقی‘ نوید حسین خان اور آصف خان شامل ہیں۔ عمرقید کی سزا پانے والوں میں تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری‘ محمد ماجد محمد شفیع‘ شیخ محمد علی عالم شیخ‘ محمد ساجد مرغوب انصاری‘ مزمل عطاء الرحمن شیخ‘ سہیل محمود شیخ اور ضمیر احمد لطیف الرحمن شیخ شامل ہیں۔ ایک ملزم وحید شیخ کو تحت کی عدالت نے 2015 میں ہی بری کردیا تھا۔