حیدرآباد

حیدرآباد میں صوتی آلودگی میں اضافہ، ماہرین نے انتباہ جاری کردیا

گاڑیوں کے ہارن اور سائلنسر سے نکلنے والی تیز آوازیں، بے قابو چلنے والی ٹراویل بسوں کے ہارن اوردیگر اس کی اہم وجوہات ہیں۔اس سے سماعت میں کمی اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثرہوتی ہیں۔

حیدرآباد: حیدرآباد کے رہائشی علاقوں میں رات کے وقت صوتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ حساس اور پُرامن مقامات پر رہنے والے لوگ سکون کی نیند لینے سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔

متعلقہ خبریں
مثالی پڑوس، مثالی معاشرہ جماعت اسلامی ہند، راجندر نگر کا حقوق ہمسایہ ایکسپو
عالمی یومِ معذورین کے موقع پر معذور بچوں کے لیے تلنگانہ حکومت کی مفت سہولتوں کا اعتراف مولانا مفتی صابر پاشاہ
تحفظِ اوقاف ہر مسلمان کا مذہبی و سماجی فریضہ: ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
محکمہ تعلیم کے سبکدوش اساتذہ کو شاندار اعزاز، ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
دعا اللہ کی قربت کا دروازہ، مومن کا ہتھیار ہے: مولانا صابر پاشاہ قادری

گاڑیوں کے ہارن اور سائلنسر سے نکلنے والی تیز آوازیں، بے قابو چلنے والی ٹراویل بسوں کے ہارن اوردیگر اس کی اہم وجوہات ہیں۔اس سے سماعت میں کمی اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثرہوتی ہیں۔

دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے۔65 ڈیسِبل سے زائد شور دل کی بیماری اور بہرہ پن کا باعث بن سکتا ہے،نیند کی کمی، سردرد، تھکن اور جسمانی طاقت میں کمی ہوسکتی ہیں۔ماہرین نے احتیاطی تدابیرکے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ کھڑکیوں پر موٹے پردے یا ڈبل گلیزڈ شیشے لگانا،دیواروں پر آواز کو جذب کرنے والے پینل یا فوم نصب کرنا،ذہنی دباؤ کم کرنے کے لئے یوگا، گیان دھیان کرناشامل ہے۔


آلودگی کنٹرول بورڈ نے اپنی ہدایات میں کہا ہے کہ رات کے وقت شور کی سطح 40 ڈیسِبل سے کم ہونی چاہیے۔ تاہم اگست کی رپورٹ کے مطابق مختلف علاقوں میں درج شور کی سطح کچھ یوں رہی۔جوبلی ہلز: 55 ڈیسِبل،تارناکہ: 58 ڈیسِبل،زوپارک: 68 ڈیسِبل،گچی باؤلی: 54 ڈیسِبل۔


عام طور پر گھروں میں 30 سے 40 ڈیسِبل اور باہر 50 سے 60 ڈیسِبل شور رہتا ہے جو نقصان دہ نہیں لیکن ٹریفک سگنلس اور جنکشنس پر یہ شور 60 سے 80 ڈیسِبل تک پہنچ جاتا ہے جس سے دیرپا سماعت کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ڈی جیز میں تو یہ سطح 200 ڈیسِبل سے بھی بڑھ جاتی ہے جو براہ راست سماعت پر حملہ کرتی ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ کان کے اندر موجود باریک حساس خلیے تباہ ہوجاتے ہیں، جس سے جزوی یا مستقل بہرہ پن لاحق ہوسکتا ہے۔ بچے اس کے اثرات کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق صوتی آلودگی حاملہ خواتین پر سنگین اثر ڈالتی ہے۔ 85 ڈیسِبل سے زائد شور اسقاط حمل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق بچے وقت سے پہلے پیدا ہوسکتے ہیں یا کم وزن کے ساتھ جنم لے سکتے ہیں۔ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ حاملہ خواتین چوتھے مہینے کے بعد سے ڈی جے اور تیز شور سے دور رہیں۔