دہلی

بچپن کی شادی کا شکار دو نابالغ لڑکیوں کو معاوضہ دینے کا حکم

ڈسٹرکٹ لیگل سروس اتھارٹی (ڈی ایل ایس اے)، اودے پور نے 12 اور 14 سال کی عمر میں بچپن کی شادی کا شکار ہونے والی دو نابالغ لڑکیوں کو 2.5 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا حکم جاری کیا ہے

نئی دہلی: ڈسٹرکٹ لیگل سروس اتھارٹی (ڈی ایل ایس اے)، اودے پور نے 12 اور 14 سال کی عمر میں بچپن کی شادی کا شکار ہونے والی دو نابالغ لڑکیوں کو 2.5 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کا حکم جاری کیا ہے بچپن کی شادی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی ان دو یتیم بہنوں رادھا اور مینا (فرضی نام) کے لیے معاوضے کی یہ رقم بڑی راحت ہے۔

متعلقہ خبریں
’بچپن کی شادیوں کے خلاف مہم عنقریب دوبارہ شروع کرنے کا اعلان‘
88سالہ شخص کی والد کے بقایاجات کیلئے1979 سے قانونی لڑائی
فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے شکار افراد کے ورثاء کو25 لاکھ روپئے معاوضہ
مکہ مسجد بم دھماکہ کے 16 سال مکمل، مہلوکین کے ورثاء انصاف سے محروم
شی ٹیم رچہ کنڈہ نے کم عمر لڑکی کی شادی کو روک دیا

اس واقعہ کے بارے میں معلومات ادے پور میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او گایتری سیوا سنستھان (جی ایس ایس) کو ملی، جو کہ ‘چائلڈ میرج فری انڈیا کمپین’ کی ایک پارٹنر تنظیم ہے، جو ملک میں بچوں کی شادی کو ختم کرنے کے لیے کام کرنے والی 161 این جی اوز کا اتحاد ہے۔

جب جی ایس ایس کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو ان کا پہلا چیلنج ان لڑکیوں کی بحالی اور پھر انہیں انصاف فراہم کرنا تھا۔ جی ایس ایس کے ڈائریکٹر شیلیندر پانڈیا نے کہا، "جب وہ دونوں بہنوں سے ملے تو وہ شدید غم اور تکلیف سے گزر رہی تھیں۔ ایسے میں ہماری پہلی ترجیح لڑکیوں کی ذہنی صحت کو یقینی بنانا تھی۔

ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اس لیے پہلا کام انہیں محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا تھا اور کستوربا گاندھی بالیکا ودیالیہ نے اس کی ذمہ داری اٹھائی۔ دونوں بہنیں اب ہاسٹل میں رہ کر پڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں جی ایس ایس کی مدد سے عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ قانونی جنگ کے بعد آخر کار ان دونوں بہنوں کو انصاف مل گیا جب ڈی ایل ایس اے نے ہر ایک کو 1.25 لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔

پانڈیا نے مزید کہاکہ راجستھان کے کچھ حصوں میں بچوں کی شادی کی شرح قومی اوسط سے بہت زیادہ ہے اور یہاں بچوں کی شادیوں کی ایک بڑی تعداد ہے، خاص طور پر اکشے ترتیہ کے موقع پر۔ تاہم اس سال حکومت اور سول تنظیمیں پوری طرح چوکس ہیں تاکہ کوئی رادھا اور مینا جیسی لڑکیوں کا بچپن چھیننے کا جرم نہ کر سکے۔

دونوں لڑکیوں کو عدالت میں انصاف ملنے کو ایک بڑی فتح بتاتے ہوئے، چائلڈ میرج فری انڈیا مہم کے کنوینر روی کانت نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں اب بھی بچپن کی شادی کو ایک طرح کی سماجی قبولیت حاصل ہے۔ لیکن ہماری اتحاد کی مہم کی وجہ سے لوگ باشعور ہو رہے ہیں اور یہ قبولیت رفتہ رفتہ ختم ہو رہی ہے۔

ہماری تمام 161 پارٹنر تنظیمیں بے مثال اتحاد، عزم اور توانائی کے ساتھ بچپن کی شادی کی سماجی برائی کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ معاوضے کا حکم ان متاثرہ لڑکیوں کے لیے ایک بہت بڑی فتح ہے اورڈی ایل ایس اے اس کے لیے تعریف کی مستحق ہے۔ بچپن کی شادی کا شکار ہونے والی لڑکیاں عموماً اپنی زندگی درد، تکلیف اور محرومی میں گزارتی ہیں۔

اس لیے ان کی ریلیف اور بحالی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس طرح کے فیصلے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچپن کی شادی کے جہنم میں ڈالی گئی لڑکیوں سے جو کچھ بھی چھین لیا گیا ہے، وہ انصاف، معاوضے اور بحالی کی صورت میں واپس مل جائے لیکن لڑائی یہیں ختم نہیں ہوتی۔

ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ لڑکیاں تمام سرکاری اسکیموں سے جڑی ہوں اور انہیں وہ تمام مدد اور فوائد حاصل ہوں جن کی وہ مستحق ہیں۔ڈی ایل ایس اے کا یہ حکم ان بہنوں کے لیے حیات نو سے کم نہیں جن کی زندگی اب تک درد اور اذیت کے سائے میں گزری۔

خیال رہے کہ دونوں بہنوں نے ستمبر 2023 میں اپنی بچپن کی شادی کو منسوخ کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ یہ تاریخی فیصلہ 10 مئی کو ہونے والی اکشے ترتیہ کے موقع پر سامنے آیا جب ملک اور خاص طور پر راجستھان میں بچوں کی شادی بڑے پیمانے پر چل رہی ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک انتباہ کی طرح ہے جو بچپن کی شادی میں ملوث ہیں۔