صدر فلسطین کا ترک پارلیمان سے خطاب، غزہ کے عوام سے اظہاریکجہتی کیلئے غزہ جانے اعلان
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ترک پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے دوران اب تک 40 ہزار لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔
استنبول: فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ترک پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے دوران اب تک 40 ہزار لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے دیگر فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ مل کر غزہ جاؤں گا۔ وہ ترکیہ کی پارلیمان سے تالیوں کی گونج میں خطاب کر رہے تھے۔خیال رہے محمود عباس مغربی کنارے کے علاقے رملہ میں رہتے ہیں۔
جسے فلسطینی اتھارٹی کا ہیڈکوارٹر کہا جاتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے تمام حکام بھی مقبوضہ مغربی کنارے ہی میں رہتے ہیں۔ جبکہ غزہ پر حماس کا سیاسی اور انتظامی غلبہ ہے۔2007 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد غزہ کی نمائندہ فلسطینی جماعت کے طور پر حماس وہاں کی حکمران جماعت کے طور پر موجود ہے۔
اس دوران انہوں نے غزہ میں قائم فلسطینی وزارت صحت کے جنگ سے متعلق اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 40 ہزار شہیدوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔محمود عباس نے اپنے عربی زبان میں کیے گئے خطاب کے دوران کہا کہ ‘میں نے غزہ جانے کا جو فیصلہ کیا ہے، میں اس پر ضرور عمل کروں گا۔
خواہ اس میں میری جان بھی چلی جائے۔فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی طرف سے پچھلے گیارہویں مہینے میں داخل ہو چکی جنگ میں یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے غزہ کے لوگوں سے اس انداز سے اظہار یکجہتی کیا ہے اور غزہ جانے کا اعلان کیا ہے۔ محمود عباس نے کہا ‘ہماری زندگیاں عام فلسطینی بچے سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔
انہوں نے ترک پارلیمان سے خطاب کے دوران سفید رنگ کا سکارف اوڑھ رکھا تھا۔ جس میں فلسطین اور ترکیہ کا پرچم بنا ہوا تھا۔ ان کی اس تقریر کو صدر رجب طیب اردوان کے علاوہ ان کے نائبین نے بھی سنا۔محمود عباس کا کہنا تھا کہ ‘غزہ پورے کا پورا فلسطین کا ہے اور فسطینیوں کا ہے۔ ہم اس کی تقسیم قبول نہیں کریں گے۔
کوئی فلسطینی ریاست غزہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہمارے غزہ کے لوگ سرنڈر نہیں کریں گے۔ محمود عباس فلسطینی اتھارٹی کے صدر ہیں مگر حماس کے سیاسی حریف ہیں۔
محمود عباس نے صدر اردغان کی تحسین کی کہ انہوں نے مسئلہ فلسطین پر مضبوط اور جرات مندانہ مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔ تاہم اس موقع پر انہوں نے ان رہنماؤں پر سخت تنقید کی جو اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر بھی اپنے لب سی کر بیٹھے ہوئے ہیں۔