دہلی

مسلمانوں کے حقوق نہیں چھینے جارہے ہیں: وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو

مرکزی وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو نے جمعرات کو اپوزیشن کے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ مسلمانوں کے حقوق چھینے جارہے ہیں۔

نئی دہلی: مرکزی وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو نے جمعرات کو اپوزیشن کے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ مسلمانوں کے حقوق چھینے جارہے ہیں۔ راجیہ سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2025 پیش کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ شمولیاتی قانون سازی کا مقصد مسلم خواتین کو بااختیار بنانا اور مسلمانوں کے تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ ایوان ِ بالا میں بعض اپوزیشن ارکان ِ پارلیمنٹ بل کے خلاف بطور احتجاج سیاہ پٹیاں باندھے ہوئے تھے۔

لوک سبھا میں 12 گھنٹے طویل مباحث کے بعد جمعرات کی اولین ساعتوں میں اس بل کو 232 کے مقابل 288 ووٹوں سے منظوری دی گئی۔ راجیہ سبھا میں رجیجو نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بل وقف جائیدادوں کے انصرام میں شفافیت‘ جواب دہی اور موثر کارکردگی لاناچاہتا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ صرف ایک مسلمان ہی ”واقف“ بن سکتا ہے اور کہا کہ سنٹرل وقف کونسل میں غیرمسلم ارکان کی اکثریت کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔

ایوان ِ بالا میں یہ بل پیش کرتے ہوئے جس کا مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(جے پی سی) نے جائزہ لیا ہے اور مسودہ دوبارہ تیار کیا ہے‘ رجیجو نے کہا کہ مجوزہ قانون سازی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں یہ صرف جائیدادوں سے متعلق ہے۔ وزیر نے ایوان کو بتایا کہ 2004 میں 4.9 لاکھ وقف جائیدادیں تھیں جو اَب بڑھ کر 8.72 لاکھ ہوچکی ہیں۔

بل کی منظوری کے لئے اپوزیشن سے تائید کرنے کی خواہش کرتے ہوئے رجیجو نے کہا کہ اس کا مقصد سابقہ حکومتوں کے ادھورے کاموں کی تکمیل کرنا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں وقف کے پاس جائیدادوں کا بڑا حصہ ہے۔ ڈیفنس اور ریلویز کے بعد اس کا نمبر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ کہا جارہا ہے کہ ہمارے اس اقدام سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا‘ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ غیردستوری‘ غیرقانونی ہے اور مسلمانوں کے حقوق چھینے جارہے ہیں۔ میں ان تمام الزامات کو مسترد کرتا ہوں“۔

وزیر اقلیتی امور نے وقف بہ اعتبار استعمال پر بولتے ہوئے بتایا کہ جن جائیدادوں کا مناسب دستاویزات کے ساتھ پہلے ہی رجسٹریشن ہوچکا ہے ان سے استقدامی اثر کے ساتھ نہیں نمٹا جائے گا۔ بہرحال اگر کوئی متنازعہ اراضی ہو یا کوئی معاملہ زیرتصفیہ ہو پھر ہم عدالتوں کے حق کو ختم نہیں کرسکتے لہٰذا ایسی تمام وقف جائیدادیں جو مناسب دستاویزات کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ایسی ہی رہیں گی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس ساری مشق کا مقصد شفافیت‘ جواب دہی اور موثر کارکردگی کے 3 ستونوں کو لانا تھا۔ ہم کسی کے مذہبی الحاق کو نقصان پہنچانے کے لئے یہاں نہیں ہیں۔ انہوں نے عدالت کے ایک سابقہ فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وقف ایک قانونی ادارہ ہے‘ مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ نہیں۔ اس ترمیم میں ہم نے یہ واضح کردیا ہے کہ زائداز 5 سال تک اسلام پر عمل کرنے والا کوئی بھی شخص اپنی جائیداد وقف کرسکتا ہے۔

واقف کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ ہم نے جو نئی دفعات لائی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے تمام مسلمہ فرقوں کو وقف بورڈ کی تشکیل میں شامل کیا جائے گا۔ ان میں شیعہ ہوں گے‘ سنی ہوں گے اور دیگر پسماندہ طبقات کو بھی وقف بورڈ میں بحیثیت رکن شامل کیا جائے گا تاکہ تمام کے مفادات کا خیال رکھا جاسکے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کی کوئی مخالفت ہوگی۔ ہم اسے اتنا شمولیاتی بنارہے ہیں۔

انہو ں نے مزید کہا کہ سنٹرل وقف کونسل کے 22 ارکان کے منجملہ 4 سے زیادہ غیرمسلم نہیں ہوں گے۔ 3 ارکان پارلیمنٹ ہوں گے جن کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہوسکتا ہے۔ کونسل میں 2 خاتون ارکان کو بھی لازمی طورپر شامل کرنا ہوگا۔ غیرمسلموں کی اکثریت کا یہاں سوال پیدا نہیں ہوتا۔