کشمیر میں کئی ممتاز سیاسی قائدین نظر بند، شہداء کو خراج عقیدت ادا کرنے سے روک دیا گیا
جموں وکشمیر میں برسراقتدار نیشنل کانفرنس اور اپوزیشن جماعتوں (بی جے پی شامل نہیں) کے ممتاز سیاسی قائدین نے اتوار کے دن دعویٰ کیا کہ اُنہیں آج ہی کے دن 1931 میں ڈوگرا فوج کے ہاتھوں ہلاک 22 کشمیریوں کو خراج عقیدت ادا کرنے سے روکنے کیلئے اُن کے گھروں میں نظربند کردیا گیا۔
سری نگر (پی ٹی آئی) جموں وکشمیر میں برسراقتدار نیشنل کانفرنس اور اپوزیشن جماعتوں (بی جے پی شامل نہیں) کے ممتاز سیاسی قائدین نے اتوار کے دن دعویٰ کیا کہ اُنہیں آج ہی کے دن 1931 میں ڈوگرا فوج کے ہاتھوں ہلاک 22 کشمیریوں کو خراج عقیدت ادا کرنے سے روکنے کیلئے اُن کے گھروں میں نظربند کردیا گیا۔
سرکاری سطح پر نظر بندی کی توثیق نہ ہوسکی۔ چیف منسٹر عمر عبداللہ نے 22 افرا دکو خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے اِس واقعہ کا تقابل جلیان والا باغ(جالیاں والا باغ)قتل عام سے کیا۔ اُنہوں نے کہاکہ 22 افرادنے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جان دی تھی کیونکہ کشمیر اُس وقت انگریزوں کے ماتحت تھا۔ شرم کی بات ہے کہ انگریزوں کی حکومت کے خلاف لڑنے والے سچے ہیروز کو آج صرف اس لئے ویلن قراردیاجارہا ہے کہ وہ مسلمان تھے۔
1919 میں امرتسر کے جالیاں والا باغ میں رولٹ ایکٹ کے خلاف پرامن مظاہرہ ہورہا تھا کہ برٹش فورسس نے بلا اشتعال گولیاں چلادی تھیں۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ ہمیں آج گنج شہیداں جانے کا ممکن ہے موقع نہ ملے لیکن ہم اُن 22 افراد کی قربانیاں فراموش نہیں کریں گے۔ اپوزیشن جماعت پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہاکہ دہلی اور کشمیریوں کے بیچ کی بد اعتمادی اُسی وقت ختم ہوگی جب ہندوستان کشمیری شہدا ء کو اپنا مان لے۔
اُنہوں نے ایکس پرکہاکہ جس دن آپ ہمارے ہیروز کو اپنا لیں گے جیسا کہ کشمیریوں نے آپ کے ہیروز مہاتما گاندھی سے لیکر بھگت سنگھ تک کو اپنالیادل کی دوری جیسا کہ وزیر اعظم مودی نے کبھی کہا تھا ختم ہوجائے گی۔ سابق چیف منسٹر نے اپنے بنگلہ کی گیٹ پر لگے قفل کی تصویر بھی شیئر کی۔ اُنہوں نے کہاکہ جب آپ لوگ گنج شہیداں کا محاصرہ کرلیتے ہو، لوگوں کو مزار شہداء جانے سے روکنے کیلئے اُنہیں گھروں میں نظر بند کردیتے ہو تو یہ اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کرتا ہے۔
13 جولائی کا دن ہمیں اُن شہداء کی یاد دلاتا ہے جو ظلم وزیادتی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ یہ شہدا ء ہمیشہ ہمارے ہیرو رہیں گے۔ سابق چیف منسٹر نے دعویٰ کیا کہ اُن کی پارٹی کے کئی قائدین جو اپنے گھروں سے نکلنے میں کامیاب رہے مختلف اسٹیشنوں میں روک دیئے گئے۔ یہ لوگ مزار شہداء جارہے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اُسی ظالمانہ دور میں واپس جارہے ہیں جس کے خلاف 13 جولائی کے شہداء نے لڑائی لڑی تھی۔
پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے بھی دعویٰ کیا کہ اُنہیں اُن کے بنگلہ سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔اُنہوں نے کہاکہ پتہ نہیں مرکزی حکومت کو کشمیری عوام کیلئے کیا مقدس ہے یہ ازسر نو طئے کرنے سے اتنی زیادہ دلچسپی کیوں ہے۔ 13 جولائی کی قربانیاں ہم سبھی کیلئے مقدس ہیں۔ حریت کانفرنس کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے جو جمعہ سے اپنے بنگلہ میں نظربند ہیں کہاکہ کشمیر اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانیوں کی تکلیف دہ تاریخ کا شاہد ہے۔ سیاسی قائدین کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں اس لئے نظر بند کیا گیا کہ اُنہیں سری نگر کے پرانے شہر میں نوہٹہ کے قریب نقشبند صاحب گنج شہیداں جانے سے روکا جائے۔ اگست 2019 سے قبل جموں وکشمیر میں 13 جولائی کو عام تعطیل ہوتی تھی۔
اُس دن قومی دھارا کے سیاسی قائدین گنج شہیداں جاکراُن کشمیریوں کو خراج عقیدت ادا کرتے تھے جو مہاراجہ کی حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران ڈوگرا فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ حکام نے اتوار کے دن پرانے شہر میں گنج شہیداں جانے والی تمام سڑکوں کو بند کردیا۔ سری نگر شہر میں داخلہ کے تمام راستوں پر پولیس اور نیم فوجی دستے تعینات کردیئے گئے۔ نیشنل کانفرنس نے ضلع مجسٹریٹ (کلکٹر) سر نگر کو درخواست دی تھی کہ اُسے 13 جولائی 1931 کے شہداء کو خراج عقیدت ادا کرنے دیا جائے لیکن یہ اجازت نہیں دی گئی۔ نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ تنویر صادق نے کہاکہ کشمیری عوام اپنے شہداء کو وقار کے ساتھ پرامن خراج ادا کرتے رہیں گے۔