بہار میں بدلتی مسلم سیاست کے آثار
بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں واقع ’حج ہاؤس‘میں ریاست بھر سے کثیر تعداد میں آئے مسلم سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور بااثر لوگوں کے ساتھ جن سوراج پارٹی کے پروگرام نے بہار کی بدل رہی مسلم سیاست کی طرف اشارہ کیا ہے۔
پٹنہ: بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں واقع ’حج ہاؤس‘میں ریاست بھر سے کثیر تعداد میں آئے مسلم سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور بااثر لوگوں کے ساتھ جن سوراج پارٹی کے پروگرام نے بہار کی بدل رہی مسلم سیاست کی طرف اشارہ کیا ہے۔
گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے بہار کے مسلمان لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کے ساتھ آتے جاتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے جتنے بھی بڑے پروگرام ہوئے ہیں ان میں یہ دونوں رہنما اثر و رسوخ کے ساتھ موجود تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہفتہ کو اتنی بڑی تعداد میں مسلم لیڈر اور کارکن کسی تیسرے بہاری لیڈر کی خدمت میں کھڑے ہوئے ہوں۔
اگر ہم تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو 1990 میں لالو پرساد نے بھاگلپور فسادات کا حوالہ دے کر مسلم ووٹروں کو کانگریس سے دور کر دیا تھا۔ اس سے پہلے ملک کی آزادی کے بعد 1990 تک بہار میں مسلمان کانگریس کے مستقل حلیف تھے۔
بہار میں کانگریس پارٹی کے آخری وزیر اعلیٰ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرکو تو بہت سے لوگ مولانا ڈاکٹر جگن ناتھ مشرکہتے تھے۔ بھاگلپور کے فسادات کے وقت ستیندر نارائن سنہا بہار کے وزیر اعلیٰ تھے۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ستیندر بابو نے فسادات کے دوران مسلمانوں کی حفاظت کے لیے مناسب انتظامات نہیں کیے تھے اور یہ کسک مستقبل کی مسلم سیاست میں صاف طور پر نظر آتی رہی ہے۔
اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بہار میں مسلمانوں کے زخم گہرے ہیں۔ ڈاکٹر جگن ناتھ مشرکووہ پسند نہیں کرتے تھے لیکن ان کی مولانا امیج کی وجہ سے انہوں نے انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا لیکن اس بار 1990 کے اسمبلی انتخابات میں لالو پرساد یادو نے مسلم ووٹوں پر غلبہ کی جنگ جیت لی۔
اس کے بعد کانگریس کبھی بہار میں وزیر اعلیٰ کے عہدے تک نہیں پہنچ پائی۔1995 کا الیکشن آخری موقع تھاجب بہار اسمبلی میں کسی ایک پارٹی کو اکثریت ملی تھی۔ الیکشن میں لالو پرساد یادو کی جنتا دل اور بعد میں بننے والی پارٹی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کو مسلمانوں کی زبردست حمایت حاصل ہوئی۔
بعد میں مسلم ووٹروں کا ایک حصہ نتیش کمار کی طرف چلا گیا جس کی وجہ سے انہیں وزیر اعلیٰ کی کرسی ملی۔ اس کے باوجود لالو پرساد ریاست کے مسلمانوں کے سب سے بڑے مسیحا بنے رہے۔ فروری 2005 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے بعد لوک جن شکتی پارٹی کے اس وقت کے قومی صدر رام ولاس پاسوان کسی مسلمان کو وزیر اعلیٰ بنانے پر بضد تھے لیکن لالو پرساد یادو اس کے لیے تیار نہیں تھے، جس کی وجہ سے صدر راج نافذ کرنا پڑا اور بہار اسمبلی کو تحلیل کرکے دوبارہ انتخابات کرانا پڑے۔ نومبر 2005 کے اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار کے اتحاد کو اکثریت حاصل ہوئی اور وہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔