راہول گاندھی کی حقیقت بیانی پر طوفان سا کیوں ہے

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
حالیہ برطانیہ دورے پر حزب مخالف لیڈر راہول گاندھی نے حکومت ہند کو آئینہ کیا دکھایا کہ حکومت اور برسراقتدار پارٹی شرمندہ اور نادم ہونے کی بجائے راہول گاندھی سے ہی معافی طلب کر رہی ہیں ۔ راہول کی تقاریر پر اتنا طوفان اس لیے بھی دانستہ طور پر اٹھایا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوسرے دور میں حزب مخالف نے متحد ہو کر ایک بار پھرہنڈن برگ کی رپورٹ کے بموجب ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے والے گوتم اڈانی کا معاملہ اٹھانے اور پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے جانچ کرانے کا مطالبہ پوری شدت سے اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا ۔ پارلیمنٹ میں اڈانی پر کوئی مباحث نہ ہو ، اس لیے پارلیمنٹ میں راہول گاندھی کی تقاریر کا سہارا لیا گیا اور پارلیمنٹ میں دونوں جانب سے اتنا ہنگامہ ہوا کہ آخر کار پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی اگلے روز تک کے لیے ملتوی کر دی گئی، جو حکومت کے منشا کے مطابق ہوا۔اس سے ایک دن قبل وزیر اعظم مودی نے بھی بنگلور میں اس بابت راہول گاندھی کا نام لیے بغیر کہا کہ لندن میں کچھ لوگ ہندوستان کی جمہوریت پر سوال اٹھا کر ہندوستان کی اقدار اور اس کے ایک سو تیس کروڑ شہریوں کی توہین کر رہے ہیں۔جس کے جواب میں کانگریس صدر ملکا رجن کھرگے نے کہا کہ افسوس جمہوریت کو کچلنے والے آج جمہوریت کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں ۔حکومت نے جس طرح بی بی سی ،لندن کی فلم پر پابندی لگائی اور اس کے دفتر میں حزب مخالف رہنماو¿ں کی طرح چھاپا مارا گیا ، اس واقعہ کے بعد سے ہی یہ قیاس لگایا جا رہا تھا کہ ہندوستان کا کوئی بھی اہم شخص لندن کا دورہ پرجائے گا ، اس سے ایسے سوالات ضرور پوچھے جائیں گے جو راہول گاندھی سے پوچھے گئے ۔
دراصل گزشتہ ماہ کی 28 فروری کو کیمبرج یونیورسٹی اور اس کے بعد 4 سے 6 مارچ کے دوران برطانیہ کے مختلف پروگراموں میں حزب مخالف رہنما راہول گاندھی نے اپنے خطابات اور پریس کانفرنس میں ملک کی برسراقتدار حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے وہی باتیں کہیں ، جو کھلے طور پر پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ بار باریہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ ملک میں جونفرت، تشدد، عدم رواداری ، ظلم و بربریت ، آئینی اور انسانی حقوق کی پامالی ، مذہب کے نام پر فرقہ واریت ، آزادی¿ اظہار پر پابندی ، جمہوریت کی پامالی ، بڑھتی فسطائیت وآمریت ،عدلیہ ، سی بی آئی ، ای ڈی ، انکم ٹیکس ، الیکشن کمیشن وغیرہ جیسے اہم جمہوری اداروں پر بڑھتی گرفت ، گرتی معیشت ، بدعنوانی کے بڑھتے گراف ، حکومت سے سوال کرنے پر جھوٹے الزامات کے تحت گرفتاری ، تنقید کئے جانے پر بلڈوزر کی کارروائی، مآب لنچنگ ، لو جہاد ، دھرم سنسدوں میں اشتعال انگیز بیانات ، قاتلوں اور زانیوں کے لیے ہمدردی وغیرہ جیسے سانحات اورواقعات جوحکومت کی سرپرستی میں انجام دیے جا رہے ہیں،ان سے بلا شبہ ہمارے ملک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے، جن پر بہت ہی ذمہ داری اور سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اقتدار کے نشہ میں کوئی بھی ان باتوں کو سمجھنے کو تیار نہیں ہے اور بے وقوفوں کی جنت میں رہنے والے یہ لوگ ایسا لگتا ہے کہ دسویں یا بارہویں صدی میںجی رہے ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیںکہ جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے ، وہ سب ملک کے در و دیوار کے باہر نہیں پہنچ رہا ہے ۔ اس دور جدید میں دنیا اب گلوبل گاو¿ں کے مترادف ہو گئی ہے اور کسی بھی سانحہ ، واقعہ یا حادثہ کی خبر پل بھر میں بازگشت کرنے لگتی ہے ۔ اگر حکومت کو بیرون ممالک میں ملک کی شبیہ کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ ایسے تمام غیر آئینی اور غیر انسانی سانحات اور واقعات پر قدغن لگائے اور بہت سنجیدگی و ذمّہ داری کے ساتھ ملک کے عوام کے بنیادی مسائل کے تدارک کی کوشش کرے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی محبت اور سا لمیت کا ان کے اندر کوئی جذبہ نہیں۔ انگریزوں کے تسلط سے ملک کو آزاد کرانے میںجن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں ، ان قربانیوںمیں اگر ان کی تھوڑی بھی حصہ داری ہوتی تو وہ ملک کی سا لمیت کی اہمیت کو سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس حکومت سے سوال کرنے والے کو غدّار وطن قرار دینے میں تاخیر نہیں کرتے۔ یہ لوگ سچی بات جو بلا شبہ کڑوی ہوتی ہے وہ نہ سڑکوں پر سننے کو تیار ہیں ، نہ ہی پارلیمنٹ میں اور نہ ہی بیرون ممالک میں ۔ راہول گاندھی نے برطانیہ میں جو کچھ کہا وہ قطئی طور پر ملک سے غداری نہیں ہے ، جیسا کہ انوراگ ٹھاکر ، روی شنکر پرساد ، کرن رجیجو، سدھانشو تری ویدی وغیرہ بتا رہے ہیں۔درحقیقت راہول گاندھی کے حقائق پر مبنی بیانات سے ملک کی سلامتی کو خطرہ نہیں ہے بلکہ بی جے پی ، آر ایس ایس اور ان کی حکومت کی سلامتی کا خطرہ لاحق ہے ۔ انھیں اگر واقعی ملک سے اتنی ہی ہمدری اور محبت ہے تو ذرا کھلے دماغ سے ایک نظر ملک کی جمہوریت ، بھوک مری ، آزادی¿ اظہار ، انسانی فلاح کے عالمی انڈیکس پر ڈالنے کی زحمت کریں،تب شاید سمجھ میں آئے کہ ہمارا ملک اس وقت کہاں کھڑا ہے ۔ہمارے ملک کی جمہوریت جو کبھی پوری دنیا میں ستائش کی نظروں سے دیکھی جاتی تھی ، اس حکومت کی ناقص کارکردگیوں کے باعث اپنے پڑوسی ممالک سری لنکا(88) ، نیپال (71)، بھوٹان (65) وغیرہ جیسے چھوٹے ممالک سے بھی پچھڑ کر اس وقت Liberal Democratic Index کے مطابق 93 مقام پر پہنچ کر شرمندہ ہو رہی ہے ۔ سویڈن کے ایک معتبر ادارہ وی ڈیم نے توعالمی درجہ بندی میںہندوستان کی جمہوریت کی پامالی کو 104 ویں پائدان پر رکھا ہے، جو باعث تشویش اور شرمناک ہے ۔ لیکن حکومت کو ایسی باتوں کی کوئی فکر نہیں ہے ، انھیں فکر ہے تو صرف اس بات کی کہ کیسے اپنی ناقص کارکردگیوں کے باوجود ملک پر قبضہ برقرار رہے اور ان کی اور ان کے خاص صنعت کاروں کی تجوریاں بھرتی رہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حکومت ملک کی غربت ، بھوک مری ، بے روزگاری ، بدعنوانی جیسے مسئلے کے تدارک کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کرتی ، لیکن افسوس کہ ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے ۔ افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ راہول گاندھی کے خطابات اور بیانات کوہندوستان کے اتحاد کے لیے انتہائی خطرناک ، ملک کو تقسیم کے لیے اکسانے والے ، ملک کو شرمسار کرنے والے ، ملک کی شبیہ کو داغدار کرنے والے بتایا گیا ہے ، لیکن راہول گاندھی نے جتنی بھی باتیں کہی ہیں ، وہ سب کی سب حقائق پر مبنی ہیں ، اس لیے حکومت کے درجن بھر وزرا اور ترجمان ان باتوں کو کاٹنے کی ہمت نہیں دکھا رہے ہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو ان کے ظلم و بربریت، حق تلفی ، ناانصافیوں کے اوراق کھلتے چلے جائیں گے ۔ اب دیکھیے کہ راہول گاندھی نے اپنے برطانیہ دورہ میں ساورکر کی کتاب کے حوالے کے ساتھ یہ بتایا کہ اس کتاب میں ساورکر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’ ایک بار انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کرایک مسلمان آدمی کو مارا تو اس دن انھوں نے بہت خوشی محسوس کی ۔‘ ساورکر کے اس بیان کو ملک کے اندر ہونے والے ہجومی تشدد کے تناظر میں دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں ہجومی تشدد میں سینکڑوں مسلمان ساورکر کے اسی نظریے کے تحت قتل کئے گئے ۔ اگر اس بات کو راہول کی مخالفت میں اترے لوگ ساورکر کی کتاب کے حوالے سے بتاتے کہ اس کتاب میں ایسا کچھ نہیں لکھا گیا ہے تو بلا شبہ راہول گاندھی بیک فٹ پر آجاتے اور لوگ ان کے اس جھوٹے بیان کی تنقید کرتے ۔ لیکن راہول کی کسی ایک بات کو بھی کاٹنے کی کوئی ہمت نہیں دکھا رہا ہے ۔ آج جو لوگ برطانیہ میں راہول گاندھی کے خطابات پر معترض ہیں وہ ذرا مڑ کر وزیر اعظم نریندر مودی کے شنگھائی ، سیول ، متحدہ عرب امارات، عمان ، ٹورنٹو اور امریکہ جیسے بیرون ممالک میں ملک کی ”عزت و افتخار “میں چار چاند لگانے والے بیانات مثلاََ ” پہلے لوگ سوچتے تھے کہ پچھلے جنم میں کیا پاپ کیا تھا کہ ہندوستان میں پیدا ہوئے “ یا یہ کہ ” ملک کے میں ستّر سالوں میں کچھ نہیں ہوا “ یا یہ کہ ”جن کو گندگی کرنی تھی وہ گندگی کرکے چلے گئے “ وغیرہ وغیرہ ۔دراصل یہ معاملہ بقول کانگریس ترجمان سپریہ شرینت راہول گاندھی کی بڑھتی مقبولیت سے حکومت خوف زدہ ہے اور راہول جب بولتے ہیں تب ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک جاتی ہے ، اس لیے کہ راہول کی باتیں حقائق پر مبنی ہوتی ہیں ۔ اگر راہول یہ کہتے ہیں کہ ” حزب مخالف کا ایک لیڈر کیمبریج یا ہاورڈ میں بول سکتا ہے لیکن بھارت کی کسی یونیورسٹی میں نہیں “ اس بات میں کتنی صداقت ہے ، یہ بات کوئی چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ راہول گاندھی اگر کہتے ہیں کہ ” پریس ، عدالت ، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن پر آر ایس ایس کا قبضہ ہے “ تو کیا غلط کہا ۔ راہول گاندھی پر بھی ای ڈی وغیرہ کا شکنجہ کسنے کی کوشش کی گئی ، لیکن کامیابی نہیں ملی اور راہول گاندھی بار بار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مجھے مودی حکومت سے ڈر نہیں لگتا ہے ۔ یہ ہمّت وبزدلی کے درمیان کی جنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت راہول گاندھی سے خوفزدہ ہے ۔ ابھی برطانیہ دورہ میں دیے گئے بیانات پر جس طرح راہول گاندھی پر رکیک حملے کیے جا رہے ہیں ، یہ کوئی نیا نہیں ہے ۔راہول گاندھی ہوں یابیرون ممالک کی اہم شخصیات بار بار ملک کے حالات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔
چندسال قبل ہی کیلی فو رنیا یونیورسٹی(برکلے، امریکہ) کی دعوت پر ایک خطاب میں راہول گاندھی نے کچھ اس انداز کی تقریر کی تھی ، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سخت تنقید کی وجہ سے خوب خوب سرخیوں میںرہی۔ ویسے راہول گاندھی کے اس خطاب سے جہاں بھاجپا کے لوگ کافی چراغ پا نظر آئے تھے، وہیں عام طور پر لوگوں نے راہول گاندھی کی دانشوری ، بردباری او رسیاسی بالیدگی کی تعریف کی گئی تھی۔ ویسے بھارتیہ جنتا پارٹی اور ان کی برسراقتدار حکومت کے وزراءعام طور پر راہول گاندھی کی تقریباََ ہر تقریر کا مذاق اڑاتے رہے ہیں، لیکن اس بار راہول گاندھی نے ان لوگوں کو اس انداز سے آئینہ دکھا یاکہ وہ بہت زیادہ برا مان گئے اور اس تقریر کی مخالفت اور تنقید کے لیے ساتھ ہی ساتھ نریندر مودی کی حمایت میں بھاجپا کے 17 ترجمان او رحکومت کے 11 وزراء کو اترنا پڑا اور یہ لوگ دن رات مختلف ٹی وی چینلوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعہ اس بات کی صفائی دیتے رہے کہ امریکہ میں راہول گاندھی نے جو کچھ کہا ہے ، وہ سب غلط ہے ۔ ملک میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے ۔ نہ مہنگائی ہے، نہ بے روزگاری ہے، تعلیم وصحت بھی اعلیٰ درجے کی ہے، ہر طرف رواداری ، عدم تشدد، یکجہتی ہے منافرت، خوف ودہشت کا کہیں نام ونشان نہیں اور نوٹ بندی نے تو ملک کی ترقی میں انقلاب لا دیا ہے ، صنعتی اور تجارتی ادارے عروج پر پہنچ گئے ہیں، بلکہ روزگار کے بہت سارے دروازے کھل گئے ہیں۔ کسان خوش، جوان خوش، نوجوان خوش ،یعنی ملک کے سارے عوام خوش۔
دراصل بھاجپا کی پوری کی پوری مشنری جھوٹ اور صرف جھوٹ پر ہی کام کرتی ہے ۔ان حالات میں راہول گاندھی کے امریکہ میں آئینہ دکھانے پر برسراقتدار پارٹی اور حکومت کا چراغ پا ہونا کسی حد تک حق بجانب ہے کہ اب ان کے پیروںتلے سے زمین کھسکتی ہوئی نظر آ رہی ہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں کی گئی راہول گاندھی کی تقریر اور سوال جواب کو دیکھا اور بغور سنا تھا، وہ تعریف کیے بغیر نہیں رہے۔ تعریف اس لیے بھی ہوئی کہ راہول گاندھی کے خطاب اور اس کے بعد سوال وجواب کا جو موضوع ’ انڈیا ایٹ 70 ‘ تھا ، راہول گاندھی نے اسی موضوع کے حدود میں رہ کر بڑے اعتماد اور باوقار انداز میں باتیں کیں۔ ملک کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے اندر بہت تیزی سے تشویش ناک حد تک پنپ رہی شدت پسندی، منافرت، عدم رواداری، انتشار اور خلفشارکی جانب اشارہ کیا ، تو کیا غلط کیا ؟۔ اگر راہول گاندھی نے یہ کہا کہ ملک کے اندر صف بندی کی بد شکل سیاست نے سر اٹھا لیا ہے ۔ اعتدال پسند صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے ، دلتوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا جا رہا ہے ۔ گائے کے نام پر مسلمانوں کو سر راہ بے دردی سے ہجومی تشدد پسند قتل کر رہے ہیں ، جو ہندوستان میں نئی چیز ہے اور اس سے ملک کو بہت نقصان ہو رہا ہے ۔ راہول گاندھی نے یہ بھی کہا کہ نفرت کی سیاست نے ملک میں تقسیم اور صف بندی کر دی ہے ، جس سے لاکھوں لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کل ہی پرسوں کے نیو یارک ٹائمز نے کشمیر میں آزادی¿ صحافت پر مبینہ پابندیوں پر ایک رائے شائع کی ہے جس کے مطابق ” اگر مودی انفارمیشن کنٹرول کے کشمیر ماڈل کو ملک کے باقی حصوں میں پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف آزادی¿ صحافت بلکہ خود ہندوستانی جمہوریت کو بھی خطرہ میں ڈال دے گا “ اب اس خبر یا رائے پر بھی انوراگ ٹھاکر کو اعتراض ہے کہ نیو یارک ٹائمز نے ایسا کیوں شائع کیا ، یہاں پر بھی وہ راہول گاندھی کو ہی ذمّہ دار قرار دے رہے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت عالمی سطح پر ملک کو متنبہ کرنے والے بیانات کو منفی کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ قبول کرے اور جن کمیوں اور خامیوں کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے ، ان کے تدارک کی فکر کرے تو یقینی طور پر ملک اور حکومت کے لیے سود مند ہوگا ۔٭٭