غیر مسلموں كے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم
اسلام نے غیر مسلموں سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ’’اے لوگوہم نے تم کوایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں خاندان و قبائل میں تقسیم کردیا تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو۔‘‘ (سورہ الحجرات: ۱۳)
محمد مسیح اللہ
اسلام نے غیر مسلموں سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: ’’اے لوگوہم نے تم کوایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں خاندان و قبائل میں تقسیم کردیا تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو۔‘‘ (سورہ الحجرات: ۱۳) رنگ ونسل، زبان وبیان وعلاقه کے فرق کے باوجود احترام انسانیت مذکورہ بالا آیت کی تعلیم ہے۔ اختلاف کے باوجود تکریم انسانیت ضروری ہے۔اسی طرح قرآن بتاتا هے كه ولقد کرّمنا بنی آدم (سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)۔
اسلام کی حیرت انگیز تعلیم یہ ہے کہ وہ معاملات کےسلسلے میں انسانوں كے حقوق كی ادائیگی كی تلقین كرتاهے۔ ورنہ آخرت میںمواخذه سے کوئی شے روک نہیں سکے گی۔اسلام نے اعلان كیا: لااکراہ فی الدین (سورہ بقرہ: ۲۵۶)۔ ولوشاء ربک لآٰمن من فی الارض کلھم جمیعاً أفأنت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین (سورہ یونس: ۹۹)۔ اوراگر اللہ چاہتا توروئے زمین پربسنے والے سب کے سب ایمان لے آتے توکیا تم لوگوں کومجبور کروگے تاکہ وہ ایمان لائیں‘‘۔ مذکورہ آیت میں دین كے معاملے میں زور زبردستی کادروازہ بند کردیا گیا۔
سلام:
رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کوتعلیم دی کہ جب آپس میں ملو توسلام کیاکرو ۔سلام پھیلائو یعنی سماج میں اس کورواج دو۔ قرآن میں بیان ہواہے کہ ’’واذاحییتم بتحیّۃٍ فحیّوا بأحسن منھا أو ردّوھا انّ اللّٰہ کان علیٰ کل شئیٍ حسیبا‘‘ (سورہ نساء: ۸۶) اورجب تمہیں سلام کیاجائے توتم اس سے اچھا جواب دویا انہیں الفاظ کولوٹا دو۔بے شبہ اللہ ہرچیز کاحساب لینے والا ہے‘‘۔ عمل Action کا اس سے بہتررد عمل Reaction حسن سلوک کی اہمیت واضح کرتاہے۔اس آیت میں اللہ نے مسلمانوں کوحسن سلوک کاپابند کیاہے۔
تکریم انسانیت اورغیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کواسلام کے قانون جنگ میں بھی تلاش کیاجاسکتاہے۔اسلام نے مسلمانوں کودفاع (Self Defence) سے نہیں روکا اورنہ اس سلسلے میں غفلت برتنے کوکہا۔جنگ کے اندیشے کی حقیقت کوسامنے رکھتے ہوئے اسلام نے نظام وقانون جنگ کی بھی تعلیم دی لیکن اس میں بھی مسلمانوں کواعلیٰ اخلاق کاپابند کیااور کہاکہ جوش انتقام میں ہوش کھوکر عورتوں ،بچوں،بوڑھوں کوقتل نه كرو۔ (اسلام میں مذہبی رواداری، سیدصباح الدین عبدالرحمن، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ص۸۹) دیگر مذاہب کے معابد اوران کے علماء وپجاریوں کے احترام کی تعلیم بھی دی۔
اسلام نے مسلمانوں کوتمام نبیوں اوران پرنازل شدہ کتابوں پر ایمان لانے کاحکم دیا ’’لکل قومٍ ھاد‘‘ (سورہ رعد: ۷)۔ہم نے ہرقوم میں ایک راہ دکھانے والابھیجا ’’ولقد بعثنا فی کل امۃٍ رسولاً‘‘ (سورہ نحل: ۳۶) ہم نے ہرقوم میں ایک رسول بھیجا ۔سابقہ نبیوں اوررسولوں اوران پرنازل شدہ کتابوں پرایمان کاحکم اس کے بعد بھی دیاگیا جب کہ ان امتوں نے ان میں تحریف کردی ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ ونسوا حضاً مما ذکروابہ‘‘ (سورہ مائدہ: ۱۳)
عملی نمونہ:
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک یاتکریم انسانیت کی اسلامی تعلیم صرف اصولی نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ﷺ اورصحابۂ کرام نے عمل کرکے دنیا کے سامنے اعلیٰ مثال قائم کی۔ یہودیوں کی شرانگیزی سے سبھی واقف ہیں۔میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کے باوجود نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا،ہجرت مدینہ کے بعد نبی ﷺ کو یہود سے سابقہ پیش آیا وہ سود کا کاروبار بھی کرتے تھے اورعرب کی مارکیٹ پر ان کاقبضہ تھابعض دفعہ قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میںناروازیادتیاں كرتے تھے۔ (اسلام میں مذہبی رواداری، سیدصباح الدین عبدالرحمن، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، ص۴۲)
اس اخلاقی اورسماجی کمزوری کے باوجود بھی نبی اکرم ﷺ نے ان سے معاہدہ کیاجسے تاریخ میں ’’میثاق مدینہ‘‘ کہاجاتاہے اس معاہدے میںآپ نے انہیں مسلمانوں کے مساوی حقوق دیئے کیایہ حسن سلوک کی غیر معمولی مثال نہیں ہے؟
اخلاق كی اہمیت:
اسلام نے جہاں عقائد ، عبادات اور معاملات میں اپنے موقف کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔وهیں اخلاق کو بنیادی حیثیت دی۔ مذہب ہمیں زندگی کا مقصد بتاتا ہے ۔ ساتھ ہی دیگر مذاہب کےپیشواؤں كے عدم احترام سے روكتا هے۔
اسلام خدا کا نازل کردہ دین ہے لیکن دیگر مذہب صداقت سےکلیتاً خالی نہیں ہیں۔ ان میں اخلاق اور دیگر تعلیمات ہوسکتی ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں کہیں بھی مذہب قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیاگیا ۔ بلکہ اس کو قبول کرنے اور نہ کرنے کی آزادی ہے اس لیےکہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ آپؐ کی یہ فطری خواہش تھی کہ سب لوگ اسلام قبول کر لیں لیکن اللہ نے کہا کہ آپ اس سلسلے میں كوشش كر سكتے هیں ۔ جبر نهیں كر سكتے کہ یہ منشائے خداوندی کے خلاف ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے وہ چاہتا تو اپنی قوت قاهره سےسب کو اپنے دین کا تابع بنادیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ سب کو مذہب کے معاملے میں آزاد ی دی ۔’’اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین کے سارے کے سارے لوگ ایمان لے ہی آتے تو کیا تم لوگوں کو مجبور کروگے کہ وہ ایمان والے ہوجائیں‘‘۔(سورہ یونس: ۱۰)
خیر اُمت:
قرآن نے مسلمانوں کو خیراُمت قرار دیا تاکہ وہ بھلے بن کر نیکیاں پھیلائیں برائیوں سے منع کریں تویہ کیسے ممکن ہے کہ تبلیغ اسلام میں غلط رویہ اختیار کریں۔ قرآن کہتا ہے :’’ہر برائی کی مدافعت خوبی کے ساتھ کرو پھر تو تمہاری عداوت والا بھی تمہارا گرم جوش دوست بن جائے گا‘‘۔ (حم ٓ السجدہ: ۳۴)
قرآن میں بعض آسمانی کتابوں كا صراحت کے ساتھ ذکر ہےان کے علاوہ بھی آسمانی کتابیں ہیں جن کا قرآن میں ذکر نہیں اس لیے کسی صحیفہ میں آسمانی تعلیمات کی خصوصیات پائی جاتی ہوںتو مسلمانوں كو اس كےانکار كا بھی حق نہیں۔ قرآن نے کہا:’’ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے ہیں ان میں سے کچھ ایسے ہیں کہ ان کے حالات تم کو سنائے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات نہیںسنائے ‘‘۔ (سورہ نساء: ۱۶۴)
مسلمانوں نے دنیا میں جس جگہ قدم رکھا وہاں مذہب کے بارے میں جبر نہیں کیابلکہ حسن سلوک کیا اور وہ تمام حقوق دیے جو انسانیت کی بقا اور معاشرہ کے لیے ضروری تھے۔ ’’ ۱ن سے بہتر طریقے سے مجادلہ کرو‘‘۔ (سورہ النحل: ۱۲۵)
احترامِ انسانیت:
آپؐ یہودی کے جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو ئے، حضرت صفیہ کوحضرت زینب نے یہودیہ کہہ کر اونٹ دینے سے انکار کر دیا تو آپ ؐ غصہ هوئے۔ایک یہودی نے قرض کے لیے مقررہ وقت سے پہلے غیرمہذب طریقے سے مطالبہ كیا تو حضرت عمر ؓ نے اسے خداکادشمن کہا اس پر آپؐ نے کہا تم سے کچھ اور امید تھی کہ اس کو سمجھاتےكه نرمی سے تقاضا کرے اور مجھ سے کہتے کہ میں قرض اداکروں ۔یہ حسن سلوک کی تعلیم كے واقعات هیں۔
آپ ؐ نے عیسائیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ رکھا چرچ اور مذہبی رہنمائوں کی وہی حیثیت رکھی جو پہلے تھی ۔یمن کے حملے میں حاتم طائی کی بہن گرفتار ہوئی آپؐ نے فوراًان کو عزت کے ساتھ رخصت کیا۔
حسن سلوک کا ہی ثمرہ تھا جس نے اسلام کو تیزی سے ترقی دی کہ ’’نجران کا ایک وفد آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا اور انہیں اپنے طریقے پر نماز پڑھنے کی اجازت دی‘‘۔ (اسلام میں مذہبی رواداری، سیدصباح الدین عبدالرحمن، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، ص۷۹)
آپؐ نے جو خطوط آس پاس کے بادشاہوں کو بھیجے اس میں ان کو اہل کتاب کہہ کر پکارا مذہب میں کوئی زور زبردستی نہیں لیکن صحیح مذہب کی دعوت دینا نبی کا فرض ہے اور عام مسلمانوں کے ذمہ ہے کہ اس کو صحیح طریقے سے انسان کے سامنے پیش کردیں ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔
اسلام نےغیر مسلم ماں باپ، پڑوسی اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھے برتاؤ كی تلقین كی۔ اس کی پوری عملی تعلیم آپؐ کااسوئہ حسنہ ہے۔ قرآن نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی خاص تاکید کی اس میں غیر مسلم بھی آتے ہیں۔ یعنی اگر ماں باپ غیر مسلم ہوں تب بھی انہیں اف تک مت کہو۔ ان سے کوئی نامناسب سلوک نہ کرو مگر عقیدے کو ہر چیز پر مقدم قراردیا ۔ ’’ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی تاکید کی ہے اسکی ماں نے کمزوری میں اٹھاکر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دوسال اس کو دودھ چھوٹنے میں لگے اس لیے ہم نے اسے وصیت کی کہ تم میرابھی شکر اداکرو اور اپنے والدین کا بھی میری ہی طرف پلٹ کر آناہے اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرلے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی بات نہ مان او ر ان کے ساتھ معروف کے مطابق اپنا برتائو رکھ‘‘۔
والدین كا حق:
ماں باپ غیر مسلم ہوں تو بھی ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہے جس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے ۔’’ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت اسمابنت ابو بکر فرماتی ہیں کہ میری ماں جو مشرک تھیں مجھے ملنے آئیں میں نے آپؐ سے دریافت کیا کہ وہ مجھ سے کچھ توقع لے کر آئی ہیں کیامیں ان کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کر سکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ اسی طرح قرابت داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
اسلام نےہمسایہ سے حسن سلوک پر زور دیاہے :
’’ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہیں وراثت میں پڑوسی کا حصہ نہ مقرر کر دیا جائے۔ ہمسایہ( کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو )اگر بھوکا سوگیا تو قیامت کے دن اس کی باز پرس ہوگی‘‘۔
ایک حدیث ہے کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں پہنچانی چاہیے۔
خلاصہ بحث:
اسلام میں غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیا گیا ہے۔ اور احترام انسانیت كی جانب رہنمائی کی گئی ہے۔ انسانی رشتہ کو قائم ركھنے کی تاکید کی ہے لیکن اس کے حدود بھی مقرر کئے ہیں ۔ اسلام نے معاشرتی معاملات میں حسن سلوک کو پسند کیاہے لیکن عقیدہ کو مقدم رکھا ہے۔ اللہ رحمان ہے، ستارہے، غفارہے ، مگر ساتھ ہی قہار بھی ہے وہ شرك كو معاف نه كرے گا۔
یہی تعلیم اہل ایمان کو دی گئی ہے ہر ممکن حسن سلوک کو مدنظر رکھے مگر عقیدے میں خلل نہ آنے دے۔
اسلام کا مقصد غلط راہ سے راہ راست پر لانا ہے۔ مسلمانوں کا کام ہے کہ صحیح علم غیرمسلموں کے سامنے پیش کریں اور اپنے حسن اخلاق کے ذریعہ ان کو متاثر کریں نہ کہ جبراً ان کو ایمان لانے پرمجبور كریں ہدایت دینا صرف اورصرف اللہ کا اختیار ہے۔
٭٭٭