تلنگانہ حکومت کا بڑا قدم،عارضی ملازمین کی ریٹائرمنٹ سہولتیں ختم، 7 ہزار ملازمین متاثر
حکومت کا مؤقف ہے کہ اگر عدالتوں کے پُرانے فیصلوں کے مطابق ان ملازمین کی تقرری کو پچھلی تاریخوں سے نافذ کیا جائے، تو ریاستی خزانے پر تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کا بھاری بوجھ پڑے گا، جو موجودہ مالی حالات میں ممکن نہیں اور نہ ہی عوامی مفاد کے مطابق ہے۔
حیدرآباد: تلنگانہ کی خراب ہوتی مالی صورتحال کے پیشِ نظر ریاستی حکومت نے ایک اہم اور بڑا فیصلہ لیتے ہوئے عارضی ملازمین کی ریٹائرمنٹ سے متعلق تمام سہولتیں ختم کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے۔ یہ وہ ملازمین ہیں جن کی خدمات مختلف سرکاری محکموں میں کئی برس بعد مستقل کی گئی تھیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ اگر عدالتوں کے پُرانے فیصلوں کے مطابق ان ملازمین کی تقرری کو پچھلی تاریخوں سے نافذ کیا جائے، تو ریاستی خزانے پر تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کا بھاری بوجھ پڑے گا، جو موجودہ مالی حالات میں ممکن نہیں اور نہ ہی عوامی مفاد کے مطابق ہے۔
25 نومبر کو جاری ہونے والے اس حکم نامے کے ذریعے 1994 کے تلنگانہ مستقل تقرری قانون میں اہم ترامیم کی گئی ہیں، جن سے تقریباً 7 ہزار سرکاری ملازمین براہِ راست متاثر ہوں گے۔
سال 1994 میں حکومت نے ایک خصوصی رعایت دیتے ہوئے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کی اجازت دی تھی، بشرطیکہ فل ٹائم ملازم کم از کم 5 برس اور جزوقتی ملازم کم از کم 10 برس کی خدمت پوری کرے۔ بعد ازاں 1997 میں یہ وضاحت بھی کی گئی کہ مستقل تقرری ہمیشہ مستقبل کی تاریخ سے ہی نافذ ہوگی۔
تاہم انتظامی مسائل، خالی عہدوں کی کمی اور دیگر رکاوٹوں کی وجہ سے ہزاروں فائلیں برسوں تک زیرِ التوا رہیں، جس کے بعد ملازمین نے عدالت کا رخ کیا اور تقرری کو پچھلی تاریخوں سے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔ عدالتوں کے فیصلے مختلف آئے جبکہ سپریم کورٹ میں ریاست کی اپیلیں بھی کامیاب نہ ہو سکیں، جس کے نتیجے میں کئی توہینِ عدالت کی درخواستیں دائر ہوئیں۔
موجودہ کانگریس حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ یکم ستمبر 2004 سے نئی پنشن اسکیم نافذ ہے، اگر تقرری پچھلی تاریخوں سے نافذ ہوئی تو عارضی ملازمین سرکاری پنشن کے مستحق بن جائیں گے، جس سے وہ اُن ملازمین سے بھی زیادہ فائدہ حاصل کر لیں گے جو 2004 کے بعد باقاعدہ بھرتی ہوئے تھے۔ حکومت نے اسے مالی طور پر نقصان دہ اور ملازمین کے درمیان ناانصافی قرار دیا ہے۔
اسی بنیاد پر حکومت نے یہ حکم نامہ فوری طور پر نافذ کیا ہے اور امکان ہے کہ آنے والے اسمبلی اجلاس میں اس سے متعلق باقاعدہ بل بھی پیش کیا جائے گا۔