تلنگانہ

روہت ویمولا کی خودکشی کا معاملہ نتیجہ پر پہنچا

تلنگانہ ہائی کورٹ نے جمعہ کو روہت ویمولا کی خودکشی کیس کی جانچ گچی باولی پولیس کی طرف سے پیش کی گئی حتمی رپورٹ کی بنیاد پر مکمل کرلی۔

حیدرآباد: تلنگانہ ہائی کورٹ نے جمعہ کو روہت ویمولا کی خودکشی کیس کی جانچ گچی باولی پولیس کی طرف سے پیش کی گئی حتمی رپورٹ کی بنیاد پر مکمل کرلی۔

متعلقہ خبریں
ذات پات کی ہراسانی کی شکایت پر دلت بہن بھائی پر گھر کے اندر درانتیوں سے حملہ
کوہ مولا علی: کویتا کا عقیدت بھرا دورہ، خادمین کے مسائل اور ترقیاتی کاموں کی سست روی پر اظہار برہمی
فراست علی باقری نے ڈاکٹر راجندر پرساد کی 141ویں یومِ پیدائش پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا
فیوچر سٹی کے نام پر ریئل اسٹیٹ دھوکہ، HILT پالیسی کی منسوخی تک جدوجہد جاری رہے گی: بی آر ایس
گورنمنٹ ہائی اسکول غوث نگر میں ’’نومبر کی عظیم شخصیات‘‘ کے پانچ روزہ جشن کا شاندار اختتام، انعامی تقریب کا انعقاد

پولیس نے دعویٰ کیا کہ روہت ویمولا کا ذات پات کا سرٹیفکیٹ فرضی تھا اور ثبوت کی کمی کی وجہ سے کیس بند کردیا گیا۔

انہوں نے سکندرآباد کے اس وقت کے ایم پی بنڈارو دتاتریہ، ایم ایل سی این رام چندر راؤ، حیدرآباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اپا راؤ، مرکزی خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر اسمرتی ایرانی اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لیڈروں کو بے قصور قرار دیتے ہوئے ملزمین کو کلین چٹ دے دی ۔

پولیس کی وضاحت کے مطابق ان کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ روہت ویمولا نے اپنے ذات کے سرٹیفکیٹ سے متعلق مسائل پر خودکشی کی ۔

پی ایچ ڈی اسکالر روہت ویمولا (26) کی 17 جنوری 2016 کو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں خودکشی سے موت ہوگئی تھی۔ ان کی موت کے بعد دہلی سمیت کیمپس کے اندر اور باہر بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے کیا، جہاں مودی حکومت کو دلت مخالف ہونے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔

کیس بند کرنے کے ردعمل میں یونیورسٹی آف حیدرآباد کی طلبہ تنظیموں نے جمعہ کو ریاستی پولیس کی رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے کیس کے حقائق کی مکمل چھان بین کیے بغیر تمام ملزمان کو بری کردیا۔