
حیدرآباد (پی ٹی آئی) شہر حیدرآباد میں ایک26 سالہ شخص کی موت، جو بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا، نے ایک بار پھر نوجوانوں میں قلب سے مربوط بڑھتے مسائل کے واقعات پر توجہ مبذول کرائی ہے۔
ماہرین صحت نے ورکنگ پروفیشنلس نوجوانوں، جو خصوصیت کے ساتھ زیادہ تناؤ کے شعبہ جیسے آئی ٹی سیکٹر میں کام کرتے ہیں، کو مشورہ دیا کہ وہ ابتدائی عمر سے صحت مندانہ طرز زندگی اپنائیں اور امکانی خطرہ کو روکنے کے لئے باقاعدگی کے ساتھ ہیلت چیک اپ کراتے رہیں۔
حیدرآباد میں کامینینی ہاسپٹل کے سینئر کنسلٹنٹ کارڈیولوجسٹ ڈاکٹر ساگر بھویار نے اتوار کے روز کہا کہ پہلے 60 سال عمر کے افراد میں دل کے مسائل دیکھنے میں آتے تھے مگر اب 30 سال کے نوجوانوں میں ان مسائل کی تشخیص میں اضافہ ہورہا ہے۔ 60 سال کی عمر والوں میں خون کی شیریا نیں سکڑنے کی شکایت دیکھی جاتی تھی مگر اب یہ شکایت30 اور40 سال عمر کے افراد میں منتقل ہورہی ہے جس کا اہم سبب ایک جگہ بیٹھے رہنے کا طرزحیات، غذائی عادتیں اور تناؤ بتایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ساگربھویار نے پی ٹی آئی سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آج اسکولی بچے بھی شدید ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں کیونکہ ان پر بہت زیادہ مسابقتی ماحول اور بہتر کار کردگی کے مظاہرہ کا دباؤ رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص، پرسکون رہے گا تو اس کے دل پر دباؤ کے اثرات کم پڑیں گے لیکن اگر کوئی شخص، ذہنی دباؤ میں رہے گا تب ان کا قلب متاثر ہوگا۔
اپولو ہاسپٹل کی کنسلٹنٹ انٹرونیشنل کارڈیو لوجسٹ ڈاکٹر رادھا پریہ نے بھی ان ہی خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ دل کے مسائل اب معمر افراد کا مسئلہ نہیں رہااب، نوجوانوں میں بھی یہ اس طرح کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ڈاکٹر رادھا پریہ نے اتوار کے روز پی ٹی آئی کو بتایا کہ قلب کے مسائل کیلئے قابل ترمیم اور ناقابل تبدیلی کے خطرات اور خاندانی عوامل بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ناقابل تبدیلی عوامل میں مریض کی عمر اور قلب کے مسائل سے متعلق خاندانی ہسٹری شامل ہیں جبکہ قابل تبدیلی عوامل میں ذیابیطس، بی پی، سگریٹ نوشی، شراب نوشی، خراب لائف اسٹائل،جنکس اور روغنی غذاؤں کا استعمال اور ذہنی دباؤ شامل ہیں۔ موٹا پا بھی خطرناک عوامل میں شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ٹی سیکٹر کے ملازمین میں تناؤ، ایک جگہ بیٹھے رہنا، سگریٹ نوشی مشترکہ عوامل ہیں جن سے دل کی شکایت پیدا ہوسکتی ہیں اور یہ عوامل ہی خطرناک ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب جسم دائمی تناؤ کا شکار ہوجاتا ہے تو اس سے سوزش پیدا ہوتی ہے جو خون کی شیریانوں میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔
سینئر ڈاکٹر نے تجویز پیش کی کہ20سال کی عمر سے ہی طبی جانچ شروع کرنی چاہئے۔ انہوں نے اعتدال کے ساتھ سادہ غذا کا استعمال کرنے اور چہل قدمی جیسے فزیکل سرگرمیوں کو روزانہ کا معمول بنانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو بھی دستیاب ہوجائے، عوام اس پر جھپٹ پڑ رہے ہیں۔ شاپنگ ایپس کے ذریعہ5منٹ کے اندر ہر چیز، آپ کے مکان کی دہلیز پر دستیاب ہورہی ہے۔آپ کے اطراف واکناف بریانی کی فروخت ہورہی ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ اس بریانی کے پکوان میں کونسا تیل استعمال ہوا ہے۔
طویل مدت کے دوران یہ عوامل، صحت کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔رادھا پریہ نے یہ بات کہی۔ ڈاکٹر بھویار نے ڈبلیو ایچ او کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دل سے مربوط مسائل کو روکنے کا عمل بچپن سے ہی شروع کرنا چاہئے۔6 اور7ویں جماعت سے ہی بچوں کو یہ بتایا جانا چاہئے کہ غیر صحت مندکھانا نہیں کھانا چاہے۔ بچوں کو ہیلت ایجوکیشن کے بارے میں معلومات فراہم کی جانی چاہئے مگر بچے، مستقبل میں صحت کے مسائل پر زیادہ غور نہیں کرتے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ30 اور40 سال کی عمر میں یہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
بچوں میں جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہئے۔ کئی بچے، مختلف آلات کے عادی بن چکے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہئے کہ وہ بچوں کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت دیں۔ نوجوان ورکنگ پروفیشنلس جو رات دیر گئے یا شفٹ کی نوکریاں کرتے ہیں میں جسمانی سرگرمیاں ندارد رہتی ہیں۔
ان پروفیشنلس کو چاہئے کہ وہ جسمانی سرگرمیوں جیسے ورزش، چہل قدمی کو فروغ دیں اور بڑی حدتک دھوپ میں بیٹھیں تاکہ ان میں قوت مدافعت بڑھ سکے۔مختلف کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کو انجام دینے کے دوران حرکت قلب بند ہونے سے ہونے والی اموات پر ڈاکٹر پریہ نے کہا کہ ایسے واقعات بہت کم دکھائی دیتے ہیں تاہم ان افراد نے دل کی تشخیص نہیں کرائی ہوگی شائد انہیں پہلے سے کوئی شکایت درپیش ہو، انہوں نے کہا کہ ہرکسی کو باقاعدگی کے ساتھ ہیلت چیک اپ کراتے رہنا چاہئے۔