سوشیل میڈیاتلنگانہ

کریم نگر کے قبرستان میں بیٹھی مسلم لڑکی کا سچ سامنے آگیا، جانئے آخر کیا ہے پورا معاملہ

تلنگانہ کے کریم نگر سے گزشتہ دو دنوں میں ایک افسوس ناک اور جذباتی خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک مسلمان لڑکی اپنی ماں کی وفات کے غم میں تین دن سے قبرستان کی قبر کے پاس بیٹھی رہتی ہے، وہیں سوتی اور وہیں جاگتی ہے۔

تلنگانہ کے کریم نگر سے گزشتہ دو دنوں میں ایک افسوس ناک اور جذباتی خبر سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک مسلمان لڑکی اپنی ماں کی وفات کے غم میں تین دن سے قبرستان کی قبر کے پاس بیٹھی رہتی ہے، وہیں سوتی اور وہیں جاگتی ہے۔ اس خبر کو ’’ماں کی محبت‘‘ کی درد بھری مثال کے طور پر پیش کیا گیا، اور متعدد آن لائن پلیٹ فارمز نے بھی بغیر تصدیق اسے شیئر کردیا۔

تاہم اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ خبر حقیقت کے خلاف اور گمراہ کن ہے۔

جمیعت علماء کریم نگر نے خبر کو من گھڑت قرار دیا

جمیعت علماء کریم نگر کے صدر حافظ تبریز مدثر نے اس خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ لڑکی کی ماں اور والد دونوں زندہ اور بالکل خیریت سے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ لڑکی نہ تو یتیم ہے اور نہ ہی اپنی ماں کی قبر پر تین دن سے بیٹھی تھی۔

حافظ تبریز کے مطابق لڑکی کافی عرصے سے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہے، جس کے باعث وہ کبھی کبھار قبرستان جاتی ہے۔ اسی کیفیت کو سوشل میڈیا پر سنسنی خیز انداز میں غلط معنی دے کر پیش کیا گیا۔

لڑکی کے والد ڈرائیور، علاج کے باوجود افاقہ نہیں ہوا

حافظ تبریز نے بتایا کہ لڑکی کے والد ایک ڈرائیور ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کا علاج مختلف ڈاکٹروں اور مراکز پر کروایا، مگر ابھی تک کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔ انہوں نے اہلِ خیر، معالجین اور ماہرینِ نفسیات سے اپیل کی کہ کوئی اس لڑکی کے علاج میں مدد کرسکے تو ضرور رہنمائی کرے۔

سینئر جرنلسٹ سید امام الدین کی وضاحت

کریم نگر کے سینئر صحافی سید امام الدین نے بھی اس معاملے کی مکمل وضاحت کی اور کہا کہ وائرل خبر سو فیصد غلط ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لڑکی ذہنی دباؤ کا شکار ہے اور اس پر کچھ اثرات بھی ہیں، جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھار قبرستان چلی جاتی ہے، لیکن یہ بات سراسر جھوٹ ہے کہ وہ تین دن سے اپنی ماں کی قبر پر بیٹھی رہی ہو۔

سید امام الدین نے افسوس کا اظہار کیا کہ چند تلگو میڈیا پلیٹ فارمز نے خبر میں اپنی طرف سے اضافی اور غلط تفصیلات شامل کیں، اور کچھ اردو میڈیا صفحات نے بھی بغیر تصدیق انہیں شیئر کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو چاہیے تھا کہ وہ کم از کم خاندان یا مقامی ذمہ داران سے تصدیق کر لیتے۔

میڈیا اور سوشل میڈیا کے رویے پر تشویش

گزشتہ 48 گھنٹوں میں ایک خبر کو ایک میڈیا گروپ سے دوسرے تک بغیر تحقیق کے پھیلایا گیا، اور ہر پلیٹ فارم نے سنسنی بڑھانے کے لیے مزید مبالغہ شامل کیا۔ ذمہ داران نے کہا کہ ایسے اقدامات متاثرہ خاندان کے لیے تکلیف دہ ہیں اور میڈیا کی ساکھ سے بھی کھیلتے ہیں۔

اہلِ خیر اور عوام سے اہم اپیل

لڑکی کے والدین اور مقامی ذمہ داران نے عوام سے درخواست کی ہے کہ اس خبر کو مزید وائرل نہ کیا جائے۔ لڑکی کی ذہنی کیفیت اور اہلِ خانہ کی پریشانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے لیے دعاؤں اور علاج میں تعاون کی ضرورت ہے۔

خاندان نے کہا:
“براہ کرم اس غلط خبر کو آگے مت پھیلائیں۔ لڑکی کی صحت اور اس کے والدین کے لیے دعا کریں۔”

ذمہ دارانہ صحافت وقت کی ضرورت

یہ واقعہ ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں کسی بھی خبر کی شیئرنگ سے پہلے مصدقہ ذرائع سے تصدیق کرنا نہایت ضروری ہے۔ غلط معلومات نہ صرف حقیقت کو مسخ کرتی ہیں بلکہ متاثرہ خاندان کی ذہنی تکلیف میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔

نوٹ (منصف نیوز کی جانب سے)

منصف نیوز کی ویب سائٹ پر بھی یہ خبر ابتدائی طور پر شائع ہوئی تھی، تاہم مکمل تصدیق کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل خبر — کہ لڑکی اپنی ماں کی قبر پر تین دن سے موجود تھی — غلط اور بے بنیاد تھی۔ اس پر ہمیں افسوس ہے، اور ہم حقیقی اور مصدقہ خبروں کی فراہمی کے لیے پُرعزم ہیں۔