مذہب

عاشوراء کے دن کرنے کے کام

عیسوی سال جنوری کے مہینے سے شروع ہوکردسمبرکے مہینے میںختم ہوتا ہے اوریہ بات پڑھے لکھے سے لے کران پڑھ لوگوںتک کوبھی معلوم ہے؛ لیکن یہ بات مسلمانوں میںسے بھی کم لوگوں(جن کی اکثریت غیرتعلیم یافتہ ہے) کومعلوم ہے کہ اسلامی سال کاآغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوکرذی الحجہ کے مہینہ پرختم ہوتاہے،

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

عیسوی سال جنوری کے مہینے سے شروع ہوکردسمبرکے مہینے میںختم ہوتا ہے اوریہ بات پڑھے لکھے سے لے کران پڑھ لوگوںتک کوبھی معلوم ہے؛ لیکن یہ بات مسلمانوں میںسے بھی کم لوگوں(جن کی اکثریت غیرتعلیم یافتہ ہے) کومعلوم ہے کہ اسلامی سال کاآغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوکرذی الحجہ کے مہینہ پرختم ہوتاہے، پھرمحرم کی یاد ان کے نزدیک صرف اس وجہ سے ہے کہ اس مہینہ میںحضرت حسینؓ کی شہادت ہوئی اوربس؛ حالاںکہ اس مہینہ میںاوربھی کئی بڑے امورانجام پائے ہیں اورکچھ انجام پانے والے ہیں، وہ اموربھی اس لائق ہیںکہ انھیںموضوعِ گفتگوبنایاجائے؛ لیکن یہاںطوالت کے خوف سے اصل گفتگوکی جارہی ہے ۔

عاشوراء کادن بہت فضیلت والادن ہے، اس دن کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا خاص اہتمام فرمایا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: مارأیت النبی ﷺ یتحریٰ صیام یوم فضلہ علیٰ غیرہ، الا ہٰذا الیوم، یوم عاشوراء۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب صیام عاشورائ، حدیث نمبر: ۲۰۰۶)، ’’میںنے آپؐ کو عاشوراء اور رمضان کے علاوہ کسی اور دن کے روزہ تلاش کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جس کو دوسرے دن پر فضیلت حاصل ہو‘‘ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان عاشوراء یوم من ایام اللہ۔ (مسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، حدیث نمبر: ۲۶۴۲)، ’’عاشوراء اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے‘‘، اس دن کی فضیلت جان لینے کے بعدآیئے اس دن کے کام بھی جانتے چلیں؛ تاکہ ان چیزوںسے بچ سکیں، جواس دن کرنے کے نہیںہیں:

۱- روزہ : اس دن کااہم کام روزہ رکھناہے، اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام زمانۂ جاہلیت سے چلاآرہاہے، نبوت ملنے سے پہلے بھی آپؐ اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے اور ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو صحابہؓکو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوگئے تو یوم عاشوراء کے اس اہتمام کو ترک فرمادیا، چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں: کان یوم عاشوراء تصومہ قریش فی الجاہلیۃ، وکان رسول اللہ ﷺ یصومہ فی الجاہلیۃ، فلما قدم المدینۃصامہ، وأمر بصیامہ، فلما فرض رمضان، ترک یوم عاشوراء (بخاری، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، حدیث نمبر: ۲۰۰۰) علماء کا اس بات میں اتفاق ہے کہ یہ روزہ فرض نہیں، بل کہ سنت ہے،علامہ نووی ؒلکھتے ہیں: أجمع المسلون علیٰ أنہ الیوم لیس بواجب، وأنہ سنۃ۔ (المجموع: ۶/۴۰۷، فتح الملہم: ۶/۲۱۷)، ’’تمام مسلمانوںکااتفاق ہے کہ آج کے دن کاروزہ واجب نہیں، سنت ہے‘‘، یہ بات میںیایادرکھنے کی ہے کہ عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کی بھی بڑی فضیلت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت جب سوال کیاگیاتوآپ نے فرمایا: یکفرالسنۃ الماضیۃ۔ (مسلم، حدیث نمبر:۱۱۶۲)’’گزشتہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں‘‘۔

عاشوراء کے دن کی فضیلت قریش مکہ کے یہاں بھی تھی اور یہود مدینہ کے یہاںبھی، آپؐ کہ میں بھی اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے اور مدینہ میں بھی اس کا اہتمام فرمایا، اوریہ ایک طرح سے یہود کے ساتھ مشابہت رکھنے والا عمل تھا؛ جب کہ آپؐ کا عمومی معمول ان کے طرزعمل کی مخالفت ہواکرتاتھا؛ چنانچہ صحابہ کرامؓ نے اس بابت آپؐسے پوچھا: یا رسول اللہ! انہ یوم یعظمہ الیہود والنصاریٰ، فقال رسول اللہ ﷺ: فاذا کان العام المقبل انشاء اللہ صمنا الیوم التاسع۔ (مسلم، کتاب الصیام، باب ای یوم یصام عاشوراء، حدیث نمبر:۱۹۱۶) ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس دن کو تویہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں، تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: انشاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو روزہ رکھیں گے‘‘- اس روایت کے پیش نظر اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ دسویںکے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھنامستحب ہے، فقہائے احناف نے تنہا دسویں کا روزہ رکھنے کومکروہ قرار دیا ہے: ویکرہ صوم یوم عاشوراء مفرداً۔ ( الفتاویٰ الہندیہ: ۱/۲۰۲، الباب الرابع فیما یفسد وفیما لا یفسد)، کراہت کی اصل علت یہود ونصاریٰ کی مخالفت ہے، اس علت کی روشنی میں آج اگر تنہا دسویں کا روزہ رکھ لے تو کراہت نہ ہونی چاہئے، چنانچہ مولانا منظور نعمانی ؒ لکھتے ہیں: یہ عاجز عرض کرتاہے کہ ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یوم عاشوررہ کو روزہ نہیں رکھتے؛ بل کہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوںکے حساب سے نہیں ہوتا؛ اس لئے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں رہا، لہٰذا فی زماننارفع تشابہ کے لئے نویںیا گیارہویںکاروزہ رکھنے ضرورت نہ ہونی چاہئے، واللہ اعلم(معارف الحدیث: ۴/۱۷۱)۔

۲- رزق میںفراخی : اس دن دوسراکام یہ کرنے کاہے کہ دن بھرروزہ سے فراغت کے بعدشام کوگھرمیںمعمول سے بڑھ کرکھانے پینے کاانتظام کیاجائے، حدیث میںاس کی ترغیب دی گئی ہے، امام بیہقی نے کئی راویوںسے یہ حدیث نقل کی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: من وسع علی عیالہ وأہلہ یوم عاشوراء، وسع اللہ علیہ سائرسنتہ۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۳۷۹۵) ’’عاشوراء کے دن جو شخص اپنے اہل وعیال پر (کھانے پینے میں) فراخی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے لئے فراخی کرے گا‘‘، سند کے اعتبارسے اگریہ حدیث کمزورہے؛ لیکن ایک دوسرے سے مل کراسے قوت حاصل ہوجاتی ہے اوریہ حسن لغیرہ کے درجہ میںآجاتاہے، جس سے یہ معلوم ہواکہ یہ بے اصل بات نہیں ہے؛ اس لئے اس دن کادوسراکام اپنے اہل وعیال میں وسعت اورفراخی سے کام لیناہے؛ تاکہ سال بھرہمارے رزق میںکشادگی باقی رہے۔

۳- نمازوںکااہتمام : ہرمکلف پرنمازفرض ہے اوراس کے چھوڑنے پرگناہ ملے گا؛ لیکن جوایام فضیلت والے ہیں، اس دن کے گناہ میںشدت بھی پیداہوجاتی ہے، جیسے: گالی دیناہرجگہ گناہ کاکام ہے؛ لیکن اگرکوئی مسجدمیںگالی بکتاہے تواس کے گناہ میںشدت بڑھ جاتی ہے؛ اس لئے عاشوراء کے دن خصوصیت کے ساتھ نمازوںکااہتمام کرناچاہئے، دیکھایہ جاتاہے کہ اس دن اہتمام میںکچھ کمی ہوجاتی ہے اور جو لوگ نمازکے پابندہیں، ان میںسے بعض شیطانی بہکاوے میںآکر، بال بچوںکومیلاٹھیلادکھانے کے چکرمیںنماز کے اہتمام سے غافل ہوجاتے ہیں، ظاہرہے کہ یہ درست نہیں، بالخصوص محرم کے دن کہ اس دن کواللہ تعالیٰ نے اپنادن قراردیاہے۔

۳- تلاوت قرآن کااہتمام: قرآن مجیدکی تلاوت بڑے ثواب کاکام ہے، اس کے ہرلفظ پردس نیکیاںملتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے: من قرأ حرفا من کتاب اللہ فلہ حسنۃ، والحسنۃ بعشر أمثالہا، لاأقول الم حرف؛ ولکن ألف حرف، ولام حرف، ومیم حرف۔ (سنن الترمذی، حدیث نمبر:۲۹۱۰) ’’جس نے کتاب اللہ کاایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور(اللہ تعالیٰ کے اصول کے مطابق ہر)نیکی دس گناہواکرتی ہے، میںنہیںکہتاکہ الم ایک حرف ہے؛ بل کہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے‘‘، اس سال چوںکہ کورونا کی وجہ سے عام خرافات کی اجازت نہیں دی گئی ہے؛ اس لئے اس دن تلاوت کااہتمام کرناچاہئے۔

۴- ذکرواذکارکی کثرت: عام دنوںمیںعمومی طور پر ذکر و اذکار کا اہتمام نہیں ہوپاتاہے، اس سال کوروناکے طفیل سے اس کاموقع ہمیںمیسرہواہے، میلے ٹھیلے کی اجازت نہیں دی گئی ہے؛ اس لئے ہرشخص گھرپر موجود ہی رہے گا، لہٰذا دوسرے الٹے سیدھے کاموںمیںمشغول ہونے کے بجائے ذکر و اذکار میں مشغول ہوناکافی منافع بخش رہے گا، ذکرکی وجہ سے دلوں کوسکون محسوس ہوتاہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ’’سن لو! اللہ کے ذکرسے دل مطمٹن ہوتے ہیں‘‘ (الرعد: ۲۸) اورآج کے کورونائی دورمیں اس کی ہرشخص کوضرورت ہے، نیزلایعنی اوربے کارچیزوںمیںمشغول ہونے کے بجائے ذکرمیںمشغول رہناباعث ثواب بھی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے: جوشخص’’لاإلٰہ إلااللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمدوہوعلی کل شیٔ قدیر‘‘دن میں سومرتبہ کہے تودس غلام آزادکرنے کے برابرثواب ہے اوراس کے لئے سونیکیاں لکھی جائیں گی اورسوگناہ مٹادئے جائیںگے اوراس دن شام تک شیطان سے وہ محفوظ رہے گا‘‘(بخاری، حدیث نمبر: ۶۴۰۳، مسلم، حدیث نمبر:۲۶۹۱)؛ اس لئے ہمیں ذکرکاکثرت سے اہتمام کرناچاہئے۔

۵- توبہ واستغفارکااہتمام: ہرانسان سے غلطی اورچوک ہوتی رہتی ہے، ان غلطیوںکی معافی مانگتے رہناچاہئے، خوداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دن میںسترمرتبہ سے زائد استغفار کیا کرتے تھے(بخاری، حدیث نمبر: ۶۳۰۷)، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوداستغفارکرتے تھے، اسی طرح لوگوںکواس کاحکم بھی فرماتے تھے؛ چنانچہ حضرت اغربن یسارمزنیؓ حضرت ابن عمرؓ کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: توبوا إلی اللہ واستغفروہ، فإنی أتوب فی الیوم مائۃ مرۃ۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۲۷۰۲) ’’اللہ سے توبہ اوراستغفارکرو، میںدن میںسومرتبہ توبہ کرتاہوں‘‘؛ اس لئے آج کے فضیلت والے دن میںکـثرت سے توبہ واستغفارکرناچاہئے، بالخصوص آج کل کے کورونائی دورمیںکہ یہ وباء کہیں ہمارے بداعمالی کی وجہ سے تودنیاپرنہیںآئی؟

۶- ایصال ثواب کااہتمام : آج کے دن کوہم چوںکہ ہم لوگوںنے خصوصیت کے ساتھ حضرت حسینؓ کی شہادت سے جوڑ رکھا ہے اوراسی لئے اس دن بہت سارے وہ خرافات بھی کرتے ہیں، جوقاتلین حسین نے کئے، جلوس ، تعزیہ، ڈھول، میلا وغیرہ ظاہر ہے کہ سب خوشی کے طورپرہم مناتے ہیں، نام غم حسین کادیتے ہیںاورکام دشمنان حسین والے کرتے ہیں، اس دن کاایک خاص کام دوسرے خرافات کے مقابلہ میںیہ کرناچاہئے کہ تلاوت قرآن کااہتمام کرکے حضرت حسین اوردیگرتمام شہداء وغیرشہداء صحابہ اورعام مسلمانوںکے حق میںثواب پہنچائیں، اس سے ایک تو تلاوت کاثواب بھی ملے گااورجن کے نام پراس دن کوہم نے یاد رکھا ہے، ان کوثواب بھی پہنچ جائے گا۔

یہ ہیںکچھ وہ بنیادی کام ، جومحرم کی دسویںتاریخ کو کرنے چاہئیں، ان کے علاوہ جوخرافات ہوتے ہیں، ان سے خود بچنا چاہئے اوراپنے بال بچوںکوبھی بچاناچاہئے کہ اللہ کا ارشاد ہے: ’’اپنے آپ کواوراپنے گھروالوںکوجہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میںسے ہرشخص ذمہ دارہے اوراس کے ماتح کے بارے میں اس سے سوال کیاجائے گا‘‘، لہٰذا ہمیںاپنی ذمہ داری کا احساس کرناچاہئے اورخرافات سے بچنے اوربچانے کی فکر کرنی چاہئے، اللہ ہمیںتوفیق دے۔ آمین!
٭٭٭

a3w
a3w