سیاستمضامین

فلسطینیوں کو صحرائے سینا میں بسانے کیلئے بفر زون کے قیام کا انکشاف

ابو صوفیا چترالی

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سینائی فاؤنڈیشن فار ہیومن رائٹس نے فوٹو گرافی کے ایسے نئے مواد حاصل کیے ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مصری حکام کی جانب سے سینائی کے مشرق میں اونچی دیواروں سے گھرا ایک سیکورٹی بفر زون تعمیر کیا جارہا ہے ۔ تنظیم کے مقامی ذرائع نے غزہ پٹی کے ساتھ سرحد پر ایک الگ تھلگ علاقے کے قیام کی تصدیق کی ہے جس کا مقصد غزہ پٹی کی آبادی کے بڑے پیمانے پر انخلاء کی صورت میں پناہ گزینوں کو یہاں بسانا ہے۔ ویڈیوز میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران تباہ ہونے والے مقامی گھروں کے کھنڈرات کو ہٹاتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے ۔ اس ادارے کی طرف سے اس ا نکشاف کے بعد شمالی سینا کے گورنر سے سعودی میڈیا نے پوچھا تو اس نے اس بات کی تردید کی کہ مصری حکام نے فلسطینیوں کے استقبال کے لئے مصری شہر رفح میں دیواروں سے گھرا ہوا سیکورٹی بفر زون قائم کیا ہے تاہم گورنر نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اسرائیل فلسطینی سرحدی گورنری رفح میں فوجی کارروائی کرے تو مصر تمام حالات کے لئے تیار ہے ۔ سینائی فاؤنڈیشن نے واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ مل کر اس حوالے سے تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے۔ اس نے سیٹلائٹ تصاویر اور اس خفیہ علاقے میں کام کرنے والے افرادسے حاصل ویڈیوز کو بھی اپنی حس رپورٹ کا حصہ بنایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ بہت پرانا ہے۔ یہود نواز مصری آمر جنل السیسی نے 2021ء میں اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی کروائی اور اسی قانون کے تحت رفح کے قریب مجوزہ علاقے سے مقامی آبادی کو بے دخل کردیاگیا۔ 23ستمبر2021ء کو پاس ہونے والے قرار 420 عام 2021ء نامی اس قانون کے تحت یہاں سے ہزاروں لوگوں کو بے دخل کردیا گیا اور اب بھی وہ اپنے ملک میں بے گھر ہیں اور انہیں واپس اپنے علاقوں کی طرف لوٹنے کی اجازت نہیں ہے ۔ یہاں لوٹنے کو عملاً ناممکن بنانے کے لئے دہشت گردی کے نام پر یہاں نام نہاد آپریشن بھی کئے گئے‘ جس کے نتیجہ میں 13 سو سے زائد مصری دیہاتیوں کو قتل اور دو ہزار سے زائد کو گرفتار کیا گیا۔ اس قانون کے تحت300 مربع کلو میٹر کو سیکورٹی زون قراردیا گیا۔ یہاں فوج سے خصوصی اجازت نامہ لیے بغیر کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے‘ سوائے ان لوگوں کو جو یہاں جاری تعمیراتی منصوبوں میں کام کرتے ہیں۔ اس سیکورٹی زون میں مزید توسیع ہورہی ہے۔ سینائی فاؤنڈیشن کا سیٹیلائٹ تصاویر کی روشنی میں کہنا ہے کہ اب تک اس ممنوعہ علاقہ کا رقبہ2655 مربع کلو میٹر تک پہنچ چکا ہے۔ رفح پر اسرائیلی حملے سے فرار ہونے والے فلسطینی پناہ گزینوں کو یہاں رہائش فراہم کی جائے گی ‘ اس علاقہ کے چپے چپے پر سیکورٹی موجود ہے اور علاقے کو6کلو میٹر اونچے کنکریٹ کے بلاک رکھ کر الگ کیا جارہا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق رفح آپریشن اسرائیل کے اہم ترین اتحادیوں کا امتحان کا ہے ۔ مصری حکام نے دھمکی دی ہے کہ اگر رفح پر حملہ پناہ گزینوں کو سرحد پار کرنے پر مجبور کرتا ہے تو وہ دونوں ممالک کے درمیان چالیس سال پرانا امن معاہدہ معطل کردیں گے ‘ لیکن واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ یہ صرف دکھاوے کے بیانات ہیں جن کے اپنے مقاصد ہیں‘ مگر نئی فوٹیج سے واضح ہوتا ہے کہ مصر اس طرح کے منظر نامے کے لئے تیاری کررہا ہے۔ سینائی فاؤنڈیشن اور واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے شائع کردہ فوٹیجز میں دکھایا گیا ہے کہ ٹرک اور بلڈوزر غزہ کی سرحد سے متصل تقریباً8 کلو مربع میل(تقریباً13کلومیٹر) کے رقبے والے مستطیل پلاٹ سے ملبہ ہٹارہے ہیں۔ اس کے چاروں طرف کنکریٹ کی دیوار بنائی جارہی ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ کو ملنے والی یہ سیٹلائٹ تصاویر 5سے 14فروری کے درمیانی عرصے کے دوران اس علاقے کے اندر 2 مربع میل کے علاقے کو صاف کرتے دکھایا گیا ہے۔ امریکی شہر سان فرانسسکو میں واقع بی بی سی لیابس کمپنی کے سیٹلائٹس نے یہ تصاویر 5اور14 فروری کے درمیان کھینچی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس علاقہ میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بسانے کا منصوبہ ہے۔
واشنٹگن پوسٹ جب مصری حکام سے موقف جاننے کے لئے بات کی تو ایک سرکاری اہلکار نے اخبار کو اسٹیٹ انفارمیشن سروس کے سربراہ ‘ دیاراشوان‘ کے گزشتہ ماہ جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ دیا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ مصر کو اپنی زمینوں پر مکمل خود مختاری حاصل ہے اور اس پر مکمل کنٹرول ہے‘‘ جبکہ شمالی سینائی کے گورنر محمد عبدالطفیل شوشۃ نے جمعرات کو اس بات کی تردید کی تھی کہ سینا میں ایک بفر زون کے قیام کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ جس میں بے گھر افراد کو پنہ دی جائے گی۔ ایک سابق مصری اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ مصری عوام کے کسی ایسے منظر نامے کو قبول کرنے سے انکار کے باوجود جس میں فلسطینیوں کو مصر میں دھکیل دیا جائے‘ حکومت ممکنہ طور پر ہنگامی منصوبے تیار کرسکتی ہے۔
اخبار نے پوچھا ‘ اگر رفح میں حملوں کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی سرحد پار کرگئے تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ مصری فوج انہیں گولی ماردے گی؟ اہلکار نے جواب دیا ‘ نہیں ! کسی ذمہ دار حکومت کو اچھی طرح سوچنا چاہیے ۔ اگر ہمارے پاس بدترین صورتحال ہے تو ہم اس سے کیسے نمٹیں گے؟ دوسری جانب مصری حکومت کے قریبی صحافی مصطفیٰ بکری نے انکشاف کیا ہے کہ صدر سیسی نے غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے بدلے تمام پیشکشوں کو ٹھکرادیا ہے ۔ انہیں200 بلین ڈالرز اور قرض کے مسئلے کے حل کی پیشکش کی گئی‘ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ مصطفی بکری نے ٹی وی پروگرام میں مزید کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے پر رضامندی کے بدلے سیسی کو پیشکش کی گئی رقم کو دوگنا کرکے 250بلین ڈالر کردیا گیا ۔ لیکن انہوں نے دوبارہ انکار کردیا۔ مصر سنگین اقتصادی بحرانوں سے دوچار ہے جو سیسی حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے۔ مصر165بلین ڈالر سے زیادہ کے غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے پریشان ہے ۔ اس کے ساتھ نہر سوئز سے ہونے والی آمدنی میں کمی ‘ سیاحت کے شعبے اور بیرون ملک مصریوں کی جانب سے ترسیلات زر کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ مصطفی بکری نے امریکی صدر جوبائیڈن پر ان کے اس بیان کی وجہ سے تنقید کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے سیسی سے امداد دلانے کے لئے رفح کراسنگ کھولنے کا مطالبہ کیا۔
بکری نے امریکی صدر کو جھوٹا اور بھولنے والا قراردیتے ہوئے کہا ’’ کسی ایسے شخص کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں جو الزائمر کے مرض کی وجہ سے اپنی یادداشت کھوبیٹھا ہو‘‘۔ اگرچہ مصری صحافی نے واضح طور پر ان فریقوں کا ذکر نہیں کیا جنہوں نے سیسی کو یہ پیشکشیں کیں ‘ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ جس نے بھی ’’ تیران اور صناغیر‘‘ جزائر سعودی عرب کو فروخت کئے اور ملک کو امارات کے ہاتھوں گروی رکھا وہ ایسی پیشکش کو قبول کرنے سے کبھی بھی گریز نہیں کرسکتا۔
مصری حکام کی طرف سے میڈیا کو دیئے گئے بیانات ح قیقت اور پردے کے پیچھے کیا ہورہا ہے‘ اس کی عکاسی نہیں کرسکتے۔ خاص کر رفح کے ساتھ بفرزون کے قیام کے انکشافات کے بعد اس طرح کے دعوؤں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس طرح کے بیانات دام بڑھانے کے لئے دیئے جارہے ہیں کہ مصری حکومت کو فلسطینیوں کی سینا میں بسانے کے عوض جتنی رقم کی پیشکش کی جارہی ہے وہ اسے بڑھانا چاہتی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰