چھوٹی چھوٹی باتیں: ریڈیو حیدرآباد سے نشر ہونے والا ایک معروف پروگرام تھا
ستر کے دہے میں ایک پروگرام حیدرآباد سے نشر ہوتا تھا جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ لوگ ریڈیو کے علاوہ ٹرانسسٹر بھی رکھتے تھے کہ اگر بجلی چلی جائے تو ان کا پروگرام مس نہ ہو۔ٹھیک ساڑھے نو بجے نیرنگ کا اردو پروگرام شروع ہوتا اور ’’ چھوٹی چھوٹی باتیں‘‘ سے اس کا آغاز ہوتا تھا ۔
آج ہمارے پاس ٹی وی ہے مگر ستر کے دہے میں ریڈیو ہی تفریح اور خبروں کے لیے ایک ذریعہ تھا ، اب تو کمپیوٹر پر بھی لوگ تفریح کا سامان پا لیتے ہیں ۔ستر کے دہے میں ایک پروگرام حیدرآباد سے نشر ہوتا تھا جس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ لوگ ریڈیو کے علاوہ ٹرانسسٹر بھی رکھتے تھے کہ اگر بجلی چلی جائے تو ان کا پروگرام مس نہ ہو۔
ٹھیک ساڑھے نو بجے نیرنگ کا اردو پروگرام شروع ہوتا اور ’’ چھوٹی چھوٹی باتیں‘‘ سے اس کا آغاز ہوتا تھا ۔ یہ پروگرام اردو کے پروگرام پروڈیوسر احمد جلیس کا لکھا ہوتا تھا اور ان کے تین اور ساتھی اسلم فرشوری ، جعفر علی خاں اور افشاں جبیں ہوتے تھے ۔ اسلم فرشوری ایک ممبیا نوجوان تھے جو فاطمہ بی کے بھائی کا کردار کرتے ،، ان کو لالہ کہتے تھے اور احمد جلیس اور افشاں جبیں بوڑھے جوڑے کا کردار ادا کرتے تھے اور جعفر علی خاں دوست کا جو بوڑھے جوڑے سے ملنے آیا کرتے تھے ۔
احمد جلیس چاند میاں تھے اور فاطمہ بی افشاں جبیں ۔ یہ دونوں مختلف موضوعات پر بحث کرتے تھے ۔ مثلاً دوائیوں کے نقلی ہونے پر ۔ چاند میاں بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے دوائیاں منگوا لیتے ہیں ،ممبیا بھائی دوائیاں لالیتے ہیںمگر اس کا ردعمل خراب ظاہر ہوتاہے۔ کھڑوس چاند میاں اپنی غلطی ماننے تیار نہیں ہیں بلکہ دوائی خرید کر لانے والے پر چلاتے ہیں ، پھر وہ فاطمہ بی پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں ۔ دوائی کے پیکنگ کاغذ کیوں نہیں رکھے؟یوں تو یہ لڑائی میاں بیوی اور سالے کی ہے مگر عام آدمی کے لیے ایک سبق ہوتا تھا کہ دوائیاں بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے نہیں خریدنی چاہیے اور دوائی کے کاغذ پر اس کی تاریخ کو بھی دیکھنا چاہیے ۔چونکہ یہ زمانہ ایمرجنسی کا تھا اور حکومت کی تائید کے مختلف طریقے اپنانے ہوتے تھے ، چھوٹی چھوٹی باتیںلوگوں کو معلومات فراہم کرتی تھیں۔
نشہ بری چیز ہے اس پر چاند میاں خاصہ دلچسپ لکچر فاطمہ بی کو دیتے ہیں او رفاطمہ بھی ہر بات گرہ میں باندھتی جاتی تھیں ۔ نشے کے مسئلے پر اتنے سیدھے سادے انداز میں شاید ہی کبھی کوئی پروگرام ریڈیو سے نشر کیا گیا ہوگا۔
اس پروگرام کی زبان کسی اہل زبان کی نہیں تھی بلکہ عام زبان ہوتی جس کو اکثر حضرات سڑک چھاپ زبان بھی کہتے تھے ۔جیسے الو کا ڈھکن، ہول فٹ، کھارا بسکٹ، چمبو جٹ وغیرہ۔محبوب میاں کی انٹری ہی ان الفاظ سے ہوتی وہ چاند میاں کو کبھی ہول فٹ چاند میاں کہتے اورکبھی کھارے بسکٹ کے لقب سے نوازتے، یہ لہجہ بہت خاص تھا۔
فاطمہ بی یعنی افشاں جبیں جس طرح آداب محبوب بھائی کہتیں ،اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
پروگرام کرنٹ ایشو پر ہوتا تھا ، اکثر احمد جلیس ٹیلی پرنٹر پر بیٹھ جاتے اور جعفر علی خاں اپنے حس مزاح کو جلا دیتے ہوئے فقرے کس دیتے ۔ کبھی کبھی تو یہ پروگرام فی البدیہ ہوجاتا تھا، کیوں کہ وقت کی کمی ہوتی تھی ۔
لالہ یعنی اسلم فرشوری صاحب بہنوئی کے گھر کم حاضری دیتے کیوں کہ وہ اکثر حیدرآباد سے باہر رہتے۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان چلنے والی ریل کے تعلق سے بھی یہ پروگرام پیش کیا گیا تھا ۔
مہنگائی پر چاند میاں کے چرچے دلچسپ ہوتے تھے ۔ کھڑوس بڈھے کی دل خوش بیگم کے کردار کو افشاں جبیں بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیاکرتی تھیں ۔ ریڈیو پر سارا کھیل آواز کے اتار چڑھاؤ کا ہوتا ہے ، اس کا بہت ہی اچھا استعمال اس پروگرام میں کیا جاتا تھا۔ ٹی وی کا چلن عام نہیں ہوا تھا ، لوگو ں کی تعلیمی تفریح کا یہ بہت اچھا پروگرام تھا۔
جعفر علی خاں اور احمد جلیس اس کے روح رواں تھے جو لوگ جعفر علی خاں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے ہنستے مسکراتے فقرے کتنے دلچسپ ہوتے ہیں ۔ احمد جلیس ان کے بہترین ساتھی تھے، تین سال تک چلنے والے اس پروگرام کے تعلق سے ایک بار کبیر احمد ( کبیر بھائی ) نے مجھ سے کہا تھا’’ کاش! میں کبھی نیرنگ میں ایسا کوئی پروگرام پیش کرسکتا ۔‘‘
اردو کے وسیع دامن کو تھام کر لالہ ممبیا اردو بولتے تو لوگوں کے رنجیدہ چہروں پر بھی مسکراہٹ آجاتی تھی۔اس زمانے میں حیدرآباد اور اس کے اطراف میں صرف اور صرف ساڑھے نو بجے نیرنگ کا ’’چھوٹی چھوٹی باتیں‘‘ گونجتا تھا ۔ چاہے چائے خانہ ہو یا پان کی دکان ،’’ چھوٹی چھوٹی باتیں‘‘ ہر جگہ چھائی ہوئی تھیں۔ ویسے تو زبان پر اکثر پڑھے لکھے حضرات کو اعتراض تھا مگر پروگرام اتنا جاندار تھا کہ ان حضرات کی کوشش کہ اس کو بند کروادیں خود ہی بند ہوگئی۔
پروگرام کا اختتام محبوب بھائی کی چائے کی طلب پر ہوتا تھا ۔ لاؤ چائے پلاؤ ، فاطمہ چائے بناؤ۔ چاند میاں چائے منگاؤ ، جعفر علی خاں مخصوص انداز میں کہتے اور پروگرام ختم ہوجاتا ۔ اس کی مقبولیت کے پیش نظر کئی چائے کمپنیوں نے یہ درخواست کی تھی کہ بجائے صرف چائے کہنے کے ان کی برانڈ کا ذکر ہو تو وہ معقول رقم بھی پیش کریں گے ۔ چوں کہ پروگرام کسی اشتہاری طرز کا نہیں تھا اس لے یہ پیشکش ٹھکرا دی گئی۔
جب پروگرام کی تعریف میں لوگ خط لکھتے تو چائے کے پیسے بھی محبوب بھائی کو روانہ کرتے ، کچھ حضرات تو چائے کے تھرماس لے کر ریڈیو اسٹیشن پہنچ جاتے اور محبوب بھائی کو چائے پلانے بلکہ نہلانے کی حد تک قائل تھے۔
اب ٹی وی اور اس کے سیکڑوں چینلوں کی وجہ سے ہم ریڈیو کے پروگرام بھول رہے ہیں ، حالانکہ آج بھی بہت سے اچھے پروگرام حیدرآباد سے پیش کیے جارہے ہیں مگر ہم ٹی وی کے چکر میں ان پروگرام کو بھول گئے ہیں ۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے ہم اردو پروگراموں کو ریڈیو پر سنیں او رخط لکھیں تاکہ ریڈیو سے اچھے پروگرام نشر ہوسکیں۔ٹی وی پر اشتہاروں کی بھرمار ہوتی ہے اور پروگرام میں دخل اندازی ہوتی رہتی ہے ۔ ابھی ریڈیو اس سے پاک ہے ، ان کے اشتہاری پروگرام علیحدہ ہوتے ہیں ۔
ابھی ایک پروگرام ’’گلستان ہمارا حیدرآباد ‘‘ سے مقبول ہورہا ہے ۔خواہش اور دعاہے کہ اس کو بھی وہ مقبولیت ملے جو کبھی ’’ چھوٹی چھوٹی باتیں‘‘ کے حصے میں آئی تھی اور تقریباً تیس سال بعد اس پروگرام کی یاد آرہی ہے کیوں کہ ایک پروگرام افواہوں پر کان نہ دھرنے کے لیے بھی پیش کیا گیا تھا۔ فاطمہ بی افواہوں کا ذکر پریشانی اور بد حالی میں کرتی جارہی ہیں اور چاند میاں ڈانٹے جارہے ہیں ’’یہ سب کہاں سے ’’ چارمینار کی پڑیاں‘‘ لے کر آرہی ہو۔‘‘فاطمہ بی اپنی ادھوری بات کو سنبھالے جارہی ہیں اور محبوب بھائی تشریف لاتے ہیں اور افواہوں پر کان دھرنے والوں کے پکڑے جانے اورا فواہیں پھیلانے والوں کو جیل جانے کی روداد سنا کر چائے کا نعرہ لگا کر چلتے بنتے ہیں ۔