دہلی

وقف امید پورٹل کا 6جون سے آغاز متوقع، اوقافی جائیداد رجسٹر نہ کی گئی تو اسے متنازعہ تصور کیا جائے گا

وقف (ترمیمی) قانون کو چالینج کرنے والی درخواستوں پر سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے باوجود، حکومت نے وقف املاک کی رجسٹریشن کے عمل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

نئی دہلی (منصف نیوز ڈیسک) وقف (ترمیمی) قانون کو چالینج کرنے والی درخواستوں پر سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کے باوجود، حکومت نے وقف املاک کی رجسٹریشن کے عمل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق وقف املاک کی رجسٹریشن کے لیے ”وقف امید پورٹل“ 6 جون کو لانچ کیا جائے گا، جہاں رجسٹریشن لازمی ہوگا۔این ڈی ٹی وی کی اطلاع کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ اگر کوئی وقف جائیداد رجسٹر نہ کی گئی، تو اسے متنازعہ تصور کیا جائے گا اور معاملہ وقف ٹربیونل کو بھیجا جائے گا۔

اگر کسی تکنیکی یا کسی اور بڑی وجہ سے رجسٹریشن میں تاخیر ہو تو ایک سے دو ماہ کی اضافی مہلت دی جا سکتی ہے۔”امید“ کا مکمل نام ”Unified Waqf Management, Empowerment, Efficiency, and Development Act‘ ہے، اور اسے وقف املاک کے نظم و نسق اور شفافیت کو فروغ دینے کے مقصد سے متعارف کرایا جا رہا ہے۔

پورے ملک کی وقف جائیدادیں اس پورٹل کے ذریعے رجسٹر کی جائیں گی، اور ان کی شناخت کے لیے الیکشن کمیشن کا ڈیٹا استعمال کیا جائے گا۔ ذرائع نے یہ بات بتائی۔ہر جائیداد کو جیو ٹیگ GEO- TAG کرنا لازمی ہوگا اور اس کی مکمل تفصیلات، جن میں اس کا رقبہ اور جغرافیائی محلِ وقوع (Coordinates) شامل ہوں، پورٹل پر درج کرنا ہوگا۔

مکمل معلومات دینا ضروری ہوگا کیونکہ جن جائیدادوں کی ملکیت خواتین کے نام پر ہو یا جہاں خواتین وارث ہوں، اْنہیں وقف نہیں قرار دیا جا سکے گا۔وقف جائیداد کی رجسٹریشن کی ذمہ داری متولی (Manager) پر ہوگی۔ رجسٹریشن ریاستی وقف بورڈ کے ذریعہ کیا جائے گا، اور اس کے لیے بورڈ تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔

حکومت کا یہ اقدام ایک انتہائی متنازعہ معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ رکھنے کے محض دو ہفتوں بعد سامنے آیا ہے۔سماعت کے دوران عدالت نے درخواست گزاروں سے کہا جنہوں نے دیگر نکات کے علاوہ اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون کو آئینی مانا جاتا ہے، اور جب تک کوئی واضح خلاف ورزی سامنے نہ آئے، عدالت کو مداخلت کا اختیار نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی نے کہا کہ قانون سازی میں آئینی حیثیت کا ایک مفروضہ موجود ہوتا ہے۔