انتخابی بانڈز پر سپریم کورٹ کافیصلہ، کھرگے اور راہول کا خیر مقدم
کھرگے نے کہا، "انتخابی بانڈ اسکیم شروع کرنے کے دن ہی، کانگریس نے اسے غیر شفاف اور غیر جمہوری قرار دیا تھا اور 2019 کے انتخابی منشور میں، پارٹی نے مودی حکومت کی اس مشکوک اسکیم کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
نئی دہلی: کانگریس صدر ملک ارجن کھرگے اور پارٹی کے سابق صدر راہول گاندھی نے انتخابی بانڈز کو غیر آئینی قرار دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ کھرگے نے کہا، "انتخابی بانڈ اسکیم شروع کرنے کے دن ہی، کانگریس نے اسے غیر شفاف اور غیر جمہوری قرار دیا تھا اور 2019 کے انتخابی منشور میں، پارٹی نے مودی حکومت کی اس مشکوک اسکیم کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
آج ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی ہے، ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں، جس نے کالے دھن کو سفید بنانے کی مودی حکومت کی اس اسکیم کو "غیر آئینی” قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہمیں یاد ہے کہ کس طرح مودی حکومت نے بی جے پی کی تجوری بھرنے کے لیے ریزرو بینک، الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ اور اپوزیشن جیسے ہر ادارے کو بلڈوز کردیا۔
یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس اسکیم کے تحت بی جے پی کو 95 فیصد فنڈنگ ملی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مودی حکومت مستقبل میں اس طرح کے شرارتی خیالات کا سہارا لینا بند کردے گی اور سپریم کورٹ کی بات سنے گی، تاکہ جمہوریت، شفافیت اور برابری کی فضا قائم رہے۔
راہول گاندھی نے کہا کہ "نریندر مودی کی بدعنوان پالیسیوں کا ایک اور ثبوت آپ کے سامنے ہے۔ بی جے پی نے انتخابی بانڈز کو رشوت اور کمیشن لینے کا ذریعہ بنایا تھا۔ آج اس کی تصدیق ہو گئی ہے۔”
پارٹی کے میڈیا انچارج جئے رام رمیش نے کہا، "سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی بہت زیادہ مشہور انتخابی بانڈ اسکیم کو پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کردہ قوانین کے ساتھ ہی ہندوستان کے آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انتخابی بانڈز کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے، اس فیصلے کا طویل عرصے سے انتظار تھا، مودی حکومت ‘چندہ دینے والوں’ کو خصوصی مراعات اور چھوٹ دے رہی ہے جبکہ ‘ان داتوں’ کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے۔
ہمیں یہ بھی امید ہے کہ سپریم کورٹ اس حقیقت کا بھی نوٹس لے گا کہ الیکشن کمیشن ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل – VVPAT کے معاملے پر سیاسی جماعتوں سے ملنے سے مسلسل انکار کر رہا ہے۔ اگر ووٹنگ کے عمل میں سب کچھ صاف شفاف ہے، تو پھر الیکشن کمیشن کی طرف سے ملاقات کا وقت نہ دینے پر یہ اصرار کیوں؟