مدنی مسجد انہدام معاملہ: تحقیر عدالت کارروائی کیوں نہ کی جائے؟ سپریم کورٹ کا سوال
سپریم کورٹ نے پیر کے دن اترپردیش کے حکام کو ہدایت دی کہ وہ بتائیں کہ کشی نگر کی ایک مسجد کے ایک حصہ کے انہدام پر اُن کے خلاف تحقیر عدالت کارروائی کیوں نہ شروع کی جائے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کے دن اترپردیش کے حکام کو ہدایت دی کہ وہ بتائیں کہ کشی نگر کی ایک مسجد کے ایک حصہ کے انہدام پر اُن کے خلاف تحقیر عدالت کارروائی کیوں نہ شروع کی جائے۔
اترپردیش کے حکام نے سپریم کورٹ کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کارروائی کی تھی۔ جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ نے یہ بھی ہدایت دی کہ تاحکم ثانی اس مسجد کا کوئی حصہ ڈھایا نہ جائے۔ بنچ کشی نگر کے حکام کے خلاف تحقیر عدالت درخواست کی سماعت کررہی تھی۔
13 نومبر 2024 کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے ملک گیر رہنمایانہ خطوط جاری کی تھیں کہ پیشگی ہدایت اور 15 دن کی مہلت کے بغیر کوئی بھی جائیداد نہ ڈھائی جائے۔ وکیل عبدالقادر عباسی کے ذریعہ داخل نئی درخواست میں کہا گیا کہ حکام نے 9 فروری کو کشی نگر کی مدنی مسجد کا بیرونی حصہ ڈھادیا۔
سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ یہ مسجد نجی زمین پر بنی ہے جو درخواست گزاروں کی ملکیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعمیر بلدی حکام کی اجازت سے ہوئی۔ گزشتہ برس نومبر کی سپریم کورٹ کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد پر بلڈوزر چلایا گیا۔
بنچ نے کہا کہ نوٹس جاری کی جائے کہ متعلقہ عہدیداروں کے خلاف تحقیر عدالت کارروائی کیوں نہ کی جائے۔ بنچ نے معاملہ کی سماعت 2 ہفتے بعد مقررکی۔ اس نے یہ بھی ہدایت دی کہ تاحکم ثانی مسجد کا کوئی حصہ ڈھایا نہ جائے۔