طنز و مزاحمضامین

مذہب کی تجارت

مظہرقادری

چنوبھائی کے گھر گیا تو وہ ہاتھ میں اخبارپکڑے بیٹھے تھے میں نے پوچھا کوئی خاص خبردیکھ رہے ہوتوبولے نہیں مذہب کی تجارت کے اشتہارات دیکھ رہاہوں۔میں نے تعجب سے پوچھا کیامذہب کی بھی تجارت ہوتی ہے؟ تووہ بولے اب مذہب کا استعمال ایک فائدے مند تجارت ہوگیا ہے۔کوئی عمل عملیات میں احادیث کا استعمال کرکے پیسے کمارہاہے،کوئی پانی پلاناثواب ہے بول کے حدیث کاحوالہ دے کر بورویل کے لیے چندہ مانگ رہاہے،کوئی یتیموں کو کھانا کھلانا ثواب ہے بول کر، ایک متعلقہ حدیث بول کر پیسے مانگ رہاہے۔نمازی بنانے کے لیے کوئی چندہ نہیں مانگ رہاہے لیکن مسجد تعمیرکرنے لیے ہزاروں لوگ چندہ مانگ رہے ہیں اوراس کے لیے بڑی بڑی شرعی تاویلات پیش کررہے ہیں۔سرمہ لگانا نیکی ہے بول کر سرمہ بیچ رہے ہیں،اسی طرح مذہبی حوالے سے کلونجی بیچ رہے ہیں۔کھجوربیچنے کے لیے اس کو بھی مذہبی تعلق کا استحصال کرکے فروخت کررہے ہیں،عطربیچنے والا خوشبوسے مذہب کا تعلق جوڑکر اپنا کاروبار چمکارہاہے۔حدتوحدطہارت کے لیے پانی کی ٹکیہ بیچ رہاہے، بیواؤں اوریتیموں کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے بھی ثواب اورفضیلت بیان کررہے ہیں۔ ایک بار ایک خداترس چندہ دینے والے شخص کے پاس طوفانی رات میں ایک شخص آیا اوربولا کہ کیا آپ کسی ایسی بیوہ اوریتیم بچوں کی مددکرسکتے ہیں جوتین مہینے سے مکان کاکرایہ نہ دینے کی وجہ سے مکاندارانہیں گھرسے نکال دے رہاہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ اتنی رات کو ایسی طوفانی بارش میں وہ بیچاری بیوہ اپنے معصوم یتیم بچوں کو لے کر کہاں جائے گی، یہ سن کر وہ صاحب آبدیدہ ہوگئے اوراس شخص کو فوراً تین مہینے کے کرائے کے پیسے دینے کے بعد پوچھے، آپ کون ہیں جواتنی تکلیف اٹھارہے ہیں تووہ شخص بولا میں اس کا مکاندارہوں۔
ایک بارایک مولانا فطرے کے گیہوں دینے کے تعلق سے بڑی بڑی احادیث کا حوالہ دے رہے تھے کہ صاحب استطاعت شخص کو چاہیے کہ وہ گھرکے ہربڑے اوربچے کے نام کا فطرہ صرف اورصرف گیہوں کی شکل ہی میں دیں جوسب سے اولین ثواب ہے۔بعد میں پتہ چلاکہ ان کے بیٹے کی گیہوں کی دوکان ہے۔بازار میں دوکان والے چلّاچلّاکر ساڑی نہیں بیچتے بلکہ چلّاتے ہیں کہ زکوٰۃ کی ساڑی ضرورخردیئے اولین ثواب ہے۔حلیم بیچنے کے لیے تورمضان کی حلیم کااشتہارلگائے بغیر توکاروبارہی نہیں ہوسکتا۔ہرکپڑے کی دوکان والا یہ یاددلاتے رہتاکہ عید کے دن نئے کپڑے پہننا مذہباً ضروری ہے، اس لیے ہمارے پاس سے فوری نئے کپڑے خریدیے۔ان کی دوکان میں کوئی جب مردگاہک آتاتووہ اس کو دیکھ کر مایوس ہوجاتا ہے، کیو ں کہ ان کومعلوم ہوتا ہے کہ یہ کچھ خریدے گا نہیں اورجب کوئی عورت دوکان میں آتی ہے تو نصرمن اللہ و فتح قریب پڑھ لیتے۔ اشتہار دیا جاتا ہے کہ ”تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ غریب اورناداربچوں کو مفت تعلیم دی جاتی اورمذہب کی سخت پیروی کی جاتی ہے،ان کی ضروریات کی تکمیل کے لیے دل کھول کر چندہ دیجئے اورثواب جاریہ کمائیے۔“ایک بار ایک مولانا اپنے مرید کو جنت میں جگہ دلانے کے لئے مختلف احادیث کا حوالہ دے رہے تھے اوربولے کہ اگرمیں تجھے جنت میں جگہ دلانے کے لیے دعاکروں تومجھے کیاہدیہ دے گا تومرید بولا اگرآپ مجھے جنت میں جگہ دلادیے تومیں آپ کو ہدیہ میں برج خلیفہ دے دوں گا تومولانا طیش میں آکر بولے کیابرج خلیفہ تیرے باپ کاہے جو مجھے جنت کے بدلے دے گا تووہ شخص بولاتوپھر کیاجنت آپ کے باپ کی ہے جو سب کو ہدیہ کے بدلے میں بانٹتے پھررہے ہیں۔پہلے سحری اورافطارثواب کے لیے مسجدوں میں مفت کراتے تھے۔ اب سحری اورافطاری بھی بیچ رہے ہیں۔ بڑے بڑے شادی خانوں میں شادی کی دعوت کے اتنے لوازمات کے ساتھ پانچ سوروپئے، ہزار روپئے مختلف قیمتوں پر سحری اورافطارکے لیے بکنگ ہورہی ہے اورلوگ اس پر ٹوٹ پڑے ہیں۔واہ رے واہ کیاکاروبارہوگیاہے مذہب کا۔
اسلام دنیا کا سب آسان مذہب اس میں کچھ دے کر کچھ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ صرف دینے والا ہے، وہ لینے والا نہیں ہے،لینے والا صرف بندہ ہے۔اسلام کا نظام صرف اورصرف انسان کی فلاح اوربہبودکا نام ہے۔آپ کی کسی بھی نیکی سے اللہ کو فائدہ ہونے والانہیں ہے بلکہ آپ کی ہرنیکی کا فائدہ صرف اورصرف آپ اورآپ کی اولاد کو ہوتاہے۔اسلام کے جتنے بھی اراکین ہیں،جوبھی تعلیمات ہیں وہ صرف اورصرف بنی نوع انسان کی فلاح وبہوداوربقا کے لیے ہے۔اسلام کاہررکن صرف اورصرف آپ کو خوشحالی دیتاہے، اس میں کوئی سختی نہیں ہے،اس میں ہرقسم کی لچک ہے۔آپ حج نہیں کرسکتے آپ کو حج بدل کی سہولت ہے،آپ کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے توبیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں،بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتے تولیٹ کر پڑھ سکتے ہیں،بیمار ہیں توآنکھ کے اشارے سے نماز پڑھ سکتے،وضوکرنے پانی نہیں ہے توتیمم کرسکتے ہیں،سفرمیں ہیں توقضانماز اداکرسکتے ہیں، طہارت کو پانی نہیں ملاتوپاکی استعمال کرسکتے ہیں،کسی حتمی مجبوری کی وجہ سے روزہ نہیں رہے توفدیہ دے سکتے ہیں،فاقہ مستی کے آخری اسٹیج پر حرام چیزیں کھانا بھی حلال ہے۔انتہائی سہل،آسان،معافی اوردرگزرکے مذہب کو ہم خوف،عذاب کی تاویلات دے کر بھیانک بنادے رہے ہیں۔ہمیں اللہ کی رحمت پر یقین کامل رکھنا چاہیے کہ وہ معاف کردینے والا ہے،بخش دینے والا ہے۔ بس ہمیں چاہیے کہ گناہ کبیرہ وصغیرہ سے بچیں۔اللہ سے دعاہے کہ جولوگ سچے دل سے صرف اورصرف نیکی ا ورثواب کے لیے خدمت کررہے ہیں انہیں ان کے مقصدمیں کامیابی دے اورایسے لوگوں کو نیک توفیق دے جوپیسے کی حرص یا اقتدارکی ہوس میں چندہ مانگ رہے ہیں۔
٭٭٭