مضامین

مہاراشٹرا میں کابینہ کی توسیع کیوں نہیں ہورہی ہے؟

شیلیش

مہاراشٹرا میں شیوسینا کے سینئر لیڈر سنجے راﺅت کے خلاف ای ڈی کی کارروائی اور گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ایک بیان پر تنازعہ کے درمیان ریاستی کابینہ میں توسیع کے لیے سرگرمی تیز ہوگئی ہے۔ نئی دہلی میں بی جے پی ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں چیف منسٹر ایکناتھ شنڈے اور ڈپٹی چیف منسٹر دیویندر پھڈنویس کے ساتھ بی جے پی کی مرکزی قیادت کے درمیان بات چیت کے بعد کابینی توسیع کا نیا فارمولہ تیار کیا گیا۔ اس کے مطابق بی جے پی اور شیوسینا کے باغی ایکناتھ شنڈے گروپ کے وزراءکی تعداد مساوی ہوگی۔ لیکن اس فارمولہ سے بھی دونوں پارٹیوں کا بحران ٹلتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ وزیر نہ بنائے جانے والے باغی شیوسینا ارکان اسمبلی حکومت کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں۔ ووسری طرف ارکان اسمبلی کی تعداد کے تناسب میں وزراءنہیں بنائے جانے پر بی جے پی ارکان اسمبلی کی ناراضگی بھی بڑھ سکتی ہے۔ شیوسینا سے بغاوت کرکے چیف منسٹر بننے کے ساتھ ہی ایکناتھ شنڈے کی مشکلات شروع ہوگئی تھیں۔ ایک طرف ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی میں وزیر بننے کی دوڑ مچ گئی تو دوسری طرف بی جے پی کے مقامی قائدین بھی حکومت میں شامل ہونے کے لیے بے چین نظر آنے لگے۔ نتیجہ یہ ہے کہ چیف منسٹر بننے کے ایک ماہ بعد بھی شنڈے کابینہ میں توسیع نہیں ہوپارہی ہے۔ شیوسینا کے55میں سے40 ارکان اسمبلی کی بغاوت کے بعد بی جے پی کے تعاون سے شنڈے چیف منسٹر تو بن بن گئے لیکن بی جے پی کے کئی مقامی قائدین کو دہلی قیادت کا یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ دہلی کی ہدایت پر سابق چیف منسٹر دیویندر پھڈنویس ‘ ڈپٹی چیف منسٹر بننے کے لیے راضی ہوگئے۔ لیکن ان کی پارٹی کے کئی قائدین اس سے متفق نہیں تھے۔ ان کی رائے میں پھڈنویس کو چیف منسٹر بنانا چاہیے تھا۔ 2019 میں چیف منسٹر کے سوال پر ہی بی جے پی اور شیوسینا کا اتحاد ٹوٹ گیا تھا۔ ارکان اسمبلی کی زیادہ تعداد کی بنیاد پر بی جے پی دیویندر پھڈنویس کو چیف منسٹر بنانا چاہتی تھی جبکہ شیوسینا لیڈر ادھو ٹھاکرے خود چیف منسٹر بننا چاہتے تھے۔ بی جے پی سے بات نہیں بنی تو کانگریس اور این سی پی کے تعاون سے ٹھاکرے چیف منسٹر بن گئے۔ بی جے پی کے مقامی قائدین چاہتے ہیں کہ ارکان اسمبلی کی تعداد کے تناسب سے وزراءبنائے جائیں اور شنڈے کو چیف منسٹر بنایا گیا ہے، اس لیے اہم قلمدان بی جے پی کو ملیں۔ جون2022 میں ایکناتھ شنڈے کے ساتھ آئے شیوسینا کے 55میں سے 40 ارکان اسمبلی میں 14ارکان اسمبلی ادھو حکومت میں بھی وزیر تھے۔ اسمبلی کے288ارکان کے حساب سے کل 41وزراءبن سکتے ہیں۔ بی جے پی کے 106ارکان اسمبلی ہیں۔ شنڈے گروپ کے علاوہ کچھ اور چھوٹی پارٹیاں حکومت کی حمایت کررہی ہیں۔ کل ملا کر 167 ارکان اسمبلی این ڈی اے کے ساتھ ہیں۔ بی جے پی اور باغی شیوسینا کے علاوہ آزاد اور چھوٹی پارٹیوں کو بھی وزارتی عہدہ دینا پڑسکتا ہے۔ شنڈے گروپ اب اپنے کچھ ارکان ا سمبلی کو ”ڈسٹرکٹ گارڈین“ بنانے کی پیشکش کررہی ہے جنہیں وزیر کا درجہ حاصل ہوگا اور وہ اضلاع میں ترقی کا کام دیکھیں گے۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ شنڈے گروپ 65بمقابلہ 35 کا فارمولہ چاہتا تھا جس کے حساب سے 65فیصد وزارتی عہدے شنڈے گروپ اور 35 فیصد بی جے پی کو دینے کی بات کی جارہی تھی۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے مقامی قائدین اس فارمولہ سے خوش نہیں تھے۔ پھڈنویس کو چیف منسٹر نہ بنائے جانے سے پہلے سے ناراض پارٹی قائدین اب کابینہ میں کم تعداد قبول کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ناراض قائدین میں پارٹی کے ریاستی صدر چندرکانت پاٹل اور سابق وزیر فینانس سدھیر منگنٹیوار بھی ہیں۔ بی جے پی قائدین چاہتے ہیں کہ ارکان اسمبلی کی تعداد کی بنیاد پر وزارتی عہدوں کا فیصلہ ہو۔ اہم قلمدانوں کو لے کر بھی رسہ کشی جاری ہے۔ بی جے پی کے قائدین داخلہ اور فینانس جیسے اہم قلمدان اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ پی ڈبلیو ڈی، شہری ترقی اور آبپاشی جیسے قلمدانوں کے لیے بھی رسہ کشی جاری ہے۔ شیوسینا کی تقسیم پر کئی معاملے سپریم کورٹ تک پہنچ گئے۔ شیوسینا کی باضابطہ تقسیم سے قبل ہی ادھو ٹھاکرے نے پارٹی کے 16ارکان اسمبلی کو پارٹی سے معطل کردیا تھا۔ اس مسئلہ پر اسمبلی ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ آنے سے قبل ہی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا اور بی جے پی شنڈے گروپ نے نئے اسمبلی اسپیکر کا انتخاب کرلیا۔ ارکان اسمبلی کی معطلی کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اگر معطلی کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو شنڈے گروپ کی دو تہائی ارکان کے ساتھ پارٹی میں تقسیم کی ریاضی بدل جائے گی اور حکومت مصیبت میں آجائے گی۔ مہاراشٹرا کے سینئر لیڈر شرپوار (این سی پی) اور ادھو ٹھاکرے چھ مہینے میں شنڈے حکومت کے گرنے کی بات کررہے ہیں۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ شنڈے کے ساتھ جانے والے کئی ارکان اسمبلی وزیر نہ بنائے جانے پر پھر بغاوت کرسکتے ہیں۔ پارٹی کے نام اور انتخابی نشان(تیرکمان) کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ہے۔ اس سے طے ہوگا کہ اصلی شیوسینا کون سی ہے۔ شنڈے گروپ کے لیے راحت کی بات یہ ہے کہ پارٹی کے 19میں سے 12ارکان پارلیمنٹ ان کے ساتھ ہیں اور بی جے پی کے تعاون سے پارلیمنٹ میں انہیں ایک طرح سے مسلمہ حیثیت مل گئی ہے۔ گورنر کوشیاری کے ایک بیا ن پر تنازعہ کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے مہاراشٹرا وقار کو مدعا بناکر گورنر اور حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی لیکن اس کے فوری بعد سنجے راﺅت کے خلاف ای ڈی کی کارروائی نے مدعا بدل دیا۔ شیوسینا اور اپوزیشن اب راﺅت کو بچانے میں لگ گئے ہیں۔ بہرحال مراٹھی افتخار کے مسئلہ سے شیوسینا اور اپوزیشن کبھی بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کابینہ کی تشکیل نہیں ہوئی مگر کئی اہم فیصلہ کرکے شنڈے پھڈنویس کی جوڑی یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ شنڈے حکومت نے اورنگ آباد کو چھترپتی سمبھاجی نگر اور عثمان آباد کو دھاراشیو نگر رکھنے کے ادھو حکومت کے آخری فیصلے کو اپنا فیصلہ بناکر کابینہ سے منظور کردیا۔ ممبئی احمدآباد بلیٹ ٹرین، ممبئی کے سبز علاقہ آرے کالونی میں میٹرو ڈپو، گرام پنچایت میں سرپنچ کے راست انتخاب اور ایمرجنسی میں جیل جانے والے سیاسی قیدیوں کو پنشن جیسے پھڈنویس حکومت کے سابق کئی فیصلوں کو پھر سے ہری جھنڈی دکھا دی جنہیں ادھو حکومت نے پلٹ دیا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ مکمل کابینہ کی تشکیل کے بغیر حکومت کب تک اور کیسے چلے گی۔ شنڈے او رپھڈنویس بار بار دہلی کا چکر لگاکر بی جے پی مرکزی قیادت سے ہی مشکلات کا حل نکالنے کی امید کررہے ہیں۔