ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ بر سر اقتدار آئے گی تو ایود ھیا میں رام مندر کی تعمیرکے ساتھ وہ جموں و کشمیر سے متعلق دفعہ 370کو برخاست کر دے گی اور ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کر دیا جائے گا۔ اقتدار پر فائز ہو تے ہی اس نے اول الذکر دو کام انجام دے دیے۔ اب یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس کے لئے لا کمیشن کو ہدایات دے دی گئیں۔ 22ویں لا کمیشن آف انڈیا نے 14 جون 2023کے اپنے ایک اعلامیہ کے ذریعہ ملک کے عوام سے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں رائے طلب کی ہے۔ اس کے لیے اعلامیہ کی اجرائی کے اندرون 30دن تجاویز دینے کی ہدایت دی گئی۔ لا کمیشن کی جانب سے اس اعلان کے ساتھ ہی ملک کے مختلف گوشوں میں یکساں سیول کوڈ کے بارے میں بحث شروع ہو چکی ہے۔ سوشیل میڈیا پر بھی اس کے تعلق سے ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ پر پہلی مرتبہ یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ ملک کی آزادی اور ایک نئے دستور کی تدوین کے وقت سے ہی یہ موضوع زیر بحث رہا ہے۔ یکے بعد دیگر بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں نے بھی اس متنازعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس لیے اب یہ لاوا پھٹنے کے قریب ہے۔ ملک کی فسطائی طاقتوں کے ہاتھوں میں یکساں سیول کوڈ کی شکل میں ایک ایسا ہتھیار آ گیا ہے کہ جس کے ذریعہ وہ یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے ہیں کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے سب کے لیے یکساں قانون ضروری ہے۔ بی جے پی حکومت بھی اپنے نو سالہ دور حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ کو جان بوجھ کر چھیڑی ہے۔ اب جب کہ عام انتخابات کا مرحلہ بھی قریب آ چکا ہے۔ مودی حکومت اپنے کاموں کا کوئی ریکارڈ عوام کے سامنے پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ اس لیے ایسے مسائل کو چھیڑا جا رہا ہے جو نہ ملک کی ضرورت ہیں اور نہ عوام کے کسی طبقہ نے اس کی مانگ کی ہے۔ اپنی پہلی میعاد کے دوران بھی بی جے پی نے لا کمیشن کو استعمال کر تے ہوئے اس موضوع کو عوامی موضوع بنانے کی کوشش کی تھی۔ قارئین کو یا دہوگا کہ 2014 میں پہلی مرتبہ مرکز میں حکومت تشکیل دینے کے بعد بی جے پی حکومت نے مرکزی وزارت قانون و انصاف کے ذریعہ 21ویں لا کمیشن آف انڈیاکو یہ ہدایت دی کہ وہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں اپنی رائے دے۔ چناچہ اس کمیشن نے 2016 میں اور پھر دو مرتبہ 2018میں ایک سوال نامہ تیار کرکے عوام کی رائے بھی لی۔ اس موقع پر مسلمانوں کی بہت ساری تنظیموں نے بھی یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کر تے ہوئے لا کمیشن سے نمائندگی کی۔ اس کمیشن نے دعویٰ کیا کہ کمیشن کے سوالنامہ پر عوام کا کافی حوصلہ بخش ردعمل رہا۔ 21ویں لا کمیشن نے عائلی قانون میں اصلاحات کے عنوان پر ایک دستاویز تیار کرکے 31 اگست 2018کو منظر عام پر لا دیا۔ کمیشن چونکہ حکومت کی جانب سے بنایا گیا تھا۔ اس لئے ظاہر ہے کہ حکومت کی مرضی کو اس میں اولین ترجیح دی گئی۔ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد اس لیے نہیں ہو سکا کہ 2019کے اوائل سے ہی لوک سبھا انتخابات کا بگل بج گیا۔ حکومت نے بھی اس مسئلہ کو ایک ٹھنڈے بستہ میں اس لئے ڈال دیا کہ مسلمانوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ بی جے پی حکومت ان کے پرسنل لا میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس سے مسلمان بھی یک گونہ سکون محسوس کرنے لگے۔
ہندوستان میں یکساں سیول کوڈ کا مسئلہ مسلمانوں پر ہمیشہ ایک لٹکتی ہوئی تلوار کے مانند رہا۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہوتے ہوئے یہاں کے شہریوں کی مذہبی آزادی کو ختم کرتے ہوئے ان کے عائلی قوانین میں مداخلت کی کوشش ہر دور میں ہو تی رہی۔ لیکن یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ جب کبھی ملک میں یکساں سیول کوڈ کا ہوّا کھڑا کیا گیا، مسلمانوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی۔ مسلمانوں کی شدید مخالفت کے نتیجہ میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذکا مطالبہ کرنے والوں کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔ ہندوستان کی آزادی کے 75سال پورے ہوگئے لیکن اس ملک کے سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ ئی کہ یہ ملک کثرت میں وحدت کا علمبردار ہے۔ اس ملک میں کئی مذاہب کے لوگ رہتے بستے ہیں ۔ ان سب کو ایک قانون سے ہانکنا ملک کی مشترکہ تہذیب کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دستور کے باب چہارم میں درج ریاست کے رہنمایانہ اصولوں کے تحت دفعہ 44کو شامل کیا گیا۔ یہ دفعہ یکساں سیول کوڈ سے متعلق ہے۔ اس دفعہ کے تحت یہ کہا گیا کہ ©”مملکت اس بات کی کوشش کر ے گی کہ وہ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرے "دستور میں کہیں یہ نہیں لکھا گیا کہ حکومت بروز طاقت ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرے۔ دستور کے رہنمایانہ اصولوں کی حیثیت حکومت کو ہدایات یا مشوروں کی طرح ہے۔ اس میں درج امور کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کو پابند نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ریاست کے رہنمایانہ اصولوں میں جہاں یکساں سیول کوڈ کا تذکرہ کیا گیا وہیں دیگر اور امور بھی شامل ہیں۔ ان میں نشہ آور اشیاءپر پابندی اور مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل بھی ہے۔ آیا حکومت نے پورے ملک میں نشہ بندی کے قانون کو نافذ کر دیا؟ ہر شہری کو انصاف حاصل کرنے کے بھرپور مواقع دینے کی طمانیت اس باب میں دی گئی۔کیا ملک کا عام شہری واقعی انصاف کے حاصل کرنے میں کا میاب ہو رہا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ ملک کی عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے۔ مظلوم انصاف کے لئے ترس رہا ہے۔ اس جانب حکومت کی توجہ نہیں ہے۔ شراب نوشی سے کتنے خاندان برباد ہو رہے ہیں۔ پورا خاندانی نظام اس کی وجہ سے بکھر گیا ہے۔ حکومت کیوں شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں پر پابندی عائد نہیں کر تی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے حکومت کو کافی آمدنی ہو تی ہے۔ انسانی جانوں کو داو¿ پر لگا کر حکومت اپنے خزانے بھرتی ہے۔ اس پر کوئی احتجاج نہیں ہوتا۔ یکساں سیول کوڈ پر ہی سب کی توجہ مرکوز ہے۔ حالانکہ جب دستور کی تدوین کے وقت اس پر جو بحث ہو رہی تھی اس وقت ہی مسلم ارکان دستور ساز اسمبلی نے دفعہ 44پر اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے اسے دستور سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت دستور کے مسودہ ساز کمیٹی کے صدرنشین ڈاکٹر بی۔آر۔ امبیڈ کر نے جو تاریخی جملہ کہا تھا وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ "ہندوستان میں شہریوں کو مذہبی آزادی ہو تے ہوئے کوئی فاتر العقل حکومت ہی بروز طاقت ملک میں یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرنے کی کوشش کرے گی "ڈاکٹر امبیڈ کر نہیں جانتے تھے کہ اُ ن جیسے مدّبر سیاستدانوں کے بعد ملک میں ایسے سیاستدان بھی جنم لیں گے جو عقل و فہم سے عاری ہوں گے۔ ان کی جانب سے کئے جانے والے فیصلے ملک کو آزمائش میں ڈال دیں گے۔ آج ملک کے سیاسی افق پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایسے ہی سیاستدانوں کی کھیپ دیکھنے کو ملے گی جو اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یکساں سیول کوڈ کا مسئلہ اسی لئے چھیڑا گیا کہ اب بی جے پی کے پاو¿ں سے زمین کھسکتی جا رہی ہے۔ کرناٹک اسمبلی الیکشن کے نتائج سے بی جے پی حواس باختہ ہو گئی ہے۔
ملک میں یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرنے کی حمایت کرنے والے یہ دعویٰ کر تے ہیں اس سے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی پیدا ہو گی۔ یہ ایک محض مفروضہ ہے۔ ملک کا کوئی طبقہ اپنے فیملی قوانین اور اصولوں سے دستبردار ہو کر وہ کیسے دیگر طبقوں کے ساتھ خوش و خرم رہ سکتا ہے۔ مذہبی قوانین میں یکسانیت سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا نہیں ہوتی۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو ان کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی جائے تو ملک میں ایک ایسی فضا تیار ہوگی جس میں کسی مذہب کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوگا۔ حکومت یکساں سیول کوڈ کے نام پر شہریوں کی مذہبی آزادی کو ختم کرنے کے جتن کرتی ہے تو اس سے ملک میں بے چینی اور اضطراب کا ماحول بنے گا۔ ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے۔ یہاں ہزاروں سال سے کئی مذاہب پائے جا تے ہیں۔ یکساںسیول کوڈ کے نام پر کسی بھی مذہب کے اصولوں سے چھیڑ چھاڑ ملک میں افراتفری کو بڑھا دے گی۔ کوئی بھی مذہب کے ماننے والے کسی دوسرے مذہب کے ضابطوں کو قبول نہیں کریںگے۔ یکساں سیول کوڈ کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے۔ اس سے ملک کے دیگر طبقے بھی متاثر ہوں گے۔ عیسائیوں کا اپنا پرسنل لا الگ ہے۔ قبائلی طبقے اپنے الگ معاشرتی طریقوں پر صدیوں سے عمل کرتے آرہے ہیں۔ ہندوو¿ں میں بھی مذہبی معاملہ میں یکسانیت نہیں ہے۔ حکومت آخر کس نوعیت کا یکساں سیول کوڈ ملک میں نافذکرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس پر کبھی سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ جب کبھی الیکشن آتا ہے اس مسئلہ پر بحث و مباحث شروع ہو جاتے ہیں۔ اب جب کہ ملک کی اہم ریاستوں میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اور 2024میں لوک سبھا کا الیکشن ہونے والا ہے۔ بی جے پی نے سوچ سمجھ کر اس مسئلہ کو چھیڑا ہے۔ اس کے لئے لا کمیشن کو پھر ایک بار یہ ذ مہ داری دی گئی ہے کہ وہ عوام سے اس بارے میں تجاویز طلب کرے۔ اس کے لئے محض تیس دن کا وقت دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے مختلف گوشوں سے بھی اپیل کی جارہی کہ وہ لا کمیشن سے نمائندگی کر تے ہوئے یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کریں۔ اسی دوران مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، نومنتخب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ نے ذرائع ابلاغ کو بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ، یکساں سیول کوڈ پر لا کمیشن کو ایک جامع جواب دینے کے لئے ماہر وکلاءاور قانون دانوں کے مشورے سے مسودہ تیار کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی کے مطابق مختلف تنظیمیں اور افرادلا کمیشن کو جواب دیں تو بہتر ہوگا۔ اس لئے جواب کے دینے میں عام لوگ جلدبازی سے کام نہ لیں تو مناسب ہے تا کہ ایک جامع اور مبسوط جواب مسلم پرسنل بورڈ کی جانب سے حکومت تک پہنچ سکے۔ یہ بات بھی مسلمان ذہن نشین کرلیں کہ یکساں سیول کوڈ کے مسئلے پر مسلمانوں کا بہت زیادہ جذباتی ہوجانا ، فسطائی طاقتوں کے لئے کارگر ثابت ہوگا۔ اس لئے اس مسئلہ کو سڑکوں پر لانے یا مظاہرے کرنے کے بجائے قانونی طریقہ سے اس کا حل تلاش کریں۔ ملک میں آئین موجود ہے۔ اسی کی مطابقت میں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسی آئین نے شہریوں کو مذہبی آزادی کا بنیادی حق دیا ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے ذریعہ ان کے اس حق کو چھینا جا رہا ہے۔ ملک کے انصاف پسند شہریوں کو متوجہ کیا جائے کہ متنازعہ موضوعات کو زیر بحث لاکر حکمران ملک کی خدمت کر رہے ہیں یا ملک کی بدخدمتی کی جا رہی ہے؟ ملک میں بیسیوں مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ اس کو حل کرنے کے بجائے یکساں سیول کوڈ کا راگ الاپنا محض عوام کو گمراہ کرنا ہے۔ اہل ملک کے سامنے اس حقیقت کو لانے کی ضرورت ہے کہ یکساں سیول کوڈ کا نعرہ لگا کر بی جے پی تیسری مرتبہ مرکز میں بر سراقتدار آنا چاہتی ہے۔ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے بی جے پی یہ سیاسی ہتھکنڈا آزما رہی ہے۔
٭٭٭