’’ چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘
اگرعورت ٹھوس بنیادوں پراپنے شوہرسے علیحدہ ہوجانا چاہتی ہے توباعزت طریقے سے الگ ہونے کی اجازت دیدی جاتی ہے تو یقینا اللہ تعالی بے انتہا خوش ہو جاتے ہیں اسی دوران خلع کی ایک درخواست پر تلنگانہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا جس میں عدالت نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ مسلم شوہر کو بیوی کی خلع کی درخواست کو مسترد کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
جہاں کسی جوڑے کی علیحدگی کی بات ہوتی ہے وہاں عرش الٰہی دہل جاتا ہے۔ اگرعورت بلاکسی عذر کے خلع چاہتی ہے تو ایسی صورتحال کو روکنے کے لئے شوہر کی مرضی لازم ہوجاتی ہے، تو وہیں عورت پر ظلم کرنے والوں کے خلاف روک ٹوک ضروری ہے۔ اگرعورت ٹھوس بنیادوں پراپنے شوہرسے علیحدہ ہوجانا چاہتی ہے توباعزت طریقے سے الگ ہونے کی اجازت دیدی جاتی ہے تو یقینا اللہ تعالی بے انتہا خوش ہو جاتے ہیں اسی دوران خلع کی ایک درخواست پر تلنگانہ ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا جس میں عدالت نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہاکہ مسلم شوہر کو بیوی کی خلع کی درخواست کو مسترد کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
خلع اسلامی قانون کے مطابق عورت کی جانب سے شادی کے معاہدے کو ختم کرنا ہے جس میں عام طور پر شوہر کو مہر واپس کرکے نجی طور پر معاملہ طے کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس موشومی بھٹا چاریہ اور جسٹس بی آر مدھو سدھن راؤ پر مشتمل دورکنی بنچ نے ایک شخص کی درخواست پر لیاہے۔ جس نے فیملی کورٹ کے اس حکم کو چالنج کیا تھا جس میں اس کے دائر کردہ مقدمہ کو خارج کردیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے اس خلع نامے کو کالعدم قرار دینے کی مانگ کی تھی۔ متعلقہ قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور سابقہ عدالتی نظائر سے مآخذ بنچ کا یہ فیصلہ مسلم زوجہ کی جانب سے مانگ کی گئی علحدگی کی شکل خلع سے متعلق حقوق اور طریقہ کار کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ معاملہ اکٹوبر 2020کے خلع نامہ سے متعلق ہے۔ جو ایک مفتی اسلامیات کے پروفیسر، عربی زبان کے ماہر اور مسجد کے امام کی دستخطوں سے جاری کیا گیا تھا۔ یہ جوڑا 2012سے رشتۂ ازدواج میں منسلک تھا اور 2017 میںشوہرکے مبینہ تشدد کے بعد جس سے خاتون کو دواخانہ میں داخل ہونا پڑا، یہی وہ وجہ تھی جس کے سبب بیوی نے خلع کا مطالبہ کیا۔ شوہر صلح کے اجلاسوں میں شریک نہ ہوا اور 2020میں مفتی کے خلع نامہ جاری کرنے کے اختیار کو چالنج کرتے ہوئے فیملی کورٹ سے رجوع ہوا۔ تلنگانہ ہائی کورٹ نے خلع سے متعلق اپنے حالیہ فیصلہ میں متعدد اہم نکات کی وضاحت کی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بیوی کی جانب سے خلع کا مطالبہ خود بخود اثر رکھتا ہے اور شوہر کو اسے روکنے کا کوئی مکمل اختیار حاصل نہیں۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ فیملی عدالتوں کو ایسے معاملات میں طویل سماعتوں کی ضرورت نہیں بلکہ مختصر اور فوری کارروائی ہی کافی ہے۔
عدالت نے کہا اگر بیوی مہر واپس نہ کرے تب بھی شوہر کو خلع روکنے کا اختیا ر حاصل نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ خلع ایک غیر تصادمی طلاق کا طریقہ ہے جسے فریقین شادی بچانے کی کوشش ناکام ہوجانے کے بعد نجی طور پر حل کرتے ہیں۔ دو رکنی بنچ نے واضح کیا کہ خلع کی تکمیل کے لئے مفتی یا دارالقضاء سے خلع نامہ حاصل کرنا لازمی نہیں۔ عدالت کا یہ تاثر تھا کہ مفتی کی رائے محض مشورہ ہوتی ہے اس کی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اور عدالت میں قابل نفاذ نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی تاثر دیا کہ خلع کے مطالبے کے لئے بیوی کو کوئی وجہ پیش کرنے یا شوہر کی منظوری لینے کی ضرورت نہیں۔
عدالت کا کردار محض اس رشتہ ازدواج کے خاتمہ کو قانونی طور پر تسلیم کرنا ہے تاکہ دونوں فریقین پر اس کا اطلاق ہو۔ فیصلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر بیوی خلع کا مطالبہ کرے اور معاملہ فریقین کے درمیان نجی سطح پر طے پارہا ہوتو یہ مطالبہ فوری اثر رکھتا ہے اور قانونی طور پر علحدگی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ عدالت نے فیملی کورٹس کو ہدایت دی ہے کہ خلع کی قانونی حیثیت کو جانچنے کے لئے صرف یہ دیکھا جائے کے بیوی نے صلح کی کوشش کی مہر واپس کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس کے بعد عدالت کو تفصیلی سماعت یا شواہد کی طوالت کے بغیر مختصر کارروائی میں فیصلہ دینا چاہئے۔ خلع کیس میں بیوی کی نمائندگی کرنے والے وکیل مبشر حسین انصاری نے ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اظہار اطمینان کیا ہے ان کہنا ہے یہ فیصلہ قرآن کی تعلیمات صحیح احادیث اور سپریم کورٹ کے طے شدہ اصولوں پر مبنی ہے جو خلع کے معاملے میں منظم اور منصفانہ راستہ فراہم کرتا ہے۔ انصاری نے کہا کہ ہائی کورٹ فیملی کورٹس کے لئے جس مختصر اور سادہ کارروائی کی ہدایت دی ہے اس سے ہزاروں زیر التواء خلع مقدمات کو فوری اور مؤثر طور پر نمٹانے میں مدد ملے گی۔
ان کے مطابق یہ فیصلہ بلا وجہ تاخیر اور پیچیدہ قانونی مراحل اور بے جا کاغذی کارروائیوں کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ لیکن بہرحال یہ فیصلہ شرعی اعتبار سے نا قابل قبول ہے۔ کیونکہ یہ شریعت کی منظوری کے مغائر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سارے مسلمان اس موضوع پر یک جٹ ہوکر کوئی موقف اختیار کریں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ اس طرح کے پیچیدہ مسئلوں پر قابل قبول ڈھنگ سے عمل درآمد کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس طرح کے خلع کے حصول کے بعد کوئی لڑکی یا خاتون شادی کرلے تو اسے علماء و مفتیان ناجائز نہ قرار دیدیں۔ جس انسان میں سچ سننے کی طاقت نہ ہو اس انسان سے گفتگو کرنے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ وہ آپ کی ہر بات کو غلط قرار دے کر اپنی غلطیوں پر بھی آپ ہی کو غلط قرار دے کر قصور وار ٹھہرا دے گا۔ طلاق مرد دیتا اور داغ عورت کے ماتھے پر لگتا ہے چاہے اس میں عورت کا قصور ہو یا نہ ہو، مرد سے کوئی نہیں پوچھتا کہ بیٹے تم نے اپنی بیوی کو طلاق کیوں دی ہے، لیکن عورت کو قدم قدم پر احساس دلایا جاتاہے کہ تم ہی بیوی بننے کے قابل نہیں تھی۔ مختصر یہ کہ اسلام میں نکاح ایک ساتھ رہنے کا معاہدہ ہے کوئی بھی فریق اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو معاہدے میں شگاف پڑجاتا ہے۔ تو آئیے ہم اس بات کا عہد کریں کہ اپنے گھروں کی بات عدالت میں نہ لے جائیں اور اپنی زندگی کو غیر ضروری موت میں تبدیل نہ کردیں۔ اختلاف شدت اختیار کرجائے تو یہی کہنا مناسب ہے کہ
’’ چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں‘‘