مظہر قادری
بزرگ کے ساتھ ہی ہماراتخیل معتبر، ایماندار اورمتاثر کن شخصیت کی جانب مبذول ہوجاتاہے۔ بزرگ کا مطلب ہی برترہے جو کہ عام آدمی سے اونچاہو توپرانے زمانے میں بزرگان دین ہواکرتے تھے جواپنے اسم بامسمی مثال تقلید ہو ا کرتے تھے۔ لوگ جوق درجوق ان کے علم اوراخلاق سے فائدہ اٹھاتے تھے اورکچھ حدتک ہی سہی ان کی تعلیمات اورنصیحتو ں سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتے تھے اوریہ دنیا کے ہر کو نے میں ہواکرتے تھے اورحق،ایمانداری،اخلاق،کرداراورنیک زندگی کی تاکید کیا کرتے تھے۔اورشاید اسی لیے اچھی یا بری دنیا ایک اچھے اخلاق کے دائرے میں چلتی آرہی تھی، لیکن اب دوربدل گیاہے یہ بزرگان دین یا توکم پید اہو رہے ہیں یااگرہیں بھی تو حالات حاضرہ کو دیکھتے ہوئے گوشہ نشینی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ پہلے دین کی تعلیم دے کر بزرگان دین بنتے تھے اورآج دنیا لوٹ کر بزرگان دنیا بن رہے ہیں۔ بہرحال یہ بزرگا ن دنیا آج کی تاریخ میں آپ کو ہرجگہ نظرآئیں گے۔ جو ہیں وہ توہیں ہی اورجو نہیں ہیں وہ بزرگان دنیا بننے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں، یہ دراصل دنیا میں سرخروہونے کی کوشش کرنے والے دولت مند لوگ ہیں۔ جو جتنا بڑا دولت مند ہوگا، وہ اتناہی بڑابزرگ دنیا کہلائے گا اور اس کے لیے Forbesہرسال دنیاکی امیر ترین بزرگا ن دنیا کی لسٹ شائع کرتارہتاہے۔ یہ لوگ سوسائٹی کے سب سے بڑے بزرگان دنیا ہوتے ہیں جو ان کے اثاثہ جات کی بنیادپر منتخب کیے جاتے ہیں۔پہلے زمانے میں کردار،اخلاق،نفس کشی،عبادت،ریاضت،حق گوئی، نیک چلنی کی وجہ سے بزرگان دین کہلاتے تھے، لیکن آج کل بدکرداری، بداخلاقی، خودغرضی، دھوکہ، فریب،جھوٹ، بدچلنی گویا کہ ہرناجائز طریقے سے دولت کماکر اکثر لوگ بزرگان دنیا بن رہے ہیں۔ بزرگان دنیا بننے کے لیے آپ حق کے راستے پر چل ہی نہیں سکتے کیوں کہ ہم میں سے اکثر نچلے اورمتوسط طبقے کے لوگ خوداپنی مثال لے سکتے ہیں کہ وہ اگرساری زندگی بھی اکل حلال کی کمائی کماکر کچھ بچانے کی کوشش کریں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔حلال کی کمائی میں آپ ساری زندگی کبھی چادرمیں پیر لمبے کرکے نہیں سوسکتے کیونکہ ساری زندگی آپ کی چادرآپ کے قدسے بہت کم رہتی وہیں پرآپ پھر غلط راستہ اختیارکرکے کمائی ہوئی دولت سے بڑی سے بڑی چادرخریدکر پیر پسارکر سوسکتے ہیں اوربزرگان دنیاکی لسٹ میں شامل ہوسکتے ہیں۔آج کے نفسانفسی ماحول میں جب کہ اخلاق،کرداراورمذہب کے سارے اقدار پامال ہوچکے ہیں ہر کوئی بزرگان دنیا بننے کی اس دوڑ میں شامل ہے، لیکن کامیاب صرف چند ایک ہی ہورہے ہیں اوراس کوشش میں اخلاق وکردار توہر ایک کے گرہی جارہے ہیں،اکثر کی حالت ”نہ خداہی ملا نہ وصال صنم، نہ اِدھرکے رہے نہ اُدھرکے رہے“ جیسی ہورہی ہے۔ ہم میں سے اکثر اس کوشش سے نہ تودین میں پورے ہیں اورنہ ہی دنیا میں۔
آج انسان کو دولت حاصل کرنے کے جنون نے اس حدتک گرادیاہے کہ وہ حلال وحرام کی تمام حدوں کو پارکرگیاہے، لیکن نتیجہ کیاہے پہلے جو قلندردکھتے تھے وہ حقیقت میں بادشاہ تھے اورآج جوبادشاہ دکھ رہے ہیں ان کی زندگی قلندروں سے بھی بدترہیں۔ان کے پاس دولت ضرورہے، لیکن صحت نہیں،سکون وقرارنہیں، زندگی صرف ایک خوف کے دائرے میں گزاررہے ہیں۔ دولت ضرورہے، لیکن عزت بالکل نہیں کیوں کہ سامنے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کی چمچہ گیری کرنے والے ان کے پیٹھ پیچھے ان کی گھناؤنی زندگی کی اصلی تصویر پیش کرتے رہتے ہیں۔پہلے بزرگان دین کے تقویٰ اورپرہیزگاری کی وجہ سے معتقدین جمع ہوتے تھے اب بزرگان دنیا کی عیاشیوں،آسائشوں،اورفضول خرچیوں کی وجہ سے ان کے پرستا ر ان کے اطراف جمع ہورہے ہیں۔بزگا ن دین کے گزر جانے کے ہزاروں سا ل بعد بھی ان کے معتقدین ان کی دی ہو ئی تعلیمات پر عمل کرتے رہتے ہیں، لیکن یہ جو آجکل کے بزرگادن دنیا ہیں، ان کے پرستا ران کی دولت اورمقام سے گرنے یامرنے کے فوری بعد ان کو بھول جاتے ہیں اوران کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتاہے۔ جس طرح سے آپ مذہبی ضروریات کے لیے بڑی مشکل سے ایک آدھ روپیہ دیتے ہیں لیکن شوق اورعیاشی کے لیے لاکھوں روپئے لٹاتے ہیں، اسی طرح نیک اورحلال محنت سے ساری زندگی بھی وہ کوشش کر ے توبڑی مشکل سے سرچھپانے کے لیے ایک چھوٹی سی چھت خریدسکتے ہیں جبکہ دھوکہ اوربے ایمانی سے بزرگان دنیا بن کر بڑے بڑے محلوں میں رہ سکتے ہیں۔ آپ کسی کوبھی نقصان پہنچاکر چوری کرکے ڈاکہ ڈال کر دھوکہ دے کر دولت بٹورسکتے ہیں اس لیے بزرگا ن دنیا بننا بہت آسان کام ہے جبکہ بزرگان دین بننا بہت مشکل کام ہوتاہے جس کے لیے سخت ترین ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے اورآج کل کے لوگ آسان کام کو ترجیح دے رہے ہیں یعنی شارکٹ میں بڑے آدمی بننے کی کوشش۔ پہلے زمانے میں بزرگان دین کے عمل کی خوشبوسے لوگ ان کے اطراف جمع ہوتے تھے لیکن آج کل کے بزرگان دنیا کے اطراف لوگ ان کی بدبویعنی بدکرداری کی وجہ سے جمع ہورہے ہیں۔ پہلے کے پرستا ردائمی تھے اورآج کے پرستا وقتی۔ ہم کو اس حقیقت کو اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ بزرگان دنیا بننے پر آپ کے اطراف کا حلقہ آپ سے زیادہ آپ کی دولت کا فائدہ اٹھاتا ہے جبکہ آپ صرف مجبوریوں کی بیڑیوں میں بندھے رہتے ہیں اورآپ کا سکو ن وچین ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتاہے جبکہ جو بزرگان دین ہوتے ہیں وہ کبھی تشنہ نہیں رہتے وہ ہمیشہ سکون میں رہتے ہیں۔ پہلے زمانہ میں بزرگان دین کی تعلیمات پر عمل کرتا تھا، اس لیے ان کی بادشاہت پشتوں چلتی رہتی تھی لیکن آج کل لیڈروں کا زمانہ ہے جو آج کی تاریخ میں دنیا کے سب سے بڑے بزرگان دنیا ہیں اوریہ وہ کاروبار ہے جس میں سوائے سچ اورحق کے ہربراکام کرکے منٹوں میں بزرگان دنیا بن سکتے ہیں۔
ہے ادھر جنت واعظ توادھر کوئے صنم ٭ دیکھنا یہ ہے کہ شکیل آج کدھر جاتے ہیں