جنوبی بھارتسوشیل میڈیا

مسلم خواتین کو طلاق کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل۔شوہر کی رضامندی ضروری نہیں

کیرالاہائیکورٹ نے یہ بتاتے ہوئے کہ شرعی قانون فسخِ نکاح کے مسلم خاتون کے حق کوتسلیم کرتاہے، رولنگ دی ہے کہ خاتون کی مرضی کوشوہر کی مرضی سے نہیں جوڑاجاسکتاجوشاید طلاق کیلئے رضامند نہ ہو۔

ترواننتاپورم: کیرالاہائیکورٹ نے یہ بتاتے ہوئے کہ شرعی قانون فسخِ نکاح کے مسلم خاتون کے حق کوتسلیم کرتاہے، رولنگ دی ہے کہ خاتون کی مرضی کوشوہر کی مرضی سے نہیں جوڑاجاسکتاجوشاید طلاق کیلئے رضامند نہ ہو۔

جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس سی ایس ڈائس کی دو رکنی بنچ نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کو خارج کر دیا جس میں عدالت نے ایک مسلم خاتون کے خلع کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا”بیوی کی درخواست پر جب شوہر رضامندی دینے سے انکار کرتا ہے تو ملک میں فسخ نکاح کو تسلیم کرنے کے لیے کسی بھی طریقہ کار کی عدم موجودگی میں عدالت صرف یہ کہہ سکتی ہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع لینے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ ایک عام مشاہدہ ہے جس میں مسلم خواتین کو اپنے مرد ہم منصبوں کی مرضی کے تابع دکھایا گیا ہے۔ یہ مشاہدہ اپیل کنندہ کے معاملے میں بے ضرر معلوم نہیں ہوتا بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے علما اور مسلم کمیونٹی کی بالادست مردانگی نے تیار کیا ہے اور اس کی حمایت کی ہے جو ماورائے عدالت خلع کے ذریعہ طلاق کے مسلم خواتین کے یکطرفہ حق کے اعلان کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔

نظرثانی کی یہ درخواست ایک اپیل کا نتیجہ ہے جس میں 1939 کے مسلم میرج ایکٹ کے تحت مسلم خاتون کو دی گئی طلاق کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایک مسلمان بیوی کی ایما پر فسخ نکاح کا حق قرآن پاک کا اسے عطا کردہ مکمل حق ہے اور یہ اس کے شوہر کی قبولیت یا مرضی سے مشروط نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر درج ذیل شرائط پوری ہوں تو خلع جائز ہے۔بیوی کی طرف سے نکاح کو منسوخ کرنے یا ختم کرنے کا اعلان۔ اسے مہر واپس کرنے کی پیشکش یا اس کی شادی کے دوران حاصل ہونے والا کوئی دوسرا مادی منافع‘خلع کے اعلان سے پہلے مفاہمت کی ایک موثر کوشش کی گئی ہو۔نظرثانی کی درخواست کے مطابق اگر کوئی مسلمان بیوی اپنے شوہر کے ساتھ اپنی شادی ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے اس سے طلاق کا مطالبہ کرنا ہوگا اور اگر وہ انکار کرتا ہے تو اسے قاضی یا عدالت سے رجوع ہونا ہوگا۔

اگرچہ درخواست گزار نے اعتراف کیا کہ ایک مسلمان عورت کو اپنی مرضی سے طلاق لینے کا حق ہے، لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ اسے خلع کا اعلان کرنے کا”کوئی مطلق حق نہیں“ ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمان بیوی کو یکطرفہ طور پر اپنی شادی ختم کرنے کا حق نہیں ہے۔مزید برآں عدالت نے نوٹ کیا کہ نظرثانی درخواست گزار نے تسلیم کیا کہ شوہر کے طلاق دینے سے انکار کرنے کی صورت میں قرآن اور سنت کوئی رہنمائی فراہم نہیں کرتی ہے۔

بنچ نے مزید کہا کہ اسلام نے اس طرح کے حالات پر قابو پانے کے لیے رہنمائی فراہم کی ہے جہاں قانونی خلا پیدا ہوتا ہے۔عدالت نے کہا کہ اگر نظرثانی کی درخواست گزار کے دلائل کو قبول کر لیا جاتا ہے تو ہندوستان میں مسلم خواتین کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں ان کے پاس قرآن کی طرف سے دیئے گئے اس حق کو استعمال کرنے کا کوئی حل نہیں ہوگا۔اس طرح عدالت نے پایا کہ فیصلے پر نظرثانی کی کوئی وجہ نہیں ہے اور اس طرح نظرثانی کی درخواست کو خارج کر دیا۔