طنز و مزاحمضامین

تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا

حمید عادل

آنکھوں سے متعلق اردو میںجتنے خوبصورت اور دلچسپ محاورے ہیں، شاید ہی کسی اور زبان میں ہوں گے… ایک معروف محاورہ ہے ’’آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنا‘‘اس محاورے کے تحت بندہ کسی کی آنکھ میں بنا اپنی آنکھ ڈالے آرام سے دیکھ سکتاہے … آنکھ بچانا ، پیسے بچانے جیسا بالکل نہیں ہوتا جبکہ آنکھ لڑانا، مرغ لڑانے سے اورآنکھ مارنا پتھر مارنے سے یکسرجداہوتا ہے … آنکھ بدلی نہیں جاتی لیکن کہا جاتا ہے آنکھ بدلنا ، بندہ کسی کی آنکھ چراتا نہیں لیکن کہتے ہیں آنکھ چرانا … یوں توآنکھوں کی ٹھنڈک مشہور ہے لیکن ان ہی آنکھوں سے چنگاریاں بھی اڑائی جاتی ہیں جب کہ آنکھیں انگاروں کے بغیر بھی سینکی جاسکتی ہیں…اردو کے شعرا نے تو آنکھوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے … آنکھیںکسی کے لیے جھیل ہیں تو کسی کے لیے سمندر … کسی کے لیے یہ چراغ ہیں تو کسی کے لیے مئے کدہ … بقول چچا غالب :
کون کہتا ہے مے نہیں چکھی، کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
دو دن قبل جب ہم سوئے تو ہماری آنکھوں کے دیے روشن تھے،لیکن جب صبح جاگے توچراغوں میں روشنی نہ رہی……دوسروں کو تو کجا ہم خود کو بھی نہیں دیکھ پارہے تھے … ویسے بھی ہم کہاں خود کو دیکھتے ہیں، ہم تو ہمیشہ اوروں کے عیب و ہنر دیکھتے ہیں ..بقول بہادر شاہ ظفر:
نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
انسان اگرخود کو دیکھنا شروع کردے تو پھر شاید اسے دنیا میں کوئی بھی برا نہ لگے لیکن غالباًیہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ دنیا میں صرف اور صرف اوروں کو دیکھنے کے لیے وراد ہوا ہے…
خیر!بات ہماری آنکھوں کی چل رہی تھی ،لاکھ جتن کے باوجودجب ہماری آنکھوں کے دیے روشن نہ ہوئے تو ہم نے ایک درد ناک چیخ ماری…چیخ کی شدت اس قدرشدید تھی کہ پھول بانو دوڑی دوڑی آئیں اور ہانپتے کانپتے پوچھا ’’ سب خیریت تو ہے ؟‘‘ ہم نے کہا :’’ہم اندھے ہوچکے ہیں، ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے …‘‘
:’’چلو جھوٹے‘‘ پھول بانو کے لہجے میںشوخی تھی۔
ہم نے تڑخ کر کہا ’’تمہارا شرارتی لہجہ یہ بتا رہا ہے کہ ہماری آنکھوں کے دیے بجھنے سے تمہاری دنیا روشن ہوگئی ہے ؟‘‘
پھول بانو نے اترا کرکہا ’’وہ تو ہے، اب تو میرے مزے ہی مزے ہیں۔‘‘
ہم نے جھلا کر کہا ’’ کیسے مزے ؟‘‘
کہنے لگیں ’’آپ ہمیشہ مجھے ٹوکا کرتے تھے، وہاں کیوں کھڑی ہو؟یہ کیا کررہی ہو؟ موبائل کب سے دیکھ رہی ہو؟یوٹیوب کیوں دیکھ رہی ہو؟اب مجھے اس قبیل کے بے مطلب سوالات سننے نہیں پڑیں گے، اسی لیے میرے مزے ہی مزے ہیں۔‘‘
دریں اثنا دروازے پر دستک ہوئی ، ہم نے دروازے کی سمت لپکنے کی حماقت کی تو منہ کے بل گر پڑے …اورپھول بانوکے ہاتھ کو پکڑ کر چیخ اٹھے ’’ اوہ خدا!اب تو ہمارا ہاتھ بھی ٹوٹ گیا‘‘ پھول بانو نے تنک کر کہا:اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی… یہ آپ کا نہیں میرا ہاتھ ہے …اندھے ہوگئے لیکن عقل ابھی تک نہیں آئی ۔‘‘
پھول بانو نے دروازہ کھولا،نازل ہونے والا کوئی اور نہیں، ہمارے پڑوسی چمن بیگ تھے،وہ ہم سے فوری لپٹ گئے اور لپٹ کر سسکنے لگے۔
’’ چمن! خیریت تو ہے ،تم صبح صبح کیسے ٹپک پڑے؟‘‘
کہنے لگے :کچھ دیر پہلے جو تم نے چیخ ماری وہ میرے گھر تک سنائی دی،چیخ کی شدت اتنی شدیدتھی کہ میںمسہری سے اچھل کر نیچے گر پڑا اور اٹھ کر سیدھے یہاں چلا آیا…بتاؤ تم نے اس قدر ہولناک چیخ کیوں ماری تھی؟
ہم نے فلم ’’دیدار‘‘ کے نابینا دلیپ کمارکے انداز میں کہا ’’ ہماری دنیا اجڑ چکی ہے چمن،ہمارے لیے دن اور رات دونوں ایک جیسے ہوچکے ہیں میرے بھائی ،ہم اندھے ہوچکے ہیں ، اندھے ہوچکے ہیں ۔‘‘آخری جملہ ادا کرتے کرتے ہم کراہ اٹھے ’’ یہ Pinکس نامعقول نے ہمارے ہاتھ پر چبھو دی؟‘‘
’’ میں نے چبھائی وہ پن۔‘‘چمن بیگ نے ہی ہی ہی کرتے ہوئے کہا۔
’’ مگر کیوں؟‘‘ہم نے سوال دے مارا۔
’’ دراصل میں دیکھنا چاہتا تھا کہ تم واقعی اندھے ہوچکے ہو یا اندھے ہونے کا ناٹک کررہے ہو ۔‘‘
’’ نامعقول !تو تم نے محض ہمیں جانچنے کے لیے ہمارے نازک سے ہاتھ پرPinچبھو دی۔‘‘ ہمارا انداز ہنوز دلیپ کمارانہ تھا۔
’’جانچنا ضروری ہے بھائی! آج سچ اورجھوٹ کو پہچاننا بہت دشوار ہوچکا ہے…‘‘اس بار چمن بیگ نے بڑی گہری بات کہہ ڈالی …اور پھر قدرے توقف سے کہنے لگے ’’ یہ تو بتاؤیہ سب ہوا کیسے ؟‘‘
’’پتا نہیں کیسے ہوا؟ جب ہم سوئے تو ہماری دنیا روشن تھی،لیکن جب جاگے تو اندھیر ہوچکا تھا ۔‘‘
دریں اثنا چائے اور بسکٹ والی ٹرے ڈرائنگ روم میں آگئی …چمن بیگ نے پہلے قریب سے ہماری آنکھوں کا جائزہ لیا اور پھر دھیرے سے جس پیالی میں چائے کم تھی،اسے ہمارے آگے کردیا اور بھرپور چائے والی پیالی اپنے ہونٹوں سے لگا لی …
اب آپ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارا یہ کیسا اندھاپن ہے ؟
دوستو!ہم اندھے ضرورہوچکے تھے لیکن اتنے بھی نہیں کہ کوئی ہماری آنکھوں میں دھول جھونکے اور ہم اُسے دیکھ نہ سکیں …ٹرے میں آٹھ بسکٹ پڑے تھے لیکن چمن بیگ ہم سے کہنے لگے ’’ بسکٹ بڑے ہی خستہ ہیں، دو تم کھاؤ اور دو میں کہتا ہوں ۔‘‘اس طرح انہوں نے چھ بسکٹ اپنے نام کرلیے …اور پھر ایک بار ہم سے آنکھیں چار کرتے ہوئے کہنے لگے:
’’ چند گھنٹوں میں تم اندھے کیسے ہو گئے؟ ‘‘ اور پھرخود ہی فیصلہ کربیٹھے ’’ لوز کنکشن معلوم ہوتا ہے ۔‘‘
’’ لوز کنکشن؟‘‘ہم نے حیرت سے سوال کیا ۔
’’ ہاں ہاں ! لوز کنکشن!اس طرح کے معاملات میں میری چھٹی بہت کام کرتی ہے ،اور وہی چھٹی حس مجھ سے چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ تمہاری کھوپڑی پر اگر ایک زور دار مکہ مارا جائے تو تمہاری آنکھوں کے دیے دوبارہ روشن ہوجائیں گے…‘‘
’’ یہ کیا بکواس ہے ؟‘‘ ہم گرجے۔
’’ تمہیں یاد ہے جب بچپن میںریڈیو ٹھیک سے اسٹیشن نہیں پکڑتا تھا تو ہم اس پرجم کرایک ہاتھ مارا کرتے تھے ، جس سے وہ ٹھیک سے چلنے لگتا تھا، آج بھی جب میرا کمپیوٹر اسکرین جھلملاتا ہے تو میں فوری اس پر اپنا دایاں ہاتھ دے مارتا ہوں، مار کا ایسامثبت اثر ہوتا ہے کہ اسکرین روشن ہوجاتا ہے ۔‘‘ اورپھر انہوں نے اچانک ہماری کھوپڑی پر ایک زور دار گھونسہ رسید کردیا …ان کا گھونسہ ہماری کھوپڑی پر کیا پڑا ، چودہ طبق تو کیاہماری آنکھیں ضرورروشن ہوگئیں …ہم یہ خوشخبری چمن بیگ کو سنانے ہی والے کہ آنکھوں کے دیے دوبارہ بجھ گئے …ہمیں ٹیوب لائٹ کی چاندنی سی روشنی زردی مائل نظر آرہی تھی تو چمن بیگ کے نام پر روبروایک ہیولا سے بیٹھا نظر آرہا تھا …
’’ کھوپڑی پر ہاتھ مارنے سے کچھ فرق ہوا۔‘‘ چمن بیگ نے چھٹا بسکٹ اپنے منہ میں ٹھونستے ہوئے پوچھا۔
’’ نہیں !‘‘ہم نے ایک اور گھونسے سے بچنے کے لیے جھوٹ کہہ دیا…
ہمیں اداس دیکھ کر چمن بیگ نے کہا : ’’اس وقت تمہاری کیا حالت ہے میں بخوبی جانتا ہوں،موڈ فریش کرنے کے لیے ایک لطیفہ سن لو … ایک اندھا آدمی ایک فائیو سٹار ہوٹل میں گیا!ہوٹل منیجر نے اس سے پوچھا: یہ ہمارا مینو ہے، آپ کیا لیں گے سر؟اندھے آدمی نے کہا : میں اندھا ہوں، آپ مجھے چمچ کو اپنے کچن کے کھانے کی اشیاء میں ڈبو کر لا دیں ، میں اُسے سونگھ کر آرڈر کر دوں گا!منیجر کو یہ سن کر بڑی ہی حیرت ہوئی، اور دل ہی دل میں سوچا کہ، کوئی آدمی سونگھ کر کیسے بتا سکتا ہے کہ ہم نے آج کیا پکایا ہے!منیجر نے جتنی بار بھی، اپنے الگ الگ کھانے کی اشیاء میںچمچ ڈبوکر، اندھے آدمی کو سنگھایا، اندھے نے صحیح بتایا کہ وہ کیا ہے، اور اندھے نے سونگھ کر ہی کھانے کا آرڈر کیا!ہفتے بھر یہی چلتا رہا. اندھا سونگھ کر آرڈر دیتا اور کھانا کھا کر چلا جاتا!
ایک دن منیجر کو اندھے آدمی کا امتحان لینے کی سوجھی کہ یہ سب ایک اندھا آدمی سونگھ کر کس طرح بتا سکتا ہے؟منیجر کچن میں گیا اور اپنی بیوی مینا سے کہا کہ، تم چمچ کو اپنے ہونٹوں سے لگا کر دو! مینا نے چائے کے چمچ کو اپنے ہونٹوں سے لگا کر چمچ منیجر کو دے دی! منیجر نے وہ چائے کا چمچ اندھے آدمی کو لا کر دیا اور کہا: بتاو آج ہم نے کیا بنایا ہے؟اندھے آدمی نے چمچ کو سونگھا اور بولا:
اوہ مائی گاڈ!میری کلاس فیلو مینا یہاں کام کرتی ہے…
منیجربیہوش ہوگیا…
چمن بیگ لطیفہ سنا کر اس قدر زور زور سے ہنسنے لگے کہ ہمیں ڈر سا ہونے لگا کہ وہ کہیں بیٹھے بیٹھے ’’مقدر کا سکندر ‘‘ نہ بن جائیں …جی ہاں !’’ روتے ہوئے آتے ہیں سب، ہنستا ہوا جو جائے گا، وہ مقدر کا سکندر جان من کہلائے گا …‘‘
ہماری آنکھوں کی روشنی کا کسی گاوں کی بجلی کی طرح کوئی بھروسہ نہ تھا،پل میںآرہی تھی اور پل میں جارہی تھی …ہم نے بینائی کی بحالی کے لیے مشہور و معروف ڈاکٹروں سے آنکھیں چار کیں تو انہوں نے ہمیں ہمیشہ نئے ٹسٹوں سے دوچار کیا …وہ ہماری پہلی رپورٹس کو قطعی خاطر میں نہیں لاتے اور ازسرنو ٹسٹس کروانے کا حکم صادر کرتے اور تازہ رپورٹس دیکھنے کے بعدان کا ایک ہی جواب ہوتا …دماغ سے آنکھوں کو جورگ جاتی ہے وہ درمیان میں دب چکی ہے ، ہم کچھ نہیں کرسکتے …ہم تلملا ڈاکٹرکو مفت کے مشورے سے نوازتے ’’ کیا اس کی بائی پاس سرجری بھی نہیں ہوسکتی ؟‘‘ڈاکٹرس ہماری نادانی پر مسکرا کرکہتے ’’ ناممکن ہے ، بال سے باریک رگ کی آج تک کوئی بائی پاس سرجری نہیں ہوئی ،جیسے ہی یہ ممکن ہوگا ہم آپ کو مطلع کریں گے …‘‘
مسلسل ایک ہی جواب سنتے سنتے ہماری آنکھوں کے ساتھ دل بھی بھر آیا…دل سے ایسا طوفان اٹھا کہ چیخ بن کر منہ سے برآمد ہوا …چیخ کے ساتھ ہی ہماری آنکھ کھلی اور خود کو بستر پر پڑا دیکھ کر ہماری مسرت کی انتہا نہیں رہی کہ ’’ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا‘‘ہماری بینائی محفوظ تھی، رب کریم کا شکر ادا کرتے کرتے بے ساختہ ہماری آنکھیںبھر آئیں، گویا وہ سمندر بن گئی تھیں… سمندر کے تصور کے ساتھ ہی ذہن کے کسی گوشے میں معروف شاعر منور رانا کایہ شعر شور مچانے لگا …
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
منور رانا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰