مذہب

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری رحمت اللہ علیہ، ورنگل کے ایک معزز جاگیردار قاضی اعلی تعلیم یافتہ و صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو بیابانی کے نام سے مشہور ہے۔ سلسلہ بیابانیہ کی ابتداء حضرت سید شاہ ضیاء الدین بیا بانی رحمت اللہ علیہ سے ہوئی جو امیر المومنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ مولائے کائنات کی 28 ویں پشت میں اور حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی معشوق اللہ رحمت اللہ علیہ کی 12 ویں پشت میں پیدا ہوئے۔

سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی
موظف پرنسپل گورنمنٹ جونیر کالج ورنگل

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری رحمت اللہ علیہ، ورنگل کے ایک معزز جاگیردار قاضی اعلی تعلیم یافتہ و صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو بیابانی کے نام سے مشہور ہے۔ سلسلہ بیابانیہ کی ابتداء حضرت سید شاہ ضیاء الدین بیا بانی رحمت اللہ علیہ سے ہوئی جو امیر المومنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ مولائے کائنات کی 28 ویں پشت میں اور حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی معشوق اللہ رحمت اللہ علیہ کی 12 ویں پشت میں پیدا ہوئے۔ آپ حسینی سادات ہیں۔

آپ ملتان سے ضلع جالنہ کے قصبہ امبڑ شریف تشریف لاے۔ حضرت سیدنا شاہ علی سانگڑے سلطان مشکل آسان رحمت اللہ علیہ نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ آپکی ہی 8 ویں پشت میں حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ 1210ھجری (مطابق 1795عیسوی) میں بمقام قاضی پیٹ جاگیر ضلع ورنگل میں تولد ہوے۔ بچپن ہی سے آپ میں کچھ عجیب و غریب آثار نمایاں تھے کہ دیکھنے والے کہہ اٹھتے کہ یہ لڑکا پیدایشی ولی اللہ ہے۔ آپ کی والدہ و ماموں حضرت سید مرتضی حسینی رحمت اللہ علیہ (ساکن قطبی گوڑہ حیدر آباد) نے ارشاد فرمایا کہ اس لڑکے میں پیدایش سے ہی کچھ غیر معمولی آثار پاے جاتے ہیں۔

آپ نے اپنے والد حضرت سید شاہ غلام محی الدین بیابانی رحمت اللہ علیہ اور حضرت فقر اللہ شاہ رحمت اللہ علیہ سے قلعہ ورنگل میں دینی تعلیم کی ابتداء فرمائ۔ چنانچہ آپ گیارہ سال کی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ فرمایا اور حیدرآباد کے علماء اور جید اساتذہ سے تفسیر قرآن ، تجوید، علم حدیث ، تاریچ اسلام اورفقہ کی اعلی تعلیم سے فارغ ہوے۔ حضرت درویش محی الدین قادری رحمت اللہ علیہ رکن بار کونسل حیدر آباد ہائی کورٹ، کتاب افضل الکرامات میں رقم فرمایا کہ حیدر آباد میں آپ اپنے رشتے کے تایا حضرت سید شاہ غلام علی شاہ موسوی صاحب قبلہ رحمت اللہ علیہ سے بھی طریقت و معرفت کی تعلیم وہ تربیت حاصل فرمائی۔

آپ نے حضرت حافظ صدر الدین صاحب سے عشق حقیقی کا سبق لیا ۔ چنانچہ عشق مجازی سے آپ کا دل اٹھ گیا اور آپ مکمل طور پر عشق حقیقی کے طرف رخ کیا۔ آپ ذکر اللہ و عبادت اور ریاضت کی طرف ما‏ئل ہوے۔ جس کے لئے آپ نے گوشہ تنہائ اختیار فرمائی سب سے پہلے آپ پاپنّہ پیٹ ضلع میدک کا انتخاب فرمایا جس کے پہاڑوں میں ایک عرصہ تک مصروف عبادت و ریاضت رہے۔ وہاں سے آپ قاضی پیٹ تشریف لاے اور قریب میں واقع بھٹّو پلّی کے پہاڑ کے غار میں بارہ سال اللہ سبحانہہ تعالی کی قربت ، رضا وخوشنودی کی جستجو میں عبادت، ریاضت و محنت شا خہ کرتے رہے۔ پہاڑ بوڑہ گٹہ کے غار میں اور اس کے علاوہ تالاب کوٹ چیروبمقام قاضی پیٹ مصروف و منہمک عبادت رہے۔ عبادت کے دوران تجلی الہی سے بھی مشرف ہوئے۔

اللہ کی یاد میں گریہ زاری فرماتے۔ اس دوران آپ کچھ کھاتے نہ تھے۔ اکثر صوفیاکرام کا یہ عمل رہا ہے کہ وہ اپنی عبادات میں احسان کی کیفیت پیدا کرنے کے لئے کچھ دنون کے لئے اپنے مرشد یا شیخ کی نگرانی میں گوشہ نشینی و خلوت اختیار کرتے تاکہ دلی اور نفسانی خواہشات پر مکمل قابو پاسکیں اور دن رات عبادت میں مصروف رہتے تھے اور جب اس قسم کی روحانی کیفیت پیدا ہو جاتی اور نفس مطمعنّہ کے درجہ پر فائز ہوتے تو دوبارہ عام زندگی گزارتے ہوے بذریہ ذکر و عبادات اللہ تعالی سے ہر لمحہ یعنی خلوت اور جلوت میں بھی تعلق قائم رکھتے۔ ہمیشہ کے لئے ترک دنیا یا رہبانیت اختیار نہیں کرتے جو مذہب اسلام میں ممنوع ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روات ہیکہ حضور پر نور صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جبرائیل مجھے رات کی عبادت کی وصیت کرتے رہتے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ میرے (نیک و صالح) بہترین امتی رات کو کم ہی سوئینگے۔حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب میں بھٹّو پلّی کے پہاڑ کے غار میں اللہ تعالی کی عبادت شاقہ میں منہمک تھا حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے ولایت کے اعلی درجہ پر فا‏ئز فرمایا اور میری تربیت راست فرمائی۔

خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فوجیوں کو تعلیم و تربیت دینے کی ہدایت فرمائی۔ لشکر بازار ہنمکنڈہ میں ان دنوں حیدرآباد نظام اور انگریزوں کی مشترکہ فوجی چھاونی تھی جسے کنٹونٹمنٹ ایریا کہا جاتاتھا۔ آپ ان فوجیوں سے ملاقات کیا کرتے ان کو تعلیم دیتے انکی تربیت کرتے تھے۔ اس طرح کئ فوجی آپ کے قریب ہوے اور آپکی بابرکت و روحانی اور کرشماتی شخصیت سے متاثر ہوکر آپ کے مرید ہوے اس کے علاوہ دیگر مقامات حیدرآباد، گلبرگہ، ہنگولی، اورنگ آباد ، راجستان، کولکتہ، بنگلور، لاہور ، کراچی وغیرہ اسطرح جہاں جہاں ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی وہاں کے مسلمان فوجی آپ کے مرید ہوتے گئے اور آپ کے مریدوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئ۔

جب کوئی آپ کا مرید ہوتا وہ کئ مہینوں تک آپ ہی کے پاس بغرض حصول تعلیم و تربیت ٹہر جاتا اسطرح آپ کے پاس مریدوں کی ایک کثیر تعداد ہمیشہ قیام پذیر رہتی جن کے کھانے اور رہنے کا انتظام خانقاہ شریف میں آپ اپنے ہی خرچے سے کیا کرتے کرتے تھے۔ آپ کی زمینات سے کافی آمدنی ہوتی جو زیادہ تر انہیں مریدوں پر خانقاہ کے انتظام ہی پر خرچ ہوتی تھی اور اسی وجہ سے آپ کے گھر میں کھانے پینے کی تنگی رہتی جس کی آپ نے کبھی پرواہ نہ کی۔ آپ سے نظام دکن اور کرنل ڈیوڈسن ریسیڈنٹ بہادر حیدر آباد اچھی طرح واقف اور معتقد تھے۔ ریسیڈنٹ بہادر حیدر آباد نے (قاضی پیٹ کے علاوہ) مزید دو گاوں کے زمینات بطور انعام کے احکامات بذریعہ حضرت مرزا زلفن بیگ بھجوائے۔

آپ اسکو لینے سے انکار کیا اور فرمایا کہ مجھے انگریز کا عطیہ نہیں چاہئے۔ بس مجھے اللہ کافی ہے۔ آپ کے خاص مریدوں و فیض یافتہ میں حضرات نامدار خان، مرزازلفن بیگ، محمد خان، شمس الدین، کالے خان، ضابطہ خان، مولانا محب اللہ خان (شاگرد حضرت عبد العزیز محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ)، سرور شاہ، آعظم خان (بنے میاں شاہ صاحب اورنگ آباد) عبد النبی شاہ ہنمکنڈہ رحمت اللہ علیہم اجمین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ انہیں صوفیاکرام میں سے ایک ہیں جو دنیا کےعیش وآرام کو ترک کرکے مذ ہب اسلام کی آبیاری ونشو نما میں اپنی ساری زند گی لگادی ۔

لوگوں کوسچائی کی ایسی روشنی سے آشنا کرایا کہ وہ اسلام جیسے پاک مذ ہب کو کلمہ حق پڑھکر اپنے سینے سے لگایا۔ آپ نے ان متلاشیان حق کو قرآن، حد یث وسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے آراستہ فرماکر قرب ربّانی و حب نبوی صلّ اللہ علیہ وسلم سے ان کے د لوں کو معمور و منوّر فرمایا۔ حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ علیہ نے دو نکاح فرماے اور آپ کے پانچ فرزند ان حضرات سید شاہ غلام سرور بیابانی، سید شاہ داؤد بیابانی، سید شاہ غلام غوث بیابانی، سید شاہ حیدر بیابانی اور سید شاہ غلام حسن بیابانی اور تین دختران تھیں۔

آپ اپنے فرزند حضرت سید شاہ غلام سروربیابانی کو بہت چاہتے تھے اور آپ کو تعلیم و تربیت و ولایت عظمی سے خود ہی سرفراز فرمائے اور اپنا جانشین مقرر فرماے۔ آپ کے خسر حضرت میر قربان علی صاحب ضلع ورنگل و کریمنگر کے کلکٹر تھے جو سادات خاندان سے تھے اور ایک نیک شخص تھے۔ عزت مآب جسٹس محمد ہدایت اللہ ، نا‏ب صدر جمہوریہ ہند جب درگاہ شریف قاضی پیٹ تشریف لاے اور مزار اقدس کی زیارت کئے اور فرمایا کہ ان کے دادا محمد قدرت اللہ صاحب ، حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ علیہ کے ارادتمند تھے ۔

آپ نے میرے دادا کو چٹّا دیا تھا جو ہمارے پاس بطور آثار مبارک و تبرک آج بھی محفوظ ہے ۔ حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ علیہ کی دعاء بہت جلد قبول ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ ورنگل میں بارش نہی ہوئی انسانوں اور جانوروں کے لئے پینے کا پانی تک میئسر نہ تھا ۔ نہائت ہی سخت قحط پڑا تھا ۔ کئ لوگ آپ کے مریدوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے دعاء کرنے کی خواہش کی ۔ چنانچہ آپ ان کی درخواست کو قبول فرماکر ان کے ساتھ تالاب کو گئے جو بالکل سوکھا ہوا تھا ۔ آپ نے پہلے وضو فرمایا اور نماز پڑھی اسکے بعد سجدے میں اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعاء کرنے لگے ۔ اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے آسمان بادلوں سے بھر گیا اور بارش ہونے لگی۔ بارش اس قدر تیز ہوی کہ کچھ ہی دیر میں تالاب پانی سے بھر گیا۔

آپ اور آپ کے مریدین پانی میں بھیگتے ہوے گھر تشریف لاے۔ ایک مرید اہل رسالہ (فوجی) پر جن مسلط تھا اور وہ طرح طرح کی تکالیف دیا کرتا تھا۔ اس شخص کے کئی طرح کے علاجات کروائے گئے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بالآخر بحالت مجبوری اس کو لیکر قاضی پیٹ آئے۔ حضرت سے ان تکالیف کا اظہار کیا ۔ایک روز وہ بستر پر سورہے تھے کہ اچانک جن ان کو ہوا میں معلق اٹھادیا سب لوگ دیکھتے رہے۔ حضرت کے مکان میں ایک باولی تھی اور قرب تھا کہ وہ جن اس شخص کو باولی میں ڈالدے۔ سب لوگ جو یہ دیکھ رہے تھے حضرت سے عرض کرنے لگے کہ مدد فرمائیں۔ حضرت قبلہ نے توجہ فرمائی اور وہ جن اس شخص کو باولی کے قریب رکھدیا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو ہوش آیا۔

اس نے کہا پیر و مرشد مجھ پر کب رحم آئیگا؟ حضرت نے فرمایا کہ اب وہ جن تمھارے قریب نہیں آئیگا۔ ارشاد مبارک کی تاثیر یہ ہوئی کہ جن پھر کبھی اس شخص کے قریب نہیں آیا۔ محی الدین علی صاحب تاجر ، ہنمکنڈہ ، حضرت قدس سرہ کے مرید ہوے۔ حضرت کو دعوت دے کر معہ بیس مریدین کے اپنے مکان ہنمکنڈہ لے گئے۔ حضرت کی تشریف آوری اور دعوت کی خبر سن کر تقریباًدو سو ہنمکنڈہ کے مساکین بھی جمع ہوگئے۔

مجمع کو دیکھ کر محی الدین علی تاجر پریشان ہوگئے۔ کھانا صرف بیس آدمی کا تیار ہوا تھا۔ انہوں نے حضرت قبلہ سے عرض کیا کہ لوگ بہت زیادہ آگئے۔ کھانا ان سب کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ حضرت نے ان کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے اپنا رومال عطا فرمایا اور کہا کہ اس رومال کو کھانے پر اڑھادو اور بغیر دیکھے کہ کھانا لوگوں کو کھلاتے جاؤ ۔ اللہ چاہے تو برکت ہوگی۔ تاجر صاحب نے ایسا ہی کیا۔ بیس آدمی کا کھانا دو سو سے زیادہ لوگ پر شکم ہوکر کھاے۔ الحمد للہ۔ سب لوگ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد رومال اٹھاکر دیکھا گیا تو ابھی پاؤ کھانا بچا ہوا تھا۔

افضل بیابانی بھوکوں کو کھانا، پیاسوں کو پانی

مرزا عبد اللہ بیگ صاحب کو دمہ کی شکایت تھی۔ حضرت قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوے اور امیدوار حصول صحت ہوئے۔ دمّہ کا مرض بڑی شدّت اختیار کر گیا تھا اور مہلک کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ دیکھنے والوں کو ان پر بڑا رحم آتا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ کسی سے علاج کرواؤ۔ انھوں نے عرض کیا کہ ہر قسم کے علاج کے بعد مایوس ہوکر آپکی خدمت اقدس میں امید لے کر حاضر ہوا ہوں۔ آپ نے انہیں بہت ٹالا مگر وہ در اقدس پر پڑے ہی رہے۔ ایک روز ان کی حالت بہت خراب ہوگئی۔ حضرت نے گھر میں سے چھانچ لاکر فرمایا کہ پیو۔ وہ چھانچ پینے لگے۔ پھر ارشاد ہوا کہ خوب پیو۔ وہ خوب پیئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ چاہا تو خیرت فرمادیگا۔

الحمد للہ۔ چنانچہ ان کو یہ بیماری پھر کبھی نہیں ہوئی۔ اور بفضل اللہ تعالی صحت مند اور بخیر اپنے مکان کو پہنچے۔ حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ علیہ کا انتقال پر ملال بتاریخ 27 صفر المظفر 1273 ھجری مطابق 28 اکٹوبر 1856 عیسوی بمقام قاضی پیٹ ہوا۔ آپ کی مزار اقدس پر ایک اعلی شان گنبد تعمیر کی گئی جو سبز سنگ مرمر سے مزئین ہے۔ آج بھی اس بارگاہ میں روزآنہ لنگر کا اہتمام ہوتا ہے جس میں مسافر، غریب، بیوائیں، یتیم، معذور افراد کثیر تعداد میں کھانا کھاتے ہیں۔

اس بارگاہ میں معتقدین کی دینی تعلیم و تربیت کے علاوہ روحانی تعلیم کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ حفظ قرآن شریف کا مدرسہ ہے۔ اکثر و بیشتر مفت طبی معائنہ و مفت میں دوائیں دی جاتی ہیں۔ آپکی درگاہ شریف کے سجادہ نشین و متولی حضرت قاضی ابو الخیر سید شاہ غلام افضل بیابانی المعروف بہ حضرت خسرو پاشاہ صاحب فاضل جامعہ نظامیہ کی قیادت میں عرس شریف کے مراسم ادا کئے جاتے ہیں۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں کتاب افضل الکرامات مصنف حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادری الموسوی رحمت اللہ علیہ ، تاریخ طباعت و اشاعت 27 رمضان المبارک 1331 ہجری، محلّہ اردو حیدر آباد دکن، سے استفادہ کیا گیا۔
٭٭٭

a3w
a3w