مضامین

خوفناک جوہری حادثے کا خطرہ

مسعود ابدالی

اناج سفار ت کاری کی کامیابی کے بعد ترک صدر رجب طیب اردغان جوہری سفارت کاری پر کام کررہے ہیں۔ یوکرینی جنگ نے ایک خوفناک جوہری حادثے کا خطرہ پیدا کردیا ہے۔ آج اسی موضوع پر چند سطور قارئین کی نذر:
جنگ کے آغاز پر ہی روس نے اپنی سرحد سے متصل مشرقی یوکرین میں زاپوریژیا(Zaporizhzhia) کے جوہری پاور پلانٹ پر قبضہ کرلیا تھا جو زاپوریژیا صوبے کے شہر اینرہودار (Enerhodar) میں دریائے دنپر(Dniper) کے کنارے واقع ہے۔ سوویت دور کا یہ پلانٹ 1986 میں مکمل ہوا تھا جس میں 6جوہری ری ایکٹر نصب ہیں اور پلانٹ میں بجلی پیدا کرنے کی مجموعی گنجائش 5700 میگاواٹس (MW)ہے۔ یہ یوروپ کی سب سے بڑی جوہری تنصیب ہے۔ گنجائش کے اعتبار سے اس کا شمار دنیا کی دس بڑی جوہری تنصیبات میں ہوتا ہے۔ جوہری پلانٹ کے قریب واقع تھرمل (پن بجلی گھر) پلانٹ بھی روس کے قبضے میں ہے۔
جوہری تنصیبات کے قریب یوکرینی اور روسی افواج کے درمیان خوف ناک لڑائی ہوئی اور میزائل لگنے سے پلانٹ کی ایک عمارت میں آگ لگ گئی۔ وہ تو خیریت رہی کہ نشانہ بننے والی عمارت پلانٹ سے باہر نئے انجینئروں کی تربیت گاہ تھی اور اس سے ری ایکٹر یا دوسری حساس تنصیبات متاثر نہیں ہوئیں لیکن یوکرینی حملے کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ پلانٹ پر براہ راست گولہ باری کے نتیجہ میں ایک ری ایکٹر کو نقصان پہنچا، لیکن تابکاری مواد کے اخراج کی کوئی رپورٹ نہیں۔
اس انکشاف پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے شدید تشویش کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آئی اے ای اے کے سربراہ ڈاکٹر رفائیل گروسی نے کہا کہ صورت حال نہایت خطرناک اور نازک ہے۔ انہو ںنے روس اور یوکرین سے مطالبہ کیا کہ ایجنسی کے ماہرین کو پلانٹ کے معائنہ کی اجازت دی جائے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے خبردار کیا کہ معاملہ صرف دو ملکوں کے درمیان نہیں بلکہ علاقہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تکنیکی سطح کے فوری معاہدے کی ضرورت ہے۔
جوہری تنصیبات کی تعمیر کے وقت حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں تا کہ ان کی بیرونی دیواریں اور چھت ایک خاص حد تک بیرونی دباﺅ جھیل سکیں، لیکن بم اور میزائل کے اثرات کو برداشت کرنا ممکن نہیں۔ کسی بھی ری ایکٹر پر براہ راست گولہ لگنے کی صورت میں نہ صرف تابکاری مواد کا خارج یا لیک ہونا یقینی ہے بلکہ ضرب سے ہائیڈروجن یا جوہری دھماکہ بھی خارج از امکان نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر کوئی راکٹ یا گولہ براہ راست کسی ری ایکٹر پر گرا تو اس کے نتیجہ میں جنم لینے والی تابکاری سے یوکرین، روس اور بیلارُس سمیت سارا یوروپ متاثر ہوگا۔
ری ایکٹر کی تباہی تابکار سیزیم 137 (Caesium-137) کے اخراج کا سبب بنے گی۔ سیزیم 137 انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرنک ہے جس کی معمولی سی مقدار بھی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ تابکاری زراعت کے لیے بھی مضر ہے اور اس کے اثر سے زرعی زمین طویل مدت کے لیے بنجر ہوسکتی ہے، لطیف ہونے کی بناءپر سیزیم 137 ہوا کے دوش پر طویل فاصلے تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ معاملہ صرف ری ایکٹر کا نہیں۔ یہاں بڑی مقدار میں جوہری کچرے (Nuclear Waste) کے ذخائر بھی ہیں۔ اگر یہ ذخائر بم یا میزائل کا نشانہ بنے تو یہاں محفوظ کیا گیا ٹنوں تابکاری مواد بڑی مصیبت کا سبب بن سکتا ہے۔
روس اور یوکرین دونوں کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہے۔ صدر پوٹن کہہ چکے ہیں کہ جوہری پلانٹ پر حملہ خودکشی ہوگا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن یہ عظیم الشان تنصیبات میدان جنگ کے بیچوں بیچ واقع ہیں، لہٰذا کسی بھی وقت کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس علاقہ پر روس یا یوکرین کسی کی گرفت مضبوط نہیں۔ یہاں قابض روسیوں کو کچھ فاصلے پر مورچہ زن یوکرینی فوج کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو پلانٹ کا قبضہ چھڑانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں سے اس علاقہ میں شدید گولہ باری ہورہی ہے۔
پلانٹ کی حفاظت اور تابکار مواد کے معاملے میں دونوں ملکوں کی سنجیدگی اور اخلاص اپنی جگہ، لیکن اصل مسئلہ اعتماد کا افقدان ہے۔ صدر زیلینسکی کا خیال ہے کہ روس پلانٹ پر قبضہ کو یوکرین کے خلاف دباﺅ کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف کریملن کو ڈر ہے کہ پلانٹ کے معائنے کے لیے ہونے والی فائر بندی کے دوران یوکرین اپنی صفیں منظم کرکے علاقہ پر روسی قبضہ ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ ماسکو کو اندازہ ہے کہ آئی اے ای اے کے زیادہ تر ماہرین امریکی اور یوروپی ہیں اور وہ حفاظتی اقدامات کی سفارش کرتے وقت انصاف سے کام نہیں لیں گے۔
یوکرین اور روس دونوں غلہ کارواں کے لیے کی جانے والی غیرجانبدارانہ جانچ پڑتال اور حفاظتی اقدامات کی طرح زاپوریژیا پلانٹ کے حفاظتی بندوبست کے لیے بھی صدر اردغان کی ثالثی کے خواہش مند ہیں۔ صدر پوٹن کہہ چکے ہیں کہ ترکی کو اس معاملے میں قیادت کرنی چاہیے۔ ترک صدر پر جناب زیلینسکی کو بھی اعتماد ہے۔ روسی میڈیا کے مطابق صدر اردغان جوہری توانائی کے ترک ماہرین سے مشورہ کررہے ہیں جس کے بعد وہ آئی اے ای اے کی قیادت سے بات کریں گے۔ اس گفتگو کے نتیجہ میں اگر کوئی قابل عمل تجویز سامنے آئی تو وہ روسی صدر کو اعتماد میں لیں گے۔ امریکہ نے پلانٹ کے ارد گرد ایک غیر عسکری زون قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس پرر وسی وزارت خارجہ نے تبصرہ کرنے سے بھی انکار کردیا، لیکن اب کہا جارہا ہے کہ صدر پوٹن جوہری معائنہ کاروں کی حفاظت کے لیے پلانٹ کے قریب ترک امن دستے تعینات کرنے پر رضامند دکھائی دے رہے ہیں۔