مذہبمضامین

رمضان المبارک اور پیشہ ور گداگر

مفتی عبدالمنعم فاروقی

اسلام محنت ومزدوری کرنے اور حلال طریقہ سے کمانے کی تعلیم وتلقین کرتا ہے اور محنت وجستجو سے کمانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس کے برخلاف مانگنے ، پیشہ گداگری اور لوگوں کے سامنے بلا کسی شدید ضرورت کے ہاتھ پھےلانے کی مذمت کرتا ہے اور مفت خوروں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے،یہی وجہ ہے کہ اسلام کی نظر میں سچا تاجر اور محنتی مزدور قابل قدر ہے اور اس کے برخلاف سائل اور بھیک مانگنے والا لائق مذمت ہے ،نبی اکرم نے کسی سے مانگنے اور سوال کرنے کو ذلت سے تعبیر فرمایا ہے ،ایک موقع پر نبی اکرم نے ارشاد فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نےچے والے ہاتھ سے بہتر ہے یعنی دینے والا لےنے والے سے بہتر ہے۔
محنت مزدوری جہاں آدمی کو خوددار بناتی ہے وہیں ذلت ورسوائی سے بچاتی ہے ، محنت مزدوری سے ایک وقت کی روکھی سوکھی روٹی حاصل کرنا سوال کے ذریعہ حاصل کئے گئے عمدہ قسم کے کھانوں سے ہزارہا درجہ بہتر ہے ،اسلام تو باعزت زندگی گزارنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اےسے افعال واعمال اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے جس سے وہ خالق ومخلوق دونوں کی نگاہ میں قابل احترام بن جائے ،وہ قوت بازو سے کمائے اور دوسروں پر بوجھ بننے کے بجائے دوسروں کے بوجھ کو اپنے کندھے پر اٹھانے کے قابل بننے کی تلقین کرتا ہے، جو شخص ضرورت مندوں کی ضروریات کا کفیل بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں اور غیب سے اس کے لیے رزق کے اےسے راستے کھولتے ہیں جس کا اسے گمان تک نہیں جاتا ،محنت مزدوری کرنے والے سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور اس کی کوشش میں اپنی مدد شامل فرماتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی میں برکت عطا فرماتے ہیں اور اگر وہ اپنے اس مال سے دوسروں کی مدد وخدمت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو کر اس کے لیے برکت اور وسعت رزق کا دروازہ کھول دےتے ہیں۔
بلاکسی مجبوری کے ، صحت وتندرستی حاصل ہونے کے باوجود یا مال کے اضافہ کی حرص میں سوال کرنا اور لوگوں سے مال طلب کرنا نہایت مذموم اور شریعت کی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے، نبی اکرم نے اےسے شخص کو سخت قسم کی وعید سنائی ہے ،چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے ،اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکھٹا کرے (مسلم)،ایک اور حدیث میں ہے کہ دنیا میں لوگوں سے مانگتے رہنے والا یعنی گداگری کا پیشہ اختیار کرنے والے شخص کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ذلیل ورسوا کریں گے، وہ اس طور پر کہ اس کے چہرہ سے گوشت نکال دیا جائے گا اور وہ ڈراو¿نی شکل وصورت کا ہوگا،حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: وہ سوالی(پیشہ ور گداگر) جو لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے، قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی (بخاری)، مذکورہ احادیث میںکس قدر سخت وعید اور کس درجہ سخت سزا بتلائی گئی ہے مگر پھر بھی ایک بڑا طبقہ بھیک مانگنے کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے اور دن ورات گھوم کر لوگوں کے دروازوں پر دستک دےتے ہوئے اپنے لیے آگ جمع کرنے میں لگا ہوا ہے ،بعضے بھکاری تو مفلوک الحال جےسے لباس پہن کر، معذورین اور اپاہج کی نقل کرتے ہوئے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں اور ان سے ہمدردی حاصل کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ پیسے ان سے نکال لےتے ہیں ،نقلی اپاہج اور ڈھونگی فقیر دیہاتوں میں شائد کم نظر آتے ہوں، مگر بڑے بڑے شہروں کے چوراہوں پر چوبیس گھنٹے مانگتے ہوئے نظر آئےں گے ،رمضان المبارک میں تو باضابطہ ہزاروں کی تعداد میں پیشہ ور گداگر چھوٹے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہوئے ٹولیوں کی شکل میں محلہ محلہ ،بستی بستی اور مصروف ترین علاقوں وشاہراہوں میں پھےل جاتے ہیں اور دن ورات اسی کام میں مصروف رہتے ہیں ، ان مانگنے والوں کی ایک بڑی تعداد صحت مند ،تندرست اور غیر مستحق کی ہوتی ہے اور ان میں سے بعض تو غیر مسلم ہوتے ہیں جو کرتا پاجامہ ،ٹوپی اور عورتیں برقع پہن کر بھےک مانگتے ہیں ، سچ تو یہ ہے کہ ان بھیک مانگنے والوں میں اکثر وبیشتر کھاتے پےتے گھرانے اور زمین وجائداد والے ہوتے ہیں ،محنت مزدوری سے جان چھڑاتے ہیں ،یہ مفت کھانے کے عادی ہوتے ہیں ،بعض تو خاندانی فقیر ہوتے ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ خود کو خاندانی فقیر کہتے ہیں اور اس پر ناز بھی کرتے ہیں ،جو لوگ انہیں صحت مند وتندرست سمجھتے ہوئے خیرات دےنے سے انکار کرتے ہیں تو یہ انہیں بدعائیں دےنے کی دھمکی دےتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو نہ دینا خدا کی ناراضگی کا سبب ہے ،خصوصاً رمضان المبارک میں گویا ان کا کاروبار عروج پر ہوتا ہے ، ان میں سے بعض کے بارے میں شخصی طور پر معلوم کیا گیا تو پتا چلا کہ یہ ایک طرف غریبی ومفلسی کا ڈھونگ رچا کر لوگوں سے پیسے مانگتے ہیں اور دوسری طرف انہیں پیسوں سے سودی لین دین کرتے ہیں ،یقینا اس طرح کے فرضی بھکاریوں اور پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے حقیقی مستحق محروم ہوجاتے ہیں ، حقیقی ضرورت مند اولاً تو عزت نفس کی خاطر دست سوال سے احتراز کرتے ہیں اور کبھی شدید مجبوری کی بنا کر شرماشرمی میں باہر نکل کے سوال بھی کرتے ہیں تو عموماً لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں ناکام ہوتے ہیں وجہ ظاہر ہے کہ ان کا انداز ویسا نہیں ہوتا جیسا پیشہ ور گداگروں کا ہوتا ہے اور لوگ بھی انہیں کی طرف توجہ دےتے ہیں جو ان سے چمٹ کر سوال کرتے ہےں جس سے مستحق تو محروم اور پیشہ ور مالامال ہوجاتے ہیں۔
اہل علم نے مانگنے والوں کی تین قسمیں بتلائی ہیں (۱) معذور فقیر(۲) صحت مند فقیر(۳) اور پیشہ ور فقیر ، ان تینوں میںپیشہ ور فقیر کو دینا تو کسی صورت میں جائز نہیں ہے ،ان کو دینا گویا اپنے صدقات غیر مستحق کو دے کر حقیقی مستحق کو محروم کرنا ہے ،اسی طرح انہیں صدقہ وخیرات دے کر مفت خوری کا عادی بنانا ہے نیز انہیں روپیہ پیسہ دینا گویا ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو کہ ایک طرح سے معاشرتی مجرم کی حمایت کرنا ہے کیوں کہ گداگری کا پیشہ اختیار کرنا ایک قسم کا معاشرتی جرم ہے اور ان کی مدد کرنا گویا مجرم کی مدد کرنا ہے ، جیسا کہ اوپر حدیث گزری جس میں آپ نے لوگوں سے مانگ مانگ کر پیسہ جمع کرنے کو آگ کے انگاروں سے تشبیہ دے کر اس کی خطرناکی کو بتلایا ہے ،ایک موقع پر آپ نے حضرت ثوبان ؓ سے فرمایا کہ کون ہے جو مجھے یہ ضمانت دے کہ وہ کبھی کسی سے سوال نہیں کرے گا تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ،حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول ! میں ضمانت دیتا ہوں ،چنانچہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کسی سے سوال نہیں کیا( نسائی)،ام المدارس دارالعلوم دیوبند اور ملک کے دیگر بڑے جامعات کے فتاوے موجود ہیں جن میں صراحت کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ پیشہ ور فقیروں کو دینا ناجائز ہے ،چنانچہ دارالعلوم دیوبند سے جاری کئے گئے فتویٰ میں صاف طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ ” اےسے لوگ جو حقیقت میں ضرورت مند اور محتاج نہ ہوں بلکہ بھیک مانگنا ان کا پیشہ بن گیا ہو ،ان کے لئے بھیک مانگنا حرام اور ان کو دینا ناجائز ہے (فتوی نمبر ۶۰۹۵۵۴)۔دوسرے صحت مند وہ فقیر ہیں جو محنت مزدوری کرتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کی کفالت کی بھر پور کوشش کرتے ہیں مگر آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے غربت کا شکار ہو گئے ہیں یا کسی بیماری میں علاج ومعالجہ کی وجہ سے مالی مشکلات سے دوچار ہوگئے ہیں یا پھر کسی اہم ضرورت کی تکمیل کی وجہ سے سر پر قرض کا بوجھ پڑ گیا ہے اور مجبور ولاچار ہو کر دست سوال کرنے لگے ہیں تو یہ معاشرہ کے حقیقی غریب ومفلس ہیں چنانچہ ان کی ہرطرح سے مدد وامداد کرنا جائز ہے بلکہ اگر ان میں سے کسی کے متعلق جب پتا چل جائے کہ یہ مالی مشکلات کا شکار ہوں چکے ہیں تو ان کے مانگنے سے پہلے ان کی ضرورت کو پورا کرنا چاہیے تاکہ وہ سوال کی ذلت وشرمندگی سے بچ جائیں اور ان کی عزت نفس مجروح نہ ہوں ،مالداروں کی ذمہ داری ہے کہ اےسے مفلوک الحال اور حقیقی ضرورت مندوں کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے ان تک امداد پہنچا ئیں ، یہ وہ مفلس ومحتاج ہیں کہ انہیں سوال کرنا جائز ہے اور ان کی ہرطرح سے مدد وامداد کرنا بھی درست اور جائز ہے ۔
ضرورت مندوں میںبعض لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد اب وہ کوشش کرنے سے جی چراتے ہیں اور محنت مزدوری کے ذریعہ آمدنی بڑھانے کی فکر کرنے کے بجائے دےنے والوں سے امید لگاتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے ، کیوں کہ شدید مجبوری میں ضرورت کی تکمیل کے بعد کوشش یہ ہونی چاہیے کہ آئندہ دست سوال کی نوبت نہ آئے ،حجة الوداع کے موقع پر نبی اکرم لوگوں میں صدقہ کا مال تقسیم فرمارہے تھے ،اس موقع پر دو آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صدقہ کا سوال کیا ،وہ خود کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں نظر اُٹھا کر دیکھا پھر نگاہ نیچی کی، آپ نے ہمیں قوی اور تندرست پاکر فرمایا : اگر تم چاہو تو تمہیں دے تا ہوں لیکن صدقہ کے مال میں مالدار اور قوی کا کوئی حصہ نہیں ہے جو کمانے کی طاقت رکھتا ہے( ابوداو¿د)بلکہ ایک دفعہ آپ صدقہ تقسیم فرمارہے تھے ،ایک شخص نے آکر صدقہ کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا: صدقات کی تقسیم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نبی یا کسی دوسرے کے حکم پر راضی نہیں ہوا بلکہ خود ہی اس کو آٹھ مدات پر تقسیم کردیا ہے ،اب اگر تم بھی ان میں شمار ہوتے ہو تو میں تمہیں دیتا ہوں ( ابوداو¿د) ۔
تیسری قسم معذور مفلسوں کی ہے جو اپنے عذر کی وجہ سے محنت مزدوری سے قاصر ہیں اور اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے لوگوں سے مانگتے ہیں چنانچہ ان کی مجبوری کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی مدد وامداد کرنا جائز ہے اور ان کے لیے بقدر ضرورت مانگنے کی گنجائش بھی ہے ، اسلام تو معذور واپاہج کا بھر پور خیال کرنے کی تعلیم دیتا ہے ، نبی اکرم معذورین اور اپاہج کا نہ صرف خیال فرماتے تھے بلکہ لوگوں کو ان کی خدمت کی تلقین بھی فرماتے تھے ،آپ اپنے اصحاب ؓ کو ان کی خدمت اور مدد کی طرف متوجہ دلایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ وہ اپنے معذور اور اپاہج رشتے داروں کا خیال رکھیں ،اسلامی حکومت میں تو باضابطہ ان کے لئے وظیفہ مقرر کیا جاتا تھا ،چنانچہ فارق اعظم ؓ کے دور خلافت میں ہزاروں معذوروں کا بیت المال سے وظیفہ مقرر تھا اور ان کے نام رجسٹر میں درج تھے تاکہ وہ کسی پریشانی کا شکار نہ ہوں ،چونکہ اس وقت اور خصوصاً ہمارے ملک میں معذورین کی کفالت اور ان کی مکمل مدد کا کوئی ٹھوس نظم نہیں ہے اور حکومت کی طرف سے جو کچھ امداد بھی کی جاتی ہے تو وہ ان کی ضرورت کے لیے ناکافی ہوتی ہے ،اسی طرح بعض تنظیمیں اپنے طور پر وظائف کے ذریعہ ان کی مدد و خدمت کرتی ہیں مگر وہ بھی ناکافی ہوتی ہیں، اس لیے ان حالات میں ان کے لیے مانگنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا تو جس کی وجہ سے یہ مانگتے ہیں تو ان کے لئے اس کی گنجائش ہے اور صاحب حیثیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کا خیال کریں ۔
اوپر ذکر کیا گیا کہ بہت سے لوگ شہروں میں مستقل بھیک مانگنے ہی کا کا م کرتے ہیں اور بالخصوص رمضان المبارک میں دیہات وقصبات سے ہزاروں کی تعداد میں مرد وخواتین اپنے بچوں کے ساتھ بھیک مانگنے کے لیے شہروں ، بڑے قصبات اورمالدار علاقوں رخ کرتے ہیں چونکہ یہ پیشہ ور بھکاری اور غیر مستحق ہیں جنہیں زکوٰة اور دیگر واجب صدقات دینا جائز نہیں ہے ،بھیک مانگنا ان کی ضرورت نہیں بلکہ پیشہ ہوتا ہے ، صدقات جو صرف اور صرف مستحقین کا حق ہے انہیں دے کر حقیقی مستحقین کو ان کے حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے ، زکوٰة کے ادا کرنے کے سلسلہ میں جو اصول بتایا گیا ہے وہ یہ کہ اس کے حق دار پہلے غریب رشتے دار ہیں ،پھر پڑوسی جو ہمارے قرب وجوار میں رہتے ہیں اس کے بعد وہ مسلمان جو غربت کا زیادہ شکار ہیں ، زکوٰة کے سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ وہ خالص غریب اور مستحق کا حق ہے ،غیر مستحق کو دینا اور اسے زکوٰة لینا جائز نہیں ہے، مالداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستحق تلاش کریں اور اسے زکوٰة دیں ،عموماً متمول حضرات اس سلسلہ میں بے احتیاطی برتتے ہیں، ہر مانگنے والے اور گھر پر دستک دےنے والوں کو غریب سمجھتے ہیں حالانکہ ان میں سے بہت سے مستحق نہیں ہوتے بلکہ پیشہ ور ہوتے ہیں ،اس لیے فریضہ زکوٰة کی ادائےگی میں محتاط رہنا ضروری ہے ،ان لوگوں کو تلاش کریں جو اس کے حقیقی حقدار ہیں ،اگر ضرورت پڑے تو مستحقین کے متعلق معلومات حاصل کریں اور ان تک اپنی زکوٰة پہنچائیں تاکہ حق دار کو حق ملے ،اگر آپ حقیقی غرباءکو نہیں جانتے اور کسی وجہ سے ان تک رسائی نہ ہو پارہی ہے تو اےسے دینی و رفاہی تنظیموں کو اس کا ذمہ دار بنائیں جن کی امانت، دیانت اور شفافیت پر آپ کو اطمینان حاصل ہے ،یہ بھی یاد رکھیں کہ اپنی زکوٰة کا ایک حصہ دینی مدارس کو بھی دیں بلکہ حالات کے تناظر میں پہلے سے زیادہ ان پر توجہ دیں کیونکہ ان مدارس کا استحکام دراصل نسلوں میں دین وایمان کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔