مرحومین کی طرف سے قربانی جائز، ثواب کا ذریعہ ہے: مفتی صابر پاشاہ قادری
تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز، نامپلی حیدرآباد کے خطیب و امام مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے قربانی کے اہم احکام و فضائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت ہے، جسے امت محمدیہ ﷺ کے لیے بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں قربانی کی عظمت کا واضح تذکرہ موجود ہے۔

حیدرآباد: تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز، نامپلی حیدرآباد کے خطیب و امام مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے قربانی کے اہم احکام و فضائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت ہے، جسے امت محمدیہ ﷺ کے لیے بھی برقرار رکھا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں قربانی کی عظمت کا واضح تذکرہ موجود ہے۔
مولانا نے سورہ کوثر کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
"پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں” (الکوثر:2)۔
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ان میں ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے، حتیٰ کہ اون کے ہر بال کے بدلے بھی نیکی ملتی ہے۔
مولانا نے واضح کیا کہ قربانی ہر اس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحبِ نصاب ہو، یعنی جس کے پاس بنیادی ضروریات سے زائد ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر مال یا زیورات ہوں۔
مرحومین کے لیے قربانی کی شرعی حیثیت
مولانا مفتی صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ مرحوم والدین یا دیگر فوت شدہ عزیزوں کے لیے قربانی کرنا جائز ہے، اور اس کا ثواب ان کو پہنچتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور جانور مرحوم کی طرف سے قربان کرے یا اس میں حصہ نکالے تو یہ بھی درست ہے۔
انہوں نے حضرت علیؓ کا عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک دنبہ اپنی طرف سے اور ایک دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربان کیا کرتے تھے۔
مرحومین کی طرف سے قربانی کے دو طریقے
- وصیت کی صورت میں: اگر مرحوم نے وصیت کی ہو اور ترکہ میں مال موجود ہو تو ایک تہائی مال سے قربانی کرنا لازم ہے۔ اس صورت میں گوشت صرف صدقہ کیا جائے گا، مالداروں کے لیے کھانا جائز نہیں ہوگا۔
- بطور ایصالِ ثواب: اگر مرحوم نے وصیت نہ کی ہو اور کوئی شخص اپنی طرف سے قربانی کرے تو یہ اس کی طرف سے نفلی قربانی ہوگی جس کا ثواب مرحوم کو ملے گا۔ ایسی قربانی کا گوشت مالدار اور فقیر دونوں کھا سکتے ہیں۔
مستند فتاویٰ کی روشنی میں
مولانا نے فتاویٰ شامی اور امداد الفتاویٰ کے حوالہ سے کہا کہ قربانی کرنے والا مرحوم کے لیے نیت کر کے اس کا اجر بخش سکتا ہے۔ دونوں طرح کی صورتیں جائز ہیں، خواہ نام کے ساتھ حصہ لیا جائے یا بغیر نام کے نیت سے ذبح کیا جائے۔
پانی پلانا صدقہ جاریہ ہے
مولانا مفتی صابر پاشاہ قادری نے مزید کہا کہ پانی پلانا بھی ایک عظیم صدقہ ہے، جس کا ثواب مرحومین کو ایصال کیا جا سکتا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ کی روایت کے مطابق جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا، تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں، اور سب سے بہتر صدقہ پانی پلانا ہے۔”
مولانا نے کہا کہ واٹر کولر، فلٹریشن پلانٹ، کنویں یا نلکے کی صورت میں پانی کی فراہمی ایک بہت بڑی نیکی ہے، اور اس کا اجر مرحومین کو ضرور پہنچتا ہے۔
تختی لگانے کا شرعی حکم
مولانا نے وضاحت کی کہ اگر واٹر کولر یا دیگر صدقہ جاریہ کے منصوبے پر تختی لگائی جائے تو اس کی نیت ریاکاری نہ ہو، بلکہ صرف دعاؤں کے حصول اور مرحومین کے لیے مغفرت کی نیت ہو تو یہ جائز ہے۔ تاہم اگر مقصد صرف نمائش ہو تو بہتر ہے کہ تختی نہ لگائی جائے، کیونکہ ریاکاری اعمال کو ضائع کر دیتی ہے۔