دل کا خاموش دورہ، یہ عام دوروں سے زیادہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے
کی زبان میں ہارٹ اٹیک یا دل کا دورہ عموماً اس وقت پڑتا ہے جب دل کے پٹھوں کو خون فراہم کر نے والی قلبی شریان میں خون کی جمی ہوئی پھٹکی پھنس جاتی ہے یا چربیلے مادے کے جمنے سے خون کا بہاؤ رک جاتا ہے اور خون سے محروم ہونے والا دل کا وہ متاثرہ پٹھا مناسب طورپر کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہوگا کہ دل کا دورہ یا ہارٹ اٹیک کوئی بہت تکلیف دہ قسم کی چیز ہوتی ہے۔ جو بعض اوقات مہلک بھی بن جاتی ہے تاہم کچھ دل کے دورے ایسے بھی ہوتے ہیں جو خاموشی سے آکر گزر جاتے ہیں اور مریض یا مریضہ کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کے دل پر کیا بیت چکی ہے۔ اس قسم کے خاموش یا غیر تشخیص شدہ ہارٹ اٹیک سے صرف امریکہ میں ہر سال تقریبا دو لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ طبی جائزوں کے مطابق جتنے بھی دل کے دور ے پڑتے ہیں ان میں 40 سے 60 فیصد اسی قسم کے غیر شناخت شدہ دورے ہوتے ہیں۔
طب کی زبان میں ہارٹ اٹیک یا دل کا دورہ عموماً اس وقت پڑتا ہے جب دل کے پٹھوں کو خون فراہم کر نے والی قلبی شریان میں خون کی جمی ہوئی پھٹکی پھنس جاتی ہے یا چربیلے مادے کے جمنے سے خون کا بہاؤ رک جاتا ہے اور خون سے محروم ہونے والا دل کا وہ متاثرہ پٹھا مناسب طورپر کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اس صورت میں جو علامتیں سامنے آتی ہیں ان میں سینے میں شدید درد، سانس لینے میں دشواری، غشی اور متلی کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔ اگر کسی کو شبہ بھی ہو کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے تو فوری طور پر قریبی اسپتال کے ایمرجنسی روم میں لے جانا چاہئے تاہم بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل کے دورے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی یا جو شخص ا س تجربے سے گزر رہا ہوتا ہے اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان علامتوں کا تعلق دل سے ہے اور اس بنا پر وہ علاج کے لیے اسپتال کا رخ نہیں کرتا جو اس کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہو تا ہے۔
ماہرین امراض قلب ابھی حال ہی میں اس قسم کے Silent Heart Attacks کے واقعات سے روشناس ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے دوروں کے علاج کے ضمن میں ریسرچ بھی بہت محدود پیمانے پر کی جاسکی ہے، تاہم یہ بات واضح ہے کہ جن عوامل کی بنا پر عام ہارٹ اٹیک ہوسکتا ہے وہی عوامل خاموش ہارٹ اٹیک میں بھی کارفرما ہوتے ہیں جن میں سگریٹ نوشی، ذیابیطس، ذہنی دباؤ اور فیملی ہسٹری شامل ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ایک نئے جائزے سے معلوم ہوا کہ اس قسم کے خاموش دل کے دورے معالجین کے اندازے سے کہیں زیادہ تعداد میں لوگوں کو پیش آرہے ہیں۔ اگر ماضی میں کبھی کسی کو دل کا عام دورہ پڑا تھا تو بعد میں جب کبھی اس مریض کا ECG یا الیکٹروکارڈیوگرام نکالا جاتا ہے، اس پر دل کی دھڑکن کی لہریں مخصوص Q-Wave کی شکل میں نظر آئیں گی لیکن جب لوگوں کو خاموش دل کا دورہ پڑتا ہے ان میں اس طرح کی ”کیو۔ ویوز“ نہیں دیکھی جاتیں۔ ریسر چرز نے ان لوگوں کے دورے کی تشخیص کے لیے نسبتاً ایک نئی تکنیک استعمال کی تھی جسے Delayed- enhancement Cardiovascular Magnetic Resonance کہتے ہیں اس کے تقریباً دو سال بعد ان مریضوں کا دوبارہ معائنہ کیا تھا۔ یہ کل 185 مریض تھے جن کے دل کی دوروں کی کبھی تشخیص نہیں کی جاسکی تھی لیکن ان کے بارے میں یہ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ قلبی شریانی بیماری میں مبتلا ہیں۔
ریسرچ کرنے والوں نے ان میں سے 35 فیصد مریضوں میں ہارٹ اٹیک کے شواہد دریافت کئے تھے اور یہ بھی دیکھا تھا کہ ”کیوویوز“ والے افراد کی نسبت بغیر کیوویوز والے خاموش دل کے دورے زیادہ عام تھے۔ اس ریسرچ میں یہ بھی دیکھا گیا کہ جن لوگوں کو کیو۔ ویوز کے بغیر دل کا دورہ پڑا تھا ان میں کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ 11 گنا زیادہ تھا جب کہ دل کی کسی خرابی میں مبتلا نہ ہونے والے مریضوں کے مقابلے میں ان میں دل کے مسائل کی وجہ سے موت کا خطرہ 17گنازیادہ دیکھا گیا تاہم اس سنگینی کے باوجود ماہرین لوگوں کو یہ عام مشورہ نہیں دیتے کہ وہ خاموش ہارٹ اٹیک کے لیے بھی طبی جانچ کے مرحلے سے گزریں۔البتہ اگر ان میں دل سے متعلق دیگر مسائل موجود ہوں تو وہ ضرور اسکریننگ کرواسکتے ہیں۔
دل کے خاموش دوروں کے حوالے سے ماہرین کے لیے تشویش کی ایک بات یہ بھی ہے کہ عام دوروں کی تشخیص تو ان کی کیو ویوز سے ہوجاتی ہے جب کہ خاموش دوروں کے مریضوں کی تشخیص کیوویوز کے نہ ہونے سے آسان نہیں ہوتی، اس لئے ان کے علاج کا مشورہ بھی بروقت نہیں دیا جاسکتا۔
اس کے باوجود یونیورسٹی آف ان پٹس برگ اسکول آف میڈیسن کے کارڈیولوجسٹ ڈاکٹر ایرک شیلبرٹ نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو سائیلنٹ ہارٹ اٹیک ہوتا ہے انہیں بھی وہی دوائیں تجویز کی جاتی ہیں جو عام ہارٹ اٹیک کے بعد اسپتال پہنچنے والے مریضوں کو دی جاتی ہیں۔ جن میں ”بیٹا بلاکرز“ ”اسٹیٹن“، ”اسپرین“ اور دیگر دوائیں ہوتی ہیں۔ ریسرچ کرنے والوں نے یہ بات بھی نوٹ کی ہے کہ خاموش دورے کا شکار ہونے والے زیادہ تر مریض بھی معمر افراد تھے اور ان میں ذیابیطس کی شکایت بھی تھی۔
٭٭٭