طنز و مزاحمضامین

ذرا مسکرائیے

یوسف ناظم

چاہے وہ جلسہ ہو یا مشاعرہ، قوالی کی محفل ہو یا کوئی سرکاری تقریب، کھیل کا میدان ہو یا سیاست کا ایوان، ایسی تمام جگہوں پر دعوت اور ٹکٹ کے بغیر داخل ہو جانے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ گلے میں ایک ناکارہ کیمرہ لٹکا لیا جائے۔ کیمرہ لٹکا رہے تو گردن بھی سیدھی رہتی ہے اور راستہ بھی سیدھا ملتا ہے۔ کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ کیمرہ مین سے یہ دریافت کرلے کہ آپ یہاں کس خوشی میں تشریف لائے ہیں۔
فوٹو گرافر ہی وہ واحد شخص ہے جو دن کے وقت سورج کی اور رات کے وقت بجلی کی روشنی میں پولس کی نظروں کے عین سامنے، جلسہ گاہ میں نقب لگاتا ہے اور پولس عقب میں چپ چاپ کھڑی رہتی ہے۔ فوٹو گرافر سے یہ بھی نہیں پوچھا جاسکتا کہ اس کے اس خوبصورت کیمرے میں فلم بھی ہے یا نہیں۔ یہ فوٹوگرافر کا اپنا راز ہوتا ہے جو عوام الناس پر ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔
فوٹو گرافر نہ تو مزاح گو ہوتا ہے نہ طنز نگار لیکن اس کے باوجود وہ سب کو مسکرانے پر مجبور کرسکتا ہے۔ اس کے ایک لفظ مسکرائیے میں عجیب وغریب تاثیر ہے۔ اس سے یہ لفظ سن کر وہ لوگ بھی مسکرادیتے ہیں جو نہ مسکرائیں تو تصویر زیادہ اچھی آئے۔ ان کی اپنی تصویر تو بگڑتی ہی ہے دوسرے مفت میں مارے جاتے ہیں۔ جس طرح کسی ملٹری آفیسر کی زبان سے اٹینشن کا لفظ سن کر پوری کی پوری بٹالین بے ضرورت سینہ تان دیتی ہے، اسی طرح فوٹو گرافر کی ایک معمولی اور رسمی فرمائش پر جس میں کوئی خلوص، کوئی درد نہیں ہوتا سبھی کی بانچھیں کھل جاتی ہیں۔ جوشٓ ملیح آبادی نے اسی طرح کسی فوٹوگرافر کے کہنے پر ایک حسینہ کو مسکراتے دیکھ لیا تھا تو برجستہ فرمایا تھا؛
یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے
(بعد میں انھوں نے اس مصرعے کو ایک رباعی میں جمع کرکے اس کا حلیہ بدل دیا)
فوٹو کھنچواتے وقت ہرشخص کا مسکرانا اب خود فوٹوگرافروں کو بھی پسند نہیں۔ فوٹو گرافر اب اتنے بااختیار ہوگئے ہیں گویا دستور کی ۴۲ویں ترمیم پارلیمان میں انہی کے لئے اتری تھی۔ گروپ فوٹو کھینچتے وقت پہلے تو یہ لوگوں کو شکل وصورت، قد وقامت اور لباس وپوشش کے معیار پر جانچ کر دو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، جن کا قد بہت زیادہ لمبا ہوتا ہے یا جو صورت سے مسکین اور دوسرے درجے کے شہری نظر آتے ہیں انھیں زمین پر بٹھادیتے ہیں، کسی کے حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں اسے اکڑوں بیٹھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
کرسیوں پر بیٹھنے والوں کے دست وبازو پر اتنی کڑی نظر رکھتے ہیں کہ یہ ڈر ہونے لگتا ہے کہ انھیں نظر نہ لگ جائے اور کرسیوں کے پیچھے کھڑے رہنے والوں کو اس طرح کھڑاکرتے ہیں کہ وہ کھڑے رہنے کے انداز ہی سے وظیفہ یاب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ فوٹو گرافر اپنے تمام ”سامعین“ کو اس طرح ترغیب دیتے ہیں جیسے اکابانا سسٹم کے مطابق گل دان میں پھول سجائے جاتے ہیں۔ یہاں تک تو خیر سب ٹھیک تھا اور لوگ اس بند و بست کے عادی بھی ہیں لیکن فوٹوگرافروں نے اپنے اختیارات میں اب اس اختیار کا اضافہ کرلیا ہے کہ وہ شرکائے تصویر میں سے کسی سے بھی کہہ دیتے ہیں کہ فلاں صاحب نہ مسکرائیں اور کسی کو اپنی مسکراہٹ کا والیوم کم کرنے کی ہدایت بھی دے سکتے ہیں۔ کوئی فوٹوگرافر یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ دستور کی ۴۲ویں ترمیم یونہی ضائع ہوجائے۔
فوٹوگرافر ہمیشہ ایک فوٹو دو مرتبہ کھینچا کرتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فوٹوگرافر ایک ہی تصویر دو قسطوں میں مکمل کرتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے۔ پہلی تصویر صرف مسودہ ہوتی ہے۔ فوٹوگرافروں نے اصل میں دہرانے کا یہ طریقہ شاعروں سے سیکھا ہے۔ شاعر اپنے ہر شعر کا پہلا مصرعہ دو مرتبہ پڑھا کرتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔)
ایک شاعر اور ایک فوٹوگرافر میں یوں تو کئی باتیں مختلف ہوتی ہیں لیکن ان دونوں حضرات میں دو فرق اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ فوٹو گرافر کو اپنے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ہوتی اور دوسرے یہ کہ فوٹو گرافر پر ہوٹنگ کا رواج نہیں بلکہ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ شاعر کی بجائے فوٹو گرافر ”دیدہ بینائے قوم“ ہوگیا ہے۔ کیمرے کی آنکھ چشم پوشی کی عادی نہیں ہوتی۔ آج اجتماعی اور انفرادی زندگی میں فوٹو گرافر کا وہی درجہ ہے جو غزل میں ردیف اور قافیے کاہوتا ہے، ورنہ عملاً وہ ہرخاندان کا رکن ہے۔
پہلے کی بات اور تھی، آدمی اپنی شکل صرف آئینے میں دیکھ کر خوش ہولیتا تھا، اب اس سے تشفی نہیں ہوتی۔ اپنی تصویروں کا ایک پورا البم رکھنا پڑتا ہے جس کا دن میں ایک مرتبہ مطالعہ ضروری ہے۔ جس خاندان کا فیملی البم نہیں ہوگا لوگ اس خاندان کے افراد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ یہ لوگ خاندانی ہیں بھی یا نہیں۔ بعض لوگ تو یہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ لوگ ممکن ہے خاندانی منصوبہ بندی کی خلاف ورزی کرکے پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے ہر شخص احتیاطاً ایک البم رکھتا ہی ہے۔
یوں بھی جب سے اعمال و افعال کی نوعیت بدل گئی ہے تصویروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اب ہرقدم پر آدمی کو اپنی تصویر پیش کرنی پڑتی ہے خواہ اس کا چہرہ تصویر کے لائق ہو یا نہ ہو وہ تصویر کے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبے میں دخل نہیں دے سکتا۔ امتحان دینا ہو تو ہال ٹکٹ پر اپنی تصویر لگانی ہی پڑے گی۔ یہ اور بات ہے کہ طالب علم کی جگہ اس کا کوئی خیرخواہ امتحان گاہ میں داخل ہو جائے اور جوابی پرچہ لکھ آئے، لیکن اب اصلی طالب علم خود ہی امتحان دینے میں حرج نہیں سمجھتے۔ امتحانی پرچے پہلے ہی سے چھپ کر بکنے لگے ہیں جو کرایہ لے کر امتحان دینے والوں کے مقابلے میں سستے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی کے اور بہت سے اشغال ہیں جن سے فارغ ہونے کے لیے شناختی کارڈ بھی بنوانا پڑتا ہے جس پر اپنی تصویر لگانی ضروری ہے۔ بعض لوگ بھولے سے شناختی کارڈ پر اپنی دو تصویر لگوادیتے ہیں جو انھوں نے شادی سے پہلے کھنچوائی تھی، پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔
نظم و نسق کی کسی خرابی کی وجہ سے ملازمت مل جانے کا خدشہ بھی رہتا ہے، اس لیے اس سلسلے میں بھی دو تین درجن تصویریں درکار ہوتی ہیں ورنہ پاسپورٹ کے لیے تو چند تصویریں ہونی ہی چاہیے۔
یہ تو خیر جبریہ تصویریں ہوئیں لیکن شوقیہ تصویریں بھی ہیں جن کے بغیر ایسی کہانی نظر آتی ہے جس پر باقی آئندہ لکھا ہو جو تصویر ملازمت کی درخواست کے لیے ہوتی ہے وہ شادی کی مہم کے لیے ناموزوں سمجھی جاتی ہے حالانکہ ہوتی دونوں ہی ملازمتیں ہیں لیکن بہرحال شادی کے باب میں جو تصویریں کھنچوائی جاتی ہیں ان کا انداز ”اسلوب“ اور لہجہ الگ ہوتا ہے۔ یہ نکتہ آپ کو فوٹو گرافر ہی تفصیل سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پھر شاعروں اور ادیبوں کی مخصوص اسٹائل کی تصویریں ہوتی ہیں۔
ادبی رسائل میں پہلے صرف کلام یا مضمون کی اشاعت کافی سمجھی جاتی تھی۔ قارئین بھی مطمئن ہوجاتے تھے، لیکن اب تصویر کے بغیر کسی تحریر کی اشاعت اس لیے ممکن نہیں کہ کم سے کم ایک چیز تو غنیمت ہونی چاہیے۔ شاعر اور ادیب اب اپنے نتیجہ فکر اور اس کے انتخاب پر اتنا وقت نہیں صرف کرتے جتنا وہ اپنی تصویر کے انتخاب پر فرماتے ہیں۔ ایڈیٹر بھی فوٹو گرافر کے نتیجہ فکر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور فوٹو گرافر بھی ایسی تصویروں پر کم محنت نہیں کرتے۔ اپنا خون پسینہ ایک کردیتے ہیں تب کہیں جاکر شاعر اور ادیب آدمی نظر آتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چند دن بعد ایڈیٹر ہر تصویر کے نیچے یہ جملہ بھی چھاپنا شروع کردیں گے کہ ایڈیٹر کا فوٹوگرافر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تصویروں کی سماجی اہمیت کی وجہ سے اب سمجھ دار لوگ اپنا فوٹوگرافر ہمیشہ ساتھ رکھتے ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس فوٹو گرافر سے تجارتی معاہدہ کرلیتے ہیں جو تقریب میں پہلے ہی سے موجود ہو یہ جب بھی کسی بڑے آدمی کے قریب پہنچتے ہیں کھٹ سے ایک تصویر کھینچ جاتی ہے۔ چند ہی مہینوں میں ایک البم تیار ہو جاتا ہے۔
کسی بڑے آدمی یا بڑی خاتون کو عام جلسے میں ہار پہنانے کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے بعض لوگ منہ مانگے دام ادا کرتے ہیں۔ اس موقعہ کی جو تصویر کھینچتی ہے وہ ان کے ڈرائنگ روم میں ہر وقت لٹکی رہتی ہے جب ذرا گردن اٹھالی دیکھ لی اور یہی قیمتی تصویر بعض وقت ایسی معلوم ہونے لگی ہے جیسے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہو۔ یہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ پورے ماحول کی تصویر بدل جاتی ہے اور آدمی خود تصویر حیرت بن جاتا ہے۔ ان تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں رہا اسے معلوم تھا پردہ کبھی نہ کبھی تو اٹھنا ہی ہے۔ ہاں ان لوگوں کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا جو شروع ہی سے کسی بات کا پردہ نہ رکھیں۔
اب تو ضرورت کی کوئی چیز خریدیئے اس کی بوتل یا ڈبے پر یا تو موجد کی تصویر موجود ہوگی یا پھر کوئی ماڈل اپنی زلفوں، دانتوں، ہاتھوں اور اس قسم کی دوسری اشیاءکی نمائش میں مصروف نظر آئے گا۔
پیکنگ پر اگر تصویریں نہ ہوں تو بہوتوں کو تو خبر بھی نہ ہو کہ دنیا میں کیا کیا چیزیں ایجاد ہوگئی ہیں۔ ان ڈبوں اور بوتلوں کو آپ قرینے سے گھر میں سجادیں تو ایک آرٹ گیلری بن جائے۔
الیکشن کے امیدواروں پر بھی اب لازم ہے کہ وہ اپنے اپنے پوسٹروں پر اپنی تصویر ضرور چھپوائیں۔ کہتے ہیں امریکہ میں جمی کارٹر صرف اپنی تصویر کی وجہ سے الیکشن جیت گیا۔ اگر کوئی امیدوار پوسٹر پر صرف اپنا نشان انتخاب چھاپے اور یہ نشانِ انتخاب کوئی جانور ہو تو غلط فہمی کا امکان رہتا ہے۔
سنا ہے فوٹو گرافر بھی اب اپنے اسٹوڈیو کے شوکیس میں صرف انہی لوگوں کی تصویریں نمائش کے لیے رکھتے ہیں جو پابندی سے ہرماہ اس کا کرایہ ادا کرتے ہوں۔ بعض تصویریں البتہ ہوتی ہی نمائش کے لیے ہیں۔ یہ ان مہ رخوں کی تصویریں ہوتی ہیں جن سے ملنے کے لیے غالب نے مصوری سیکھنے کی کوشش کی تھی۔
یوں تو فوٹوگرافر ہرجگہ آ اور جا سکتا ہے لیکن وہ صرف اس جگہ نہیں جا سکتا جہاں مکانوں کو ڈھانے کے لیے بلڈوزر کام کررہا ہو یا کسی مجسٹریٹ کے حکم پر عوام پر گولی چلائی جارہی ہو۔ یہ پابندی بھی صرف اس لیے ہے کہ فوٹوگرافر اگر وہاں گیا بھی تو کس سے کہے گا ”ذرا مسکرائیے۔“

a3w
a3w