مضامین

گجرات میں پھر ہندوتوا سیاست کا میاب

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

گجرات اور ہماچل پردیش کی ریاستی اسمبلیوں کے لیے منعقد ہوئے انتخابات کے نتائج آ چکے ہیں ۔ گجرات میں بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کا میابی ملی ہے۔ ہما چل پر دیش میں کانگریس نے بی جے پی سے اقتدار چھین لیا لیکن پارٹی میں چیف منسٹر کے عہدے کو لے کر آپس میں سر پھٹول شروع ہو چکی ہے۔ گجرات میں بی جے پی ساتویں مر تبہ حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اس مرتبہ پارٹی کو تاریخی جیت ملی ہے۔ اس نے اپنی پچھلی کامیابیوں کے سارے سابق ریکارڈ توڑ دیے۔ ریاستی اسمبلی کی کل 182 نشستوںمیں سے بی جے پی کو دو تہائی نشستوں سے زیادہ پر کا میابی حاصل ہوئی۔ گجرات میں کانگریس کی پھر ایک مرتبہ کراری شکست ہوگئی۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں کانگریس کو جتنی سیٹیں ملی تھیں، اب اس سے بھی کافی کم پر اسے انحصار کرنا پڑا ۔ عام آدمی پارٹی نے گجرات اسمبلی الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پارٹی کے صدر اور دہلی حکومت کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے یہ پیشن گوئی بھی کردی تھی کہ گجرات میں عام آدمی پارٹی کی حکومت بنے گی۔ مگر یہ تمام دعوے‘ دعوے ہی رہے۔ پارٹی کے بڑے بڑے قائدین کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان کوئی سیاسی مفاہمت ہوجا تی تو گجرات کاانتخابی نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ گجرات کے اسمبلی الیکشن پر سارے ہندوستان کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس الیکشن میں گجرات کے رائے دہندے اپنے پختہ سیاسی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے گجرات کو ہندوتوا کی لیباریٹری بننے سے بچالیں گے۔ لیکن سارا الیکشن جذباتی نعروں کے سہارے لڑا گیا اس لئے عوام بھی ان نعروں کا شکار ہو کر بی جے پی کو اپنا مسیحا سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔ پوری انتخابی مہم کے دوران عوام میں کوئی غیر معمولی جوش و خروش الیکشن کے دوران نہیں دیکھا گیا۔ حکومت کے خلاف ناراضگی کی لہر چل رہی تھی اورامید کی کی جا رہی تھی کہ رائے دہی کے دن عوام اپنا فیصلہ بی جے پی کے خلاف دیں گے۔ گز شتہ 27سال سے گجرات میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ان ستائیں سالوں میں ریاست کی ترقی بلندیوں کو چھولینا چاہئے تھا۔ لیکن اپنے اس طویل ترین دور میں بی جے پی نے گجرات کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کر دیا جہاں نفرت اور عناد کی باد سموم ہی چلتی رہی۔ سماج کو سیاسی مفادات کی خاطر فرقہ وارانہ خطوط پراس قدر تقسیم کر کے رکھ دیا گیا کہ سماج کا ہر طبقہ ایک دوسرے سے خوف کھا رہا ہے۔ الیکشن میں مقامی مسائل کا تذکرہ کہیں ہو تا نظر نہیں آیا۔ حکومت یہ بتانے میں ناکام ہو گئی کہ 27بر سوں میں ریاست میں کتنے ترقیاتی پراجکٹس پایہ تکمیل کو پہنچے۔ تعلیم کے شعبہ میں کتنی ترقی ہوئی۔ کتنے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں مل سکیں۔ یہ سارے مسائل کو پسِ پشت ڈال کر صرف وزیر اعظم نریندر مودی کا چہرہ بتا کر ووٹ حاصل کرلئے گئے۔ لیکن متنازعہ موضوعات کو انتخابی مہم کا حصہ بناکر بی جے پی گجرات میں اپنے 27سالہ اقتدار کو باقی رکھنے میں کا میاب ہو گئی۔ بی جے پی کی یہ شاندار کامیابی سیکولرپارٹیوں کے لئے لمحہ فکر ہے۔
بی جے پی کو گجرات میں پہلی مر تبہ کا میابی 1995کے اسمبلی الیکشن ہو ئی تھی۔ اس کے بعد سے لگاتار وہ اپنی کا میابی کے جھنڈے گجرات میں گاڑتی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی کامیابی کا فیصد کبھی گھٹتا اور کبھی بڑھتا رہا۔ 2002کے الیکشن کے بعد سے گجرات میں بی جے پی کی گرفت کافی مضبوط ہوگئی ہے۔ لیکن اس بار اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ بی جے پی کو جھٹکا لگے گا اور وہ حکومت بنانے میں کا میاب نہیں ہو جائے گی۔ خاص طور پر کووڈ۔ 19کے ہولناک دور میں پورے ملک میں جو کہرام مچا تھا اس میں گجرات کے بھی بہت سارے علاقے ایسے تھے جہاں ہزاروں لوگ ہر روز مر رہے تھے۔ ان کو نہ دوائیں وقت پر مل رہی تھیں اور نہ ان کے کھانے پینے کا کوئی انتظام حکومت کی جانب سے کیا جا رہا تھا۔ حتی کہ مرنے والوں کی آخری رسومات بھی حکومت سلیقہ سے انجام دینے میں ناکام ہو گئی تھی۔ایسی بدترین صورت حال سے دوچار ہونے کے بعد بی جے پی حکومت کے تعلق سے عوامی غصہ کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ گجرات بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جمہوریت میں عوام کا فیصلہ ہی قابل قبول ہوتا ہے۔ گجرات کی عوام نے بی جے پی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا گجرات کی عوام بھی نفرتی سیاست کے بھنورسے نکلنا نہیں چاہتی ہے۔ گجرات کا نام پوری دنیا میں مارچ2002کے خونین فسادات کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔ بی جے پی آج بھی ان بھیانک واقعات کو کرید کر اپنی سیاسی بازیگری میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ حالیہ انتخابی مہم میں تقریر کر تے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ "ہم نے گجرات میں 2002میں کچھ لوگوں کو ایسا سبق سکھایا کہ اس کے بعد گجرات میں کبھی دنگے نہیں ہوئے "ایک ذ مہ دار وزیر کی یہ تلخ بیانی کیا ایک فرقہ کے خلاف زہر افشانی نہیں ہے۔ ایک اہم منصب پر ہوتے ہوئے امت شاہ کو یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ ان فسادات کے ذریعہ ایک مخصوص طبقہ کو سبق سکھایا گیا؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ گودھرا سانحہ کو بنیاد بناکر 2002کے فسادات میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ دو ہزار سے زائد بے قصورمسلمانوں کی جانیں لی گئیں۔ معصوم خواتین کی عصمتیںلوٹی گئیں۔ ان میں وہ بلقیس بانو بھی تھی جس کی اجتمائی عصمت ریزی کی گئی اور اس کے 9افراد خاندان کا قتل بھی ہوتا ہے ۔ اس میں تین سال کی شیر خوار بچی بھی تھی جسے ظالموں نے زمین پر پٹخ پٹخ کر مار دیا۔ افسوس کہ یہ قاتل اور زانی جیل سے رہا بھی کر دئے گئے۔ ظلم و ستم کی اس قدر خطرناک آندھی چلنے کے باوجود گجرات کی عوام کا ضمیر نہیں جا گا۔ انہوں نے پھر ایک بار اقتدار کی کنجیاں ان لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیں جن کے ہاتھ قتل و غارت گری کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ گجرات کے رائے دہندے بی جے پی کے پروپگنڈا کے شکار اس قدر کیسے ہو گئے کہ انہیں سچ اور جھوٹ میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ گجرات کی عزت نفس کے معنی یہ نہیں کہ اپنے ہی ہم وطنوں کی لاشوں پر حکومت کی عمارت کھڑی کردی جائے۔ اقتدار تک پہنچنے کا راستہ صرف کسی طبقہ کو بدنام کر کے طے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن گجرات کے حالیہ الیکشن میں ایک مخصوص طبقہ کو نشانے پر رکھ کر بی جے پی نے اپنی کا میابی کو یقینی بنایا۔ گجرات میں بی جے پی کو کامیابی ترقی اور خوش حالی کی بنیاد پر ملتی تو اس کا خیرمقدم کیاجا تا، لیکن ساری انتخابی مہم فرقہ وارانہ بنیاد پر چلائی گئی۔ بلقیس بانو کیس کے مجرمین کو رہا کرکے اکثریتی طبقہ کو یہ پیغام دیا گیا کہ مسلمانوں کے قاتلوں کا پارٹی میں کیسے سمّان کیا جاتا ہے۔ انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے ایسے مسائل چھیڑے گئے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ یہ ریاستی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اس قسم کے متنازعہ عنوانات کو زیر ِ بحث لاکر اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹادی گئی۔
سیاسی مفادات کے لئے جمہوری قدروں کوپامال کرناور عوام کو نزاعی مسائل میں الجھادینا ملک کی خدمت نہیں بلکہ بدخدمتی ہے۔ گجرات اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی مسلسل ساتویں مر تبہ کا میابی کسی مثبت ایجنڈا کی بنیاد پر نہیں ہوئی ہے۔ صرف جذباتی موضوعات کو چھیڑ کر بی جے پی نے میدان مارلیا ہے۔ سیاسی کا میابی کے لئے متنازعہ مسائل کو چھیڑنے کے فن میں بی جے پی کا فی مہارت رکھتی ہے۔ اسی آزمودہ فارمولے پر عمل کرتے ہوئے بی جے پی نے گجرات پر قبضہ کرلیا۔ گجرات میں بی جے پی کی اس زبردست کا میابی کے بعد ظاہر ہے کہ پارٹی کے عزائم کا فی بلند ہو گئے ہیں ۔ گجرات الیکشن بی جے پی کے لئے دراصل ایک ریہرسل تھا ۔ بی جے پی اب پوری طاقت کے ساتھ 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ وہ اپنی پوری قوت کو جھونکتے ہوئے تیسری مر تبہ مرکز میں اپنی حکومت بنانے کے لئے جان توڑ کوشش کرے گی۔ آئندہ لوک سبھا الیکشن میںبی جے پی دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کا میاب ہو جائے گی تو پھر ملک کا سیاسی نقشہ بھی بدلنے کے لئے پورے امکانات ہیں۔ دستور میں ترمیم سے لے کر ایک قوم۔ ایک الیکشن جیسے موضوعات پر نہ صرف بحث چھڑ جائے گی بلکہ اس ضمن میں حکومت فیصلے بھی کردے گی۔ گجرات میں بی جے پی کو کم نشستوں پر کا میابی ملتی اور وہاں سیکولر پارٹیوں کی حکومت قائم ہو تی تو ملک کی جمہوریت اور سیکولرازم کو جو خطرات اس وقت درپیش ہیں اس کا تدارک ہو سکتا تھا۔ لیکن سیکولر پارٹیوں کے انتشار اور ان کی تنگ نظری نے ہی بی جے پی کو سیاسی طور پر مضبوط کیا۔ ملک کی قدیم پارٹی، کانگریس پورے ملک میں سکڑتی جا رہی ہے۔ گجرات میں ملک کی آزادی کے بعد سے مسلسل 28 سال تک کانگریس کی حکومت رہی۔ پارٹی کو لگاتار 6 مرتبہ ریاستی اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل ہوئی ۔ لیکن 1990کی دہائی سے گجرات میں اس کا جو زوال شروع ہوا اس کا سلسلہ ابھی تک جا ری ہے۔ جب تک کانگریس قیادت پوری دیانتداری سے اپنی ناکامی کا جائزہ نہیں لے گی وہ سیاسی افق پر ابھر نہیں سکتی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کا اثر گجرات کے الیکشن پر بھی پڑے گالیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ عام آدمی پارٹی کے گجرات الیکشن میں کود پڑنے کے بعد سے ہی آثار بتا رہے تھے کہ عام آدمی پارٹی کے امیدوار کانگریس کا بیڑاغرق کردیں گے۔ عآپ نے پہلی مرتبہ گجرات کے انتخابی میدان میں قدم رکھا ہے۔ لیکن وہ کوئی چمتکار نہیں دکھا سکی۔ عآپ کے داخلہ نے سیکولر ووٹوں کو تقسیم کر دیا ۔ باور کیا جا رہا ہے کہ عآپ کا رشتہ بھی اندرونی طور پر بی جے پی سے ہے۔ عآپ کے سربراہ اور دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے وہ بھی سیکولرازم کا صرف لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خود کہا کہ”میں ہندو ہوں ، میں ہندوتوا کی بات نہ کروں تو کون کرے گا "ان کا یہ انداز گفتگو بہت کچھ معنی رکھتا ہے۔ گجرات کے اسمبلی الیکشن میں ان کے حصہ لینے کا مقصد بی جے پی کو شکست دینا نہیں تھا بلکہ سیکولر ووٹوں کو تقسیم کر کے بی جے پی کو پھر سے اقتدار پر لانا تھا۔ گجرات الیکشن میں بی جے پی کی جیت اس کی عوامی مقبولیت کا ثبوت نہیں ہے۔ یہ جیت مختلف سیاسی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے حاصل کی گئی ۔ اس میں مسلم رائے دہندوں کو خوف زدہ کرنا، انہیں پولنگ بوتھ کے قریب نہ آنے دینا اور انہیں رائے دہی سے محروم کر دینا بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی جابنداری بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ بہت ساری انتخابی دھاندلیاں کر تے ہوئے بی جے پی نے پھر پانچ سال کے لئے گجرات پر اپنا اقتدار مضبوط کر لیا۔ اب کم ازکم ریاست کے تمام عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے بی جے پی حکومت کرے تو یہ عوامی مینڈیٹ کا صحیح استعمال ہو گا ورنہ ہر پانچ سال کے بعد الیکشن ہو تے رہیں گے لیکن عوام کا کوئی فائد ہ نہ ہوگا۔

a3w
a3w