سید سرفراز احمد (بھینسہ)
بالآخر ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا انتخابات سے قبل اپنے وعدے کو پورا کر دکھایا اور شہریت ترمیمی قانون کا اس ملک میں نفاذ کیلئے اعلامیہ جاری ہوچکا ہے اکثر یہ دیکھا جاتا ہیکہ سیاسی قائدین کہتے بہت کچھ لیکن کرتے کچھ نہیں یہ معاملہ دراصل عوامی مفادات کے وعدوں کے حد تک پیش آتا ہے سیاسی قائدین بالخصوص بھاجپا کی یہ سیاسی خصوصیت رہی ہیکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کیلئے کچھ بھی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔ پچھلے دس سالوں میں بھاجپا نے یہ ثابت کردکھایا کہ اس ملک کا سیکولرزم اپنی جگہ موجود ہے لیکن ملک میں وہی چلے گا جو ہم کہیں گے یعنی ان دس سالوں میں تانا شاہی کے کئی ایک فیصلے ہم نے دیکھے ہیں جو سیاسی طاقت کی بناء پر کیئے گئے جسمیں نہ اپوزیشن کو کوئی پوزیشن دی گئی نہ عوام کے بارے میں سوچا گیا نہ ہی اس ملک کے سیکولرزم کے بارے میں کبھی کوئی فکر کی گئی بلکہ متنازعہ قوانین کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا بھاجپا کا سیاسی ایجنڈہ بن چکا ہے جس سے وہ اکثریتی طبقہ کے قلوب میں اپنا سیاسی گھر ہمیشہ کیلئے قائم رکھنا چاہتی ہے اور اس طبقہ میں اپنے متعلق کوئی منفی پروپیگنڈے کو پیدا ہونے نہ دینا یہی بھاجپا کی سب سے اہم منطق ہے ‘تب ہی وزیر اعظم نریندر مودی جی کو اتنا بڑا پیش کرکے دکھایا جاتا ہے کہ وہی ہندوؤں کے اصل ہیرو ہیں اور اس ملک میں صرف اکثریتی طبقہ کے ہی وزیر اعظم ہیں ابھی تک مودی جی کا کوئی روپ اور کوئی بہروپ ایسا نہیں بچا جسکو مودی جی نے اختیار نہ کیا ہو بلکہ ہر روپ و ہر بہروپ کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو ہندوؤں کا سب سے سچا ہمدرد پیش کرتےآرہے ہیں جسمیں انھیں بھر پور کامیابی بھی ملی ہے کیونکہ اس ملک کا گودی میڈیا جو مودی سرکار کا سب سے بڑا مدد گار ثابت ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔
12 مارچ بروز منگل کو سی اے اے کے نفاذ کے جاری کردہ اعلامیہ اس بات کی علامت سمجھا جاسکتا ہیکہ بھاجپا نے الیکشن سے عین قبل اس متنازعہ قانون کو سیاسی پانسہ کے طور پر استعمال کیا آپ کو یاد دلادوں سی اے اے کب اور کیوں لایا گیا جب آسام میں حکومت نے این آر سی کا عمل شروع کیا تھا تب غیر متوقع 19 لاکھ سے زائد غیر مسلم طبقہ این آر سی کی زد میں آچکا تھا یعنی ان تمام غیر مسلم مہاجرین کی ہندوستانی شہریت ختم ہوچکی تھی تب حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ انکی یہ سیاسی سازش ناکام ہورہی ہے کیونکہ حکومت این آر سی کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانے پر لینے والی تھی لیکن سروے کے دوران آسام میں تارکین وطن مسلمان کم اور غیر مسلم طبقہ زیادہ پایا گیا حکومت نے فوری یوٹرن لیتے ہوئے ان تمام غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کیلئے سی اے اے لانے کا فیصلہ کیا اور اسکے علاوہ پاکستان،بنگلہ دیش،اور افغانستان کے ان تمام غیر مسلم ہندو،سکھ،عیسائی،جین،بدھ،پارسی جو ان ممالک سے 31ڈسمبر 2014تک بھارت میں داخل ہوئے ہوں وہ اس قانون کے تحت اس ملک کی شہریت حاصل کرسکتے ہیں صرف مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا اس ملک میں صرف آستھا اور مذہب کی بنیاد پر فیصلے لیئے جائیں گے؟کیونکہ عدالت عالیہ نے آستھا کی بنیاد پر مسلمانوں کی بابری مسجد ہندو طبقہ کے حوالے کردی اور اب حکومت مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے جارہی ہے حکومت کی نیت اور گہری منافقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ وہ کس طرح صرف ایک مسلم تارکین وطن طبقہ کو اس قانون سے دور رکھا گیاہے امیت شاہ سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ یہ قانون کسی مسلم کی شہریت نہیں چھینے گا بلکہ یہ شہریت دینے والا قانون ہے تو کیا یہ سوال امیت شاہ سے نہیں پوچھا جانا چاہیئے کہ جب آپ شہریت تمام غیر مسلم کو دے سکتے ہیں تو مسلم تارکین وطن کو کیوں نہیں؟کیا یہی سکولرزم کا مفہوم ہے؟کیا اس ملک کا دستور یہی کہتا ہے؟اس قانون کے نفاذ سے انصاف مساوات دفعہ 14 ‘۔ جینے کا حق دفعہ 21 اور جانبداری دفعہ 15کی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے جو دستور کے بنیادی حقوق میں سے ہیں ان سب سے بڑھ کر لفظ سیکولرزم جو دستور میں ریڑھ کی ہڈی کا مرتبہ رکھتا ہے اسکی بھی صریح خلاف ورزی ہے وہیں پر بی جے پی کا یہ متضاد رویہ بھی آپکو دیکھنا ہوگا کہ ایک طرف بھاجپاپسماندہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کے آنسو بہاکر ووٹ بٹورنا چاہتی ہے دوسری طرف مسلمانوں کی معاشی پسماندگی پر تحفظات فراہم کیئے جانے پر شور مچاتی ہیکہ کس طرح مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کوتحفظات دیئے جاسکتے ہیں جبکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ ایک واضح دلیل ہیکہ اس ملک میں سب سے پسماندہ طبقہ مسلمان ہے ایس سی ایس ٹی کو پسماندگی کی بنیاد پر ہی تو تحفظات فراہم کیئے جاتے ہیں اور یہ ہونا بھی چاہیئے کیونکہ یہ معاملہ اندرون ملک کے باشندوں کا ہے لیکن بھاجپا جو مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے جارہی ہے وہ تاریک وطن کا معاملہ ہے جو خالص مخصوص مذاہب کے لوگوں کو گلے لگایا جارہا ہے اور مسلمانوں کو باہر کا راستہ دکھایا جائے گاجو کسی ایک بڑی سازش سے کم نہیں ہوسکتا۔
اس متنازعہ قانون کو لانے کے پیچھے بھاجپا کی ایک اور سیاسی لابی یہ ہیکہ وہ ان تمام غیر مسلم تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت دے کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا چاہتی ہے عام آدمی پارٹی کے سربراہ ارویند کیجریوال کے مطابق ڈھائی سے تین کروڑ غیر مسلم تارکین وطن کیلئے بھاجپا اس ملک کے دروازے کھول رہی ہے جسمیں سے لگ بھگ ایک دیڑھ کروڑ تو شہریت حاصل کرہی لیں گے انھوں نے بتایا کہ جو بھاجپا اندرون ملک کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار نہیں دے سکی وہ بیرون ملک سے آنے والوں کو بھلا کیا روزگار دے گی بلکہ اس قانون سے ملک کے عوام کا ہی نقصان ہوگا ملک کے امن و امان میں خلل پڑے گاکیجریوال نے کہا کہ بھاجپا یہ قانون صرف ووٹ بینک کیلئے استعمال کررہی ہے جبکہ یہ قانون ملک کے مفاد میں نہیں ہے یقیناًبھاجپا تیسری بار حکمرانی میں آنے کیلئے کوئی بھی موقع گنوانا نہیں چاہتی بلکہ جتنا زور لگانا ہے وہ لگانے کیلئے ہر ایک حربے کو استعمال کررہی ہے اور آگے بھی کرے گی اس قانون کا اعلامیہ جاری ہونے کے بعد رد عمل آنا شروع ہوئے ممتا دیدی نے کہا کہ وہ کسی بھی صورت میں اس قانون کو نافذ ہونے نہیں دے گی ٹاملناڈو کے وزیر اعلی اسٹالن نے کہا کہ وہ اپنی ریاست میں اس قانون کو نہیں لائیں گے اب دیکھنا یہ ہیکہ کانگریس حکمرانی ریاستوں میں وزرائے اعلی اور ہائی کمان کا کیا موقف رہتا ہے شمال مشرقی ریاستوں میں بالخصوص آسام کی بڑی طلباء یونین اس متنازعہ قانون کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے اور مطالبات پیش کررہے ہیں کہ ہم کسی بھی غیر قانونی تارکین وطن کو برداشت نہیں کریں گے ہوسکتا ہیکہ یہ احتجاجی مظاہرے آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جائیں اس ضمن میں وزارت داخلہ نے دہلی کے اہم علاقوں میں پولیس کی سیکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔
جو حکومت پچھلے دس سالوں سے اس ملک کی زمین مسلمانوں کیلئے تنگ کرنا چاہتی ہو جو حکومت اس ملک کے مسلمانوں کو یہاں دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہتی ہو جو حکومت یہاں کے مسلمانوں کی مساجد ناجائز طریقے سےہڑپ رہی ہو جو حکومت مسلمانوں کے تحفظات ختم کرنے کا اعلان کرتی ہو جو حکومت اس ملک کے سیکولرزم کو مٹاکر ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہو ایسی حکومت کے نمائندوں پر کسطرح اعتبار کریں کہ یہ متنازعہ قانون مسلمانوں کی شہریت نہیں چھینے گا ان دو باتوں پر بڑی سنجیدگی سے غور کریں کہ مسلم تارکین وطن کو شہریت کا نہ دینا اور پسماندہ مسلمانوں سے جھوٹی ہمدردی کا ڈھونگ رچانا یہ ایک منظم سیاسی چال ہے مسلم تارکین وطن کو شہریت نہ دینے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے امیت شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان اور بنگلہ دیش میں مسلمان اکثریت میں ہے اسلیئے انھیں وہاں ستایا نہیں جاتا ہم امیت شاہ سے کہنا چاہتے ہیں جب آپکو انسانیت سے اتنی ہمدردی ہوتو بھارت میں مسلمان اقلیت میں ہے پھر آج یہاں کا مسلمان کیوں ستایا جارہا ہے؟اس پر ظلم کیوں کیا جارہا ہے؟نفرت کی نگاہ سے کیوں دیکھا جارہا ہے؟مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر بری نظر کیوں ہے؟شائد امیت شاہ ان سوالات کے جوابات دے نہ سکیں لیکن جو کھیل اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے وہ اس ملک کی جمہوریت اور دستور کے عین متضاد ہے کہا جاتا ہے ہر وقت ایک جیسا نہیں ہوتا ایسے ہی یہ وقت بھی گذر جائے گا کیونکہ سرکاریں آتی اور جاتی ہیں لیکن کام یاد رہ جاتے ہیں اب رہا سوال کیا متنازعہ سی اے اے قانون تمام ریاستوں میں نافذ ہوگا؟کیا اس قانون کو نافذ ہونے سے روکا جاسکتا ہے؟ایک بات تو طئے شدہ ہیکہ بی جے پی حکمران والی ریاستوں میں اس قانون کو آسانی سے نافذ کردیا جائے گا رہامسلئہ غیر بی جے پی ریاستوں میں اس قانون کو روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے گی اگر ریاستی حکومت اس متنازعہ قانون کو قانون کی رو سے روکنا چاہتی ہوتو اپنی ریاست کی ہائی کورٹ سے رجوع ہوں کیونکہ عدلیہ ہی اس قانون کو کالعدم کرسکتی ہے چونکہ شہریت ترمیمی قانون آئین کی رو سے بنیادی حقوق کو ختم کررہا ہے اسی لیئے عدلیہ دفعہ 13 کے تحت یہ اعلان کرسکتی ہیکہ یہ قانون دستور کی خلاف ورزی کررہا ہے لہذا عدلیہ اس قانون پر کالعدم بھی لگاسکتی ہے آخری بات یہ کہ بھاجپا کی ظاہری نیت کتنی ہی بھلی ہو لیکن اچھی امید کرنا پیر پر کلہاڑی مارلینے کے مترادف ہے آج بھاجپا سی اے اے لاکر ووٹ بینک کی سیاست کھیل رہی ہےاور غیر مسلم تارکین وطن کو اس وطن میں جگہ دے رہی ہے جس سےآنے والے انتخابات میں بھاجپاکے ووٹ بینک کی طاقت بڑھ بھی سکتی ہے اور بھاجپا اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی اگر بھاجپا تیسری بار اقتدار میں آتی ہے تو وہ یقیناً صرف مسلمانوں کو سازش کے طور پر پورے ملک میں این آر سی کروائے گی کیونکہ سی اے اے کا تعلق این آر سی (نیشنل رجسٹرڈ برائے شہریت)سے جڑا ہوا ہے جو مسلم تارکین وطن کو اس ملک سے باہر بھیجنے کا کام کرے گا جو کئی دہوں سے اس ملک میں زندگی گذار رہے ہیں یقیناً امیت شاہ کی بات صد فیصد درست بھی ہوسکتی ہیکہ سی اے اے کسی مسلمان کی شہریت نہیں چھینےگا لیکن راستہ تو سی اے اے سے ہی گذرے گا جو این آر سی تک پہنچائے گا لہذا سی اے اے کے نفاذ کو روک کر ہی این آر سی کے نفاذ کو روکا جاسکتا ہے مطلب صاف ہیکہ بھاجپا کا اگلا پیر نئے پانی میں ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰