طنز و مزاحمضامین

اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے …

حمید عادل

ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی قریبی اضلاع کے بھکاری شہر میں ’’یلغار ہو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے داخل ہوجاتے ہیں… گھر سے باہر نکلنا تو کجا گھر میں رہنا تک دشوار ہوجاتا ہے …ایک جاتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے ، تمیز تہذیب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈور بیل بار بار بجاتے ہیں ، دروازے پر دستک بھی ایسی زور داردیتے ہیں کہ لگتا ہے کوئی خیرات نہیں ہم سے اپنا قرض مانگ رہا ہے …ایسے میںجو بیچارہ واقعی مقروض ہو، اس دستک کو سن کر تو اس کا دل دھک دھک کرنے لگ جاتا ہے …
بھکاری محض بھکاری نہیں ہوتے،غضب کے اداکار بھی ہوتے ہیں ،اداکاری پرہی کیا منحصر ہے وہ بہترین میک میان اور کسٹویم ڈیزائنر بھی ہوا کرتے ہیں …کب کیسا حلیہ بنانا ہے ، کب کیسے کپڑے زیب تن کرنے ہیں، ان سے بہتر بھلا او ر کون جان سکتا ہے …اگرانہیں بالی ووڈ میں اپنا اپنا فن دکھانے کا موقع مل جائے تو نامور شخصیتوں کی تک وہ چھٹی کردیں …
عام رائے یہ ہے کہ آدمی زبان سے چاہے کتنا ہی جھوٹ کہہ لے لیکن باڈی لینگویج کے ذریعے پتا چل جاتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے یا سچا؟ لیکن کہنہ مشق بھکاریوں کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ اپنی کمال کی اداکاری کے ذریعے اتنا کما لیتے ہیں کہ کوئی خون پسینہ بہا کر بھی نہیں کما پاتا ہے ۔مشکوک حیدرآبادی کہتے ہیں کہ وہ ڈھونگی اور دھوکے باز گداگروں کو خیرات دے کر ان کے حوصلے بلند کرنا ہرگز نہیں چاہتے لیکن جب بھی بھکاری نما اداکار کو دیکھتے ہیںان کے ہاتھ کب ان کی جیب میں داخل ہوئے اور کب پیسے ان کی جیب سے نکل کر ڈھونگی بھکاری کی ہتھیلی میں پہنچ گئے ، انہیںپتا ہی نہیں چلتا…
دو بھکاری اٹلی کے شہر روم میں آمنے سامنے بیٹھے بھیک مانگ رہے تھے، ایک نے اپنے سامنے صلیب رکھی تھی جب کہ دوسرے نے اپنے سامنے ایک مورتی سجا رکھی تھی جو بھی شخص وہاں سے گزرتا دونوں کو دیکھتا اور عیسائی فقیر کو پیسے ڈال کر چلا جاتا…
یہ سلسلہ جاری تھا کہ وہاں سے ایک پادری کا گزر ہوا، اس نے دونوں کو دیکھا پھرمورتی والے فقیر سے کہا : ’’ تم غلطی کر رہے ہو، یہ ایک عیسائی شہر ہے اور یہاں پر تم کو بھیک نہیں ملے گی اور وہ بھی جب تم ایک عیسائی فقیر کے سامنے بیٹھے ہو ۔‘‘یہ کہہ کر پادری نے ایک نوٹ صلیب والے فقیر کو دیا اور وہاں سے چل دیا !
یہ سن کر مورتی والے فقیر نے اپنے سامنے بیٹھے صلیبی فقیر کو آواز لگائی کہ ‘‘دیکھو بھائی! اب یہ ہم ہندوستانیوں کو بزنس کے طریقے سمجھاے گا۔ ‘‘
گداگری کو بزنس بنانے والے کئی نامور بھکاری ہیں،مثال کے طو پر جھارکھنڈ کے ایک بھکاری کی تین بیویاں ہیں، اور چاروں مل کر نہ صرف بھیک مانگتے ہیں بلکہ کاروباری ادارے بھی چلاتے ہیں۔یہ جان کرآپ شاید دانتوں تلے انگلی بلکہ ہاتھ دبا لیں گے کہ وہ ماہانہ چھ لاکھ روپئے کما لیتے ہیں… (یعنی فی آدمی ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپئے تک کما لیتا ہے،بھیک کا حصہ پچاس ہزار ہے … جس میں برتنوں کی ایک بڑی دکان بھی شامل ہے، جسے اس کی ایک بیوی چلاتی ہے …) نام بظاہر چھوٹوہے لیکن وہ اتنا بڑا آدمی بن چکا ہے کہ جھارکھنڈ کے ایک ریلوے اسٹیشن پر یومیہ ہزار بارہ سو روپے بٹور لیتا ہے… مزے کی بات تو یہ ہے کہ سبھی اس کے معاملات سے واقف ہیں،اس کے باوجود اسے بھیک دینے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے …اسی طرح ممبئی کا رہنے والا ماسو نام کا بھکاری بھی ہے ،جس کی اصلیت سے سبھی واقف ہیں، پھر بھی اسے بھیک ملی جا رہی ہے…ممبئی ہی کا ایک اور’’ ہیرو‘‘ ہے جس کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ گداگری کے شعبے میں اپنا نام سنہری حرفوں میں لکھوانے کا اس نے بندوبست کررکھا ہے …اس کی ڈھٹائی کا یہ حال ہے کہ وہ کھلے عام یہ اعتراف کرچکا ہے کہ اس کی ماہانہ آمدنی 80 ہزار روپئے تک ہے …ممبئی جہاں سر چھپانے کے لیے چھت کا انتظام کرنے کی خاطر آدمی سر کھپا دیتا ہے،یہ بھکاری سر اٹھا کر جی رہا ہے ،بھیک کی بدولت ممبئی جیسے شہر میں دو دو کمروں والے دو اپارٹمنٹس کا مالک ہے اور تیسرا پارٹمنٹ خریدنے کی تیاری کررہا ہے … سولا پور کے کالے کی بھی کہانی بڑی دلچسپ ہے …سنا ہے صبح ہوتے ہی اپنے تین اہل خانہ کے ہمراہ گھر سے نکل پڑتا ہے اور یہ لوگ یومیہ سات ہزار روپئے سے زیادہ رقم اینٹھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں …ایک پپوبھکاری بھی ہے ،وہ ایسے پاس ہوا کہ کروڑ پتی بن بیٹھا ہے…کئی بینکوں میں اکاونٹس ہیں اور اس کے بچے انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں…
ایک بھکاری بینک کے دروازے سے اندر داخل ہونا چاہتا تھا کہ چوکیدار نے اسے روک لیا اور کہا:’’جاؤ بابا! معاف کرو۔‘‘ بھکاری نے چوکیدار سے گھورتے ہوئے کہا:’’بیوقوف! میں یہاں بھیک مانگنے نہیں آیا بلکہ اپنے اکاؤنٹ میں دس ہزار روپے جمع کرانے آیا ہوں۔‘‘
اگرمذکورہ بھکاری عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہیں تو اس کے پیچھے ہم اور آپ ہیں…ہم کسی محنتی شخص کو اس کی اجرت کے طور پر دو سو روپئے دینے ہوں تو اس میں کمی کے لیے ہزار باتیں کرتے ہیں، اور بالآخر اجرت یا معاوضہ کم کرکے ہی دم لیتے ہیں …لیکن جب جب ایسے ڈھونگی بھکاری بھیس بدل بدل کر ہمارے سامنے آتے ہیں، ہم بے ساختہ انہیں خیرات دے کر خود کو مطمئن کرلیتے ہیں کہ ہمبھی کسی حاتم طائی سے کم نہیں…اگر ہم آج کسی سے کہیں کہ تم پچاس کا نوٹ ضائع کر دو تو وہ ہمیں ساری دنیا میں ’’ پاگل‘‘ مشہور کردے گا لیکن وہی شخص وہی نوٹ خوشی خوشی کسی ڈھونگی بھکاری کی نذ ر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے…
وہ شخص جسے اپنی عزت عزیز ہوتی ہے ، وہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا…جن لوگوں نے بھیک مانگنے کو پیشہ بنالیا ہے ،انہوں نے چچا غالب کے اس مصرعے ’’ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے ‘‘کو گویااپنا اوڑھنا بچھونابنا لیا ہے …ایک دور تھا جب بھکاری یہ صدا لگاتے نظر آتے تھے ’’ غریبوں کی سنو، وہ تمہاری سنے گا،تم ایک پیسہ دو گے وہ دس لاکھ دے گا‘‘ آج پیسوں کا چلن باقی نہیں رہا،لوگ بھکاری کی ہتھیلی میں نوٹ تھما دیا کرتے ہیں …اگرآج کسی نے پانچ یا دس کا نوٹ دیا تو بھکاری دینے والے کوایسی نظروں سے گھورتاہے ،جیسے چپکے چپکے کہہ رہا ہو،تیری یہی اوقات ہے تو پھر آجا میرے پہلو میں بیٹھ جا… وہ بھی کیا بھکاری تھے جو صدا لگایا کرتے تھے ’’ جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘معروف شاعر میر تقی میر کے خیالوں کے بھکاری اب ڈھونڈے سے نہیں ملتے :
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
کچھ بھکاری نہیں شکاری ہوا کرتے ہیں، جو خیرات لیے بغیر آسانی سے شکار کو چھوڑتے نہیں، زور دکھاکر ،دباؤبناکرپیچھے پیچھے دور تک لگے رہتے ہیں، مجبوراً آدمی کو کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے…چالاک اور دور اندیش بھکاری جب تاڑ لیتا ہے کہ آپ دوست احباب کے ساتھ ہیں، تو پھر وہ فلم ’’ وانٹیڈ ‘‘ کے سلمان خان کی طرح ’’ ایک بار میں نے کمٹمنٹ کردی تو پھراپنے آپ کی بھی نہیں سنتا‘‘ کی طرح یہ طے کرلیتا ہے کہ آپ سے کسی نہ کسی طرح رقم اینٹھ کرہی رہنا ہے ۔
وہ بھکاری جو واقعی معذور ہیں،مدد کے حق دار ہیں لیکن ان کا کیا جو عمداً معذور بنے ہوتے ہیں… وہیل چیر پر بیٹھ جاتے ہیں،لنگڑے لولے ہونے کا ناٹک کرتے ہیں اور جیسے ہی کتا ان کے پیچھے پڑ جائے سرپٹ دوڑنا شروع کردیتے ہیں … کچھ نابیناہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں،کوئی پھٹی نوٹ تھما دے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں ،پھٹی نوٹ دینے والا پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے تو کہتے ہیں ’’ زیادہ گھور گھور کر مت دیکھو، نا بینا ہوں ، بے وقوف نہیں ہوں ۔‘‘کچھ بھکاری نقلی زخم لگائے پھرتے ہیں، بعض بھکاری بازویا پیر پر پٹی باندھے ہوتے ہیں جس سے دیکھنے والوں کا دل پسیج جاتاہے، اندازاس قدر ڈرامائی ہوتا ہے کہ پتھر دل انسان بھی نم آنکھوں کے ساتھ بھیک دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
شام کا وقت تھا، مشکوک حیدرآباد ی کے ہمراہ ہوٹل میں داخل ہونے سے قبل ہم نے دیکھا کہ دو خوبصورت معصوم بچے جن کی عمریں سات سے آٹھ برس ہوںگی، ایک لڑکی ہے اور ایک لڑکا وہیل چیر پر بیٹھے ہیں اور اس وہیل چیر کے پیچھے ایک نقاب پوش خاتون کھڑی ہیں …اس منظر کو دیکھ کر ہمارا دل تڑپ اٹھا کہ ہائے کتنے خوبصورت بچے ہیںاور معذور ہیں … ہم سے جو ممکنہ مدد ہوسکتی تھی ہم نے کی …جب تقریباً نصف گھنٹے بعد ہوٹل سے نکلے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ لڑکا وہیل چیر سے اٹھ کرقریب کی دکان سے چپس کا پاکٹ لے کر کھارہا ہے اور لڑکی وہیل چیر پر بیٹھی ہوئی ہے…ہم نے سوچا شاید بیچاری لڑکی معذور ہوگی لیکن کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھ کر چلنے لگی… برقعہ پوش خاتون غائب تھیں…
بھکا ریوں نے بھیک مانگنے کے بہت سے طریقے اختیار کرلیے ہیں،کچھ لوگوں نے دینی و شرعی بہانوں سے عام آدمی کو بیوقوف بنانا شروع کردیا ہے …اور ان کی تعداد میں حیرت انگیز طورپر مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ مساجد کے علاوہ گلی کوچوں میں کسی مدرسے یا مسجد کی رسید بک ہوتی ہے ،کہتے ہیں فلاں مدرسہ زیر تعمیر ہے، فلاں مسجد زیر تعمیر ہے،مسجد کو اتنے پیسوں کی ضرورت ہے اور مدرسے کے بچوں کے لیے کپڑوں اور دیگر ضروری اشیاکی ضرورت ہے… آپ حضرات اس مد میں تعاون دے کر صدقہ جاریہ میں شریک ہوجائیں..
اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے
لازم نہیں کہ ہاتھ میں کاسہ دکھائی دے
ظفر گورکھپوری
آج ایک خبر ہماری نگاہوں سے گزری کہ حیدرآباد و سکندرآباد کے علاوہ ریاست کے کئی اضلاع بالخصوص سرحدی اضلاع میں ماہ رمضان کے دوران گھوم کر چندہ وصول کرنے والے بیرون ریاست شہریوں پر پولیس خصوصی نظر رکھے گی…کیوںکہ پڑوسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی ٹولیاں ماہ رمضان میں شہر آکر دھوم مچایا کرتی ہیں ۔کہا جارہاہے کہ ان میںوہ لوگ بھی شامل ہیں جو فرضی مدارس کا حوالہ دے کر چندہ یا زکوٰۃ بٹورا کرتے ہیں …کچھ بھکاری مسلمانوں کا سا حلیہ بنا کرہر سال بڑی تعداد میں حیدرآبادمیں وارد ہوتے ہیں ،سنا ہے ان سے بھی نمٹنے کے پولیس نے انتظامات کرلیے ہیں …لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پولیس اپنی ان کوششوں میں کامیاب ہوپائے گی؟
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w