سیاستمضامین

مسلمانوں کے خلاف شر انگیز میڈیا ئی مہم

مولانا سید احمد ومیض ندوی

ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جس ہتھیار کو دشمنوں نے سب سے زیادہ کام میں لایا وہ میڈیا ہے۔ روزِ اول سے دشمنانِ اسلام نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کو مؤثر بنانے کے لیے میڈیا کی طاقت کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ عہدِ رسالت کے مکی دور میں سردارانِ مکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوب منفی پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے ۔ عام سادہ لوح افراد کو قبولِ اسلام سے روکنے کے لیے پیغمبرِ اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ شدت کے ساتھ کیا جاتا تھا ۔ کبھی آپ کو جادوگر تو کبھی شاعر اور کبھی مجنون کہاجاتا۔ منفی پروپیگنڈہ کی یہ مہم بعد کے ادوار میں بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی۔ یہودیت و عیسائیت کے علمبرداروں نے صلیبی جنگوں کے دوران بھی اسلام کے پاکیزہ چہرہ کو مسخ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔
اکیسویں صدی چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی کہلاتی ہے اس لیے دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں ایک انتہائی تیز رفتار اور زود اثر ہتھیار آگیا ۔ موجودہ دور کا عالمی میڈیا جو در اصل یہودی میڈیا ہے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے۔ اسی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہمارے ملک کا گودی میڈیا مسلمانوں کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ ملک میں جمہوریت کے خلاف فسطائی قوتوں کو جو کامیابی مل رہی ہے اس میں سب سے کلیدی کردار گودی میڈیا ادا کررہا ہے۔ ملک کا مین اسٹریم میڈیا کہلانے والا یہ گودی میڈیا مسلم دشمنی میں صحافت کی بنیادی اقدار کی دھجیاں اڑانے میں کسی طرح پس و پیش نہیں کرتا گودی میڈیا کے چینلز مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے فیک خبروں کو چلانے میں کسی طرح کی شرم محسوس نہیں کرتے۔ مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑنے والی جعلی خبروں کو تک ڈھٹائی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر قسم کی خبروں کے عام ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ٹی وی چینلوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی خبر کو نشر کرنے سے قبل اس کی صداقت و سچائی کی پرکھ کرلیں حالیہ عرصہ میں ایسی کئی فیک خبروں کو گودی میڈیا کے چینلوں نے خوب چلایا لیکن تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ وہ فیک اور جعلی تھیں۔ میڈیا جمہوریت کا ایک اہم ستون کہلاتا ہے۔ کسی بھی خبر کو بغیر تحقیق کے چلانا صحافتی اصولوں کے سراسر مغائر ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آبیاری میں انہی چینلوں کا دخل ہے۔ اگر ان چینلوں کی نفرت بھری مہم پر روک لگادی جائے تو بہت جلد ملک سے نفرت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ ویسے مسلمانوں کو بدنام کرنے والی فیک خبروں کی اشاعت کے نمونے حد شمار سے باہر ہیں لیکن آئندہ سطور میں صرف دو نمونوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر لوہے کی گرل والی ایک تالا بند قبر کی تصویر خوب وائرل ہوئی اور اسے پاکستان سے منسوب کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ وہاں کا مسلم معاشرہ اخلاقی اعتبار سے اس قدر نچلی سطح پر آگیا ہے کہ وہ مردہ خواتین کا ریپ کرکے جنسی تسکین حاصل کرنے لگا ہے چنانچہ لوگ اپنی مرحوم خواتین کو دفن کرکے قبر کو لوہے کی جالی لگاکر مقفل کرنے لگے ہیں۔ خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی اردو کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
گزشتہ چندر وز سے انڈین میڈیا پر ایک قبر کا چرچہ تھا جس کے اوپر ایک سبز رنگ کا گیٹ لگا ہوا تھا اور اکثر انڈین میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے یہ بات رپورٹ کی گئی کہ یہ در اصل پاکستان میں موجود ایک قبر ہے جس پر دروازہ لگانے کا مقصد مرنے کے بعد خواتین کو ریپ ہونے سے محفوظ رکھنا ہے۔ تاہم انڈیا میں ہے فیکٹ چیک کے ایک پلیٹ فارم آلٹ نیوز کی جانب سے کی گئی تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک فیک نیوز تھی اور یہ قبر در اصل انڈیا کے شہر حیدرآباد دکن میں ایک قبرستان میں موجود ہے اس خبر کو بغیر تصدیق کے شائع کرنے پر انڈین سوشل میڈیا پر ان میڈیا پلیٹ فارمز کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انڈیا میں متعدد نیوز پلیٹ فارمز جن میں انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی،این ڈی ٹی وی،ورلڈ ان ون نیوز، ہندوستان ٹائمز،دی ٹائمز آف انڈیااور انڈیا ٹو ڈے سمیت دیگر ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارمز نے اس خبر کو شیئر کیا ہے۔
ان میں سے اکثر پلیٹ فارمز کی جانب سے جس ٹویٹ کو حوالہ بناتے ہوئے یہ خبر دی گئی تھی وہ ایک ٹوئٹر صارف حارث سلطان کی جانب سے کی گئی تھی جنہوں نے آلٹ نیوز کے فیکٹ چیک کے بعد اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے کے علاوہ معافی بھی مانگی تھی۔ خبر رساں ادارے اے این آئی کی جانب سے بھی اپنی خبر واپس لیتے ہوئے اس کی وضاحت شائع کی گئی ہے۔ یہ معاملہ شروع اس وقت ہوا تھا جب سوشل میڈیا پر ایک ایسی قبر کی تصویر شیئر کی گئی تھی جس پر لوہے کی سلاخوں سے بنی سبز رنگ کی جالی لگی ہوئی تھی اور اسے ایک تالے کے ذریعہ مقفل کیا گیا تھا ۔ سوشل میڈیا پر اس تصویر کے شیئر ہونے کے بعد کچھ ٹوئیٹس میں دعوی کیا جانے لگاکہ یہ تصویر نہ صرف پاکستان سے ہے بلکہ اب خواتین کے ساتھ موت کے بعد بھی ریپ سے لوگ اتنے خوف زدہ ہوچکے ہیں کہ انہوں نے قبروں پر جالیاں اور دروازے لگانے شروع کردئیے ہیں۔ انڈین میڈیا کی جانب سے جن ٹوئیٹس کا سہارا لیکر اس خبر کو شائع کیا گیا تھا ان پر یہی دعوی دہرایا جارہا تھا تا ہم پھر انڈیا میں فیک نیوز کو فیکٹ چیک کرنے والے ادارے آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر کی جانب سے اس بار ےمیں تحقیق کی گئی جس کے بعد ایک ایک کرکے حقائق سامنے آنے لگے۔ آلٹ نیوز کی تحقیقات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ قبر در اصل انڈیا کے شہر حیدرآباد کے ایک قبرستان میں واقع ہے یہ قبرستان مادنّا پیٹ علاقے کی داراب جنگ کالونی میں موجود مسجد سالار الملک کے سامنے واقع ہے۔
ادارے کی جانب سے علاقے میں موجود ایک سوشل ورکر عبدالجلیل سے اس بارے میں بات کی گئی جنہوں نے وہاں مسجد کے مؤذن کے ساتھ اس قبر پر جاکر ایک ویڈیو بنائی۔ اس ویڈیو میں مؤذن بتارہے ہیں کہ یہ جالی کو لگوانے کا مسئلہ مسجد کی کمیٹی کے سامنے زیر بحث آیا تھا۔ مؤذن نے بتایا کہ یہ جالی لگوانے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہاں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں لوگوں نے پہلے سے موجود قبروں کو کھود کر وہاں مردے دفنائے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کیوں کہ یہ قبر قبرستان کے دروازے پر موجود ہے اس لیے لواحقین کو یہ ڈر تھا کہ لوگ اس پر چڑھ نہ جائیں۔ آلٹ نیوز کے مطابق یہ قبر جس خاتون کی ہے ان کی عمر 70کے لگ بھگ تھی اور لوہے کی سلاخوں سے بنی یہ جالی ان کے بیٹے نے نصب کرائی ہے۔ خیال رہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ میں یہ تصویر انڈین میڈیا کی جانب سے شیئر کی گئی تھی وہ حارث سلطان کا ہے جو اپنا تعارف سابق مسلمان کے طور پر کرتا ہے اور اس نے اس حوالہ سے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے ۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ پاکستانی معاشرہ اس حد تک ذہنی بیماری کا شکار ہے کہ وہاں کے لوگوں کو اپنی بیٹیوں کو دفن کرنے کے بعد انہیں ریپ سے بچانے کے لیے قبروں پر تالے لگوانے پڑتے ہیں۔ ایک ٹوئٹر صارف لکھتا ہے کہ ایک اسلام مخالف شخص اس بارے میں دعوی کیا اور انڈین میڈیا نے کیسے اس فیک نیوز کو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا ، انس نامی ایک صارف نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ خبروں کو فیکٹ چیک کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ ہم ہر اس چیز کی حمایت کرتے ہیں جو بھی محسوس ہوتی ہے کہ سچ ہے۔
بی بی سی کی اس تفصیلی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے گودی چینل مسلمانوں کو بدنام کرنے والی ہر خبر کو بغیر تحقیق کے اچک لیتے ہیں اور اسے بنیاد بناکر مسلمانوں کے خلا ف گندی پروپیگنڈہ مہم چلانے لگتے ہیں۔ اس جھوٹی خبر کو بنیاد بناکر بعض میڈیائی اداروں نے مسلمانوں سے ایک نفسیاتی اور ذہنی بیماری منسوب کر ڈالی جسے نیکروفیلیا (Necroophilia)کہاجاتا ہے۔ یہ در اصل ایک مکروہ نفسیاتی اور ذہنی عارضہ ہے جس میں مبتلا شخص لاشوں کے ساتھ جنسی زیادتی سے لذت حاصل کرتا ہے لفظ نیکرو فیلیا یونانی زبان سے ماخوذ ہے ۔ نیکرو کا مطلب مردہ جسم اور فیلیا کا مطلب محبت ہے اس طرح یونانی میں نیکرو فیلیا کا مطلب ہے مردہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات سے خوشی حاصل کرنا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ سارا فتنہ ایک مرتد شخص حارث سلطان کا بپا کیا ہوا ہے جس نے اپنی ٹویٹ کے ذریعہ خبر پھیلائی تھی۔ حارث سلطان میں نے اسلام کیوں چھوڑا نامی کتاب کا مصنف ہے ۔ طارق فتح کی طرح یہ بھی اسلام دشمنوں کا آلۂ کار بنا ہوا ہے۔ ہمیشہ اسلام مخالف مواد کی تلاش میں رہتا ہے۔
نیوز چیکر (news checker) سائٹ نے بھی اس فیک خبر کی تحقیق کی ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے اس تصویر کی حقیقت کو جاننے سب سے پہلے ہم نے یہ جاننا ضروری سمجھا کہ یہ تصویر کہاں کی ہے اس کے لیے ہم نے تصویر کو ریورس امیج سرچ کیا جہاں ہمیں ایسی کوئی معتبر معلومات حاصل نہیں ہوئی حالاں کہ اس تصویر کی مختلف پوسٹ کے ساتھ کمنٹ وغیرہ میں لوگ یہ بتاتے ہوئے نظر آئے کہ یہ قبر بھارت کے حیدرآباد دکن کی ہے یہاں سے ہمیں ایک سراغ ملا اور ہم نے اپنی تحقیقات کو مزید آگے بڑھایا تو حیدرآباد دکن کے جلیل راجا ابوعبدالہادی نامی فیس بک اکاؤنٹ پر ہمیں ایک پوسٹ ملی ۔ اس پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ یہ قبر داراب جنگ کالونی مادنا پیٹ مسجد سالار الملک کی ہے۔ انہوں نے اس قبر کے ساتھ اپنی تصویر بھی شیئر کی ہیں۔ تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے اس مسجد و قبرستان کو گوگل ارتھ پر تلاش کیا یہاں ہمیں میپس پر شیئر شدہ مسجد اور اس کے پاس واقع قبرستان میں موجود قبر پر تالا لگا ہوا بھی دکھائی دیا۔ تحقیقات کو مزید پختہ کرنے کے لیے ہم نے علاقے کے کچھ باشندوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران ہمارے ایک صحافی ساتھی محمد رئیس الرحیم نے بھی جلیل نامی شخص کا موبائل نمبر فراہم کیا ان سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ یہ وہی جلیل ہیں جن کی فیس بک پوسٹ ہمیں ملی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ رات میں سوشل میڈیا پر اسکرول کررہے تھے تو اسی دوران انہیں قبر پر تالا لگی تصویر نظر آئی جسے پاکستان کا بتاکر شیئر کیا جارہا تھا۔ وہ رات 2؍بجے ہی قبرستان گئے اور وہاں تصویر کلک کرکے اسے اپنے فیس بک پر شیئر کیا۔ گوگل میپ پر نظر آرہی مسجد کے آس پاس موجود دکانوں جیسے جہانگیر ڈیری سے بھی ہم نے رابطہ کیا انہوں نے بھی اس بات پر مہر ثبت کی کہ یہ قبر ان کے محلہ میں موجود قبرستان کی ہے۔ جس سے واضح ہوگیا کہ جس قبر پر تالا لگا ہوا ہے وہ بھارت کے حیدرآباد دکن کی ہے۔
مزید اس کے ساتھ کیے گئے دعوے کے بارے میں بھی جب ہم نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ قبر قبرستان کےداخلی دروازے کے سامنے کی ہے۔ تو لوگوں کا اس پر پیر نہ پڑے اور نہ ہی کوئی اس کے اوپر دوسری قبر بنائے اس لیے اس پر لوہے کی گرل اور تالا قبر کی حفاظت کی نیت سے لگایا گیا ہے ۔ دکن 24حیدرآباد نام کے فیس بک پیج پر مدفون خاتون کے اہلِ خانہ کا بیان ملا جس میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ قبر پر لوہے کا جنگلا اور تالا اس لیے لگا یا گیا تھا کہ اس قبر پر لوگ گندی اشیاء پھینک دیتے ہیں۔ ٹی وی 9بھارت ورش اور لائیو ہندوستان جیسے چینلوں نے بھی اس بات کا بتنگڑ بنایا اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ افسوس ہمارے بعض ان سادہ لوح مسلمانوں پر ہے جو اس طرح کی چیزوں کو بلا تحقیق سوشل میڈیا پر چلاتے ہیں اور اسے دین و ملت کی بہت بڑی خدمت تصور کرتے ہیں۔ گودی میڈیا مسلمانوں پر جو کچھ قہر ڈھارہا ہے وہ تو ہے ہی لیکن اسلام دشمن عناصر سوشل میڈیا پر بھی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے خوب سرگرم رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں فیس بک ٹوئٹر اور یوٹیوب پر ایک ویڈیو خوب گردش کرتی رہی، ویڈیو میں ایک باحجاب مسلم لڑکی کے چہرہ پر ایک شخص پیشاب کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس کے تعلق سے یہ تأثر دیا گیا کہ یہ بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں با پردہ مسلمان لڑکی کے چہرے پر ہندو لڑکے نے پیشاب کیا ہے اور یہ باور کرایا گیا کہ یہ بھگوا لوٹریپ کا نتیجہ ہے جس کے جال میں پھنسا کر مسلم لڑکیوں کی عزت و آبرو کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ ہندو لڑکے مسلمان لڑکیوں کو اپنے پیار کے جال میں پھنسا کر انہیں مرتد ہونے پر مجبور کرتے ہیں اور جو لڑکیاں اسلام نہیں چھوڑتیں ان کے ساتھ بد سلوکی اور چہرے پر پیشاب تک کردیتے ہیں۔ ویڈیو کے کیپشن میں ایک فیس بک صارف نے لکھا ہے کہ انڈیا میں افسوس ناک واقعہ مسلمان بیٹی کے منھ پر پیشاب کرنے والے ایک بیٹی کے منھ پر پیشاب نہیں کیا بلکہ یہ ایک ارب ۷۰کروڑ مسلمانوں کے منھ پر کیا ہے۔
’’نیوز چیکر‘‘ نامی ویب سائٹ نے اس کی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ یہ تصویر انڈیا کی نہیں الجزائر کی ہے۔ ’’نیوز چیکر‘‘ لکھتا ہے کہ بھارت میں باپردہ مسلمان لڑکی پر ہندو لڑکے پیشاب کرنے کا بتاکر شیئر کی گئی ویڈیو کے ایک فریم کو ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ کیا جہاں ہمیں ’’من الجزائر‘‘ نام کے فیس بک پیج پر ۷؍ستمبر ۲۰۱۸ء کو شیئر شدہ اس خاتون کی تصویر ملی جسے ان دنوں سوشل میڈیا پر بھارت کا بتاکر شیئر کیا جارہا ہے فیس بک پیج میں اس تصویر کو سطیف شہر کا بتایا گیا ہے ۔ جہاں ایک لڑکے نے لڑکی پر پیشاب کیا تھا جس پر پولیس کی جانب سے کارروائی کی بات کہی گئی ہے۔ پھر ہم نے گوگل کروم پر سطیف کی ورڈ سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ سطیف الجزائر کے ایک شہر کا نام ہے۔ تب ہم نے انتہائے تبول سطیف الجزائر کی ورڈ سرچ کیا جہاں ہمیں وائرل ویڈیو سے متعلق ستمبر ۲۰۱۸ءکو عربی زبان میں شائع شدہ الجزائر نامی ویب سائٹ پر رپورٹس ملیں جس کے مطابق یہ ویڈیو سطیف کے بومرشی علاقے کی ہے جہاں لڑکے نے نابالغ یتیم لڑکی کے چہرے پر پیشاب کیا تھا لڑکی کے دادا کی شکایت پر پولیس نے لڑکی کے چہرے پر پیشاب کرنے والے مجرم لڑکے کو گرفتار کرلیا ہے۔ رپورٹ میں مجرم لڑکے کی تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔ مزید سرچ کے دوران ہمیں الجزائر کی نیوز ویب سائٹ النھار آن لائن پر وائرل ویڈیو سے متعلق تفصیلی رپورٹ ملی جس میں مجرم لڑکے کا نام اسلام ربیع اور عمر ۲۱ سال بتائی گئی ہے ۔ مجرم لڑکے والدین کا طلا ق ہوچکا ہے وہ اپنے ماموں کے گھر سطیف برموشی میں رہتا ہے۔ متأثرہ لڑکی الجزائر کے لاپائند علاقے کی ہے۔