حیدرآباد

مولانا سجاد نعمانی کی دعا سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اظہار لا تعلقی۔ غلامی و بزدلی کا مظہر

حیدرآباد: مجاہد ہاشمی معتمد عمومی عوامی مجلس عمل نے اپنے صحافتی بیان میں ملک کے مایہ ناز عالم دین مولانا سجاد نعمانی کے عتیق احمد‘ اشرف احمد اور اسد احمد کے سازشانہ انداز میں قتل پر اللہ رب العزت سے جو منتقم بھی ہے‘ جبار و قہاربھی ہے‘ ظالموں سے انتقام لینے کی جو رقت انگیز دعاء کی ہے جس کو اللہ کے کروڑوں بندوں نے تہہ دل سے سنا اور آمین کہا۔

اب محض اس دعاء کے خوف سے لرزہ براندام مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اظہارِ لا تعلقی دراصل ان کے خوف و بزدلی کو ظاہر کرتا ہے اور وہیں اپنے آقاؤں کے طوق غلامی کی اسیری ووفاداری کا مظہر ہے۔

اللہ تعالیٰ خوف و خطر سے ایمان والوں ہی کو آزماتا ہے اور برے وقت میں مسلمان ایک دوسرے کیلئے کافی رحیم و غمگسار ہوتے ہیں اور کافروں کے لئے شدید ہوتے ہیں۔ ا ب جبکہ ملک سے مسلم قیادت کے خاتمے کی سازش پر عمل جاری ہے جیسا کہ ملک کے سرکردہ باوقار مسلم قائد اعظم خان اور ان کے خاندان کو تباہ کیا جارہا ہے اسی طرح عتیق احمد کے خاندان کو بھی اسی سازش کا شکار بنایا گیا ہے اب تو شہید عتیق احمد کی بیوہ و دیگر کو قتل کرنے کی مہم دلال میڈیا چلارہا ہے۔

جس کی معزز رکن پارلیمنٹ و رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ اسدالدین اویسی نے ہر سطح پر کھل کر مذمت کی اور اس کو سراسر ظلم و ناانصافی قراردیا۔ ایسے ماحول میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا محض دعاء سے اظہارِ لا تعلقی سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ظلم کا سہنا سازشوں کا شکار ہونا مساجد اور مدارس اور مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانے کو اللہ کی مرضی و مشیت سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا ہی دین ہے۔

کیا ظلم و ناانصاافی کے خلاف جدوجہد کرنا اس ملک میں ناجائز و حرام ہے تو اس کا اعلان وہ کردیں۔ اگر وہ لوگ عتیق احمد کو ایک مجرم سمجھتے ہیں تو دینی مدارس چلانے والے دین کے نام پر کروڑوں اربوں روپے کی املاک کے جائیدادیں ذاتی ناموں پر کرلیتے ہیں اس کے حساب کتاب کا کسی کو کوئی علم نہیں ہوتا۔

وہ علماء جو دشمن اسلام سے خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں اور مساجد کو ڈھانے والوں مسلمانوں کا قتل کرنے والوں کی تعریف کرنے لگتے ہیں آخر یہ کونسی شریعت کا حصہ ہے۔ جبکہ اس قتل پر دنیا کے کئی ممالک نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور امت واحدہ کے رشتہ کا احساس دلایا ہے۔

اپنے چندوں کے لئے بیرونی ممالک کا دورہ کرنے والے علماء کبھی وہاں ان مظالم کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں رکھتے۔ ایسے ماحول میں مولانا سجاد نعمانی سے گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھ کر الگ سے کوئی تنظیم قائم کریں جو آنے والے حالات کاڈٹ کر مقابلہ کرسکے۔ ان شاء اللہ عامۃ المسلمین و انصاف پسند غیر مسلم بھی آپ کی قیادت میں ظلم کے خلاف متحد و منظم ہوکر کام کریں گے۔