مضامین

گجرات انتخاب پر سوالات،پٹھان کے طوفان میں گم

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

بی جے پی کے ماسٹر اسٹروک نے گجرات انتخابات کے نتائج پر اٹھنے والے سوالات اور ہنگاموں کو شاہ رخ کی فلم پٹھان کے گانے کے طوفان میں ضم کر لیا۔ اب ہر طرف بس فلم پٹھان میں بھگوا بکنی پہن کر ایک گانے کا ذکر ہے، ملک کے تمام مسائل حاشیہ پر چلے گئے۔حالانکہ اسی ماہ دہلی ایم سی ڈی کے ساتھ ساتھ ملک کی دو ریاستوں ہماچل پردیش اور گجرات کے انتخابات کے نتائج سامنے آئے۔ ان میں گجرات کے نتیجے پر طرح طرح کے سوالات اور اعتراض کا طوفان مچا ہوا تھا، جسے ایک ماسٹر اسٹروک نے پوری طرح ختم کر دیا۔ گجرات میں حکمراں جماعت کی کامیابی اور وہ بھی ریکارڈ کامیابی پوری طرح سے ملک کے سیاسی تجزیہ کاروں کی امیدوں کے برخلاف رہی۔ بی جے پی کی مسلسل ساتویں بار گجرات کی کامیابی نے لوگوں کو طرح طرح کے شک و شبہات میں مبتلا کر دیا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ گجرات میں حکومت کی کارکردگی سے یہاں کے عوام بہت خوش تھے۔ یہاں مستقل بھوک، مہنگائی، بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل سے لوگ پریشان ہیں اور احتجاج و مظاہرے کا سلسلہ چل رہا تھا۔ حکومت کی ناکامیوں پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے۔ ہاں، مذہبی منافرت کو ضرور پھیلانے کی کوششیں ہوئیں، لیکن یہ منافرت اور ہندو مسلم کے درمیان کی خلیج اتنی زیادہ مؤثر نہیں تھی کہ یہ سب بھوک اور بنیادی مسائل پر حاوی ہوتیں۔ گرچہ مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے کی ہر ممکن کوشیش کی گئیں یہاں تک کہا گیا کہ 2002 کا فرقہ وارانہ فساد دراصل یہاں کے مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس بیان کی دنیا کے کئی ممالک میں مذمت بھی کی گئی، جن پر انتخاب کی کامیابی کے سامنے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ان وجوہات کی بنا پر ہی لوگوں کی نگاہیں گجرات کے انتخاب پر بہت ہی شدت سے ٹکی تھیں۔ جس کے باعث ہی گجرات میں ہونے والے انتخابات کو باریک بین نگاہوں سے جائزہ لیا جانا فطری عمل رہا اور اس باریک بین نگاہوں کے تجزیاتی عمل سے جس طرح کی تصویریں ابھر کر سامنے آ ئی ہیں، وہ کئی لحاظ سے حیران کن ہیں۔یہ بات تو بہت ہی واضح تھی کہ مودی اور شاہ گجرات میں ہر قیمت پر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ یہ گجرات ہی ہے جس نے بی جے پی کو پورے ملک میں حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ یہی وہ گجرات ہے جہاں کے کچھ لوگ بی جے پی سے زیادہ مودی اور شاہ کے وفادار رہے اور ایسے لوگوں کو ملک کے بے حد حساس عہدوں پر مامور کرنے میں قانون کو بھی درکنار کیے جانے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی گئی۔ یہ گجرات ہے جہاں کے صنعت کاروں اور تاجروں نے بی جے پی کے لیے اپنی تجوریاں کھول رکھی ہیں اور حکمراں بھی ان کے لیے ہر طرح کے منعفت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ہزاروں کروڑ کے بینکوں کے قرض اور بقایاجات کو معاف کئے جانے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ ان تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے طرح طرح کے ترقیاتی منصوبوں کو گجرات میں ترجیح دی جاتی ہے۔ جس کا ایک رخ ابھی ابھی خودبی جے پی کی حکومت والی مہاراشٹر ریاست نے دیکھا اور اس پر اعتراض بھی کیا، لیکن المیہ یہ ہے کہ اتنی ساری ترجیحات کے باوجود یہاں کے عوام کے بنیادی مسائل ختم ہونا تو دور کم بھی نہیں ہو رہے ہیں، اس لیے کہ خود حکمرانوں کی ترجیحات میں یہاں کے عوام کے مسائل حل کرنا ہے ہی نہیں۔ گجرات ہی بی جے پی یا مودی شاہ کی وہ ریاست ہے جہاں دوسرے ممالک سے آنے والے حکمرانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور انھیں سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھلایا جاتا ہے۔ ان مہمانوں کی نظریں یہاں کے غربت زدہ لوگوں اور ان کی جھونپڑیوں پر نہ پڑیں اور خاص مہمانوں کی پیشانیوں پر بل نہ پڑے، اس کے لیے یہاں کی کئی کیلو میٹر رہگزر کو لمبی لمبی دیواروں اور پردوں سے چھپا دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے لیے بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ مودی اور شاہ کے لیے گجرات عوامی طور پر ایک تجربہ گاہ ہے جہاں سے کئی کئی تجربات نکل کر آتے ہیں اور پورے ملک میں نافذ کیے جاتے ہیں۔ یہی وہ عمل گاہ ہے جہاں 27 برسوں سے لگاتار اقتدار میں رہنے اور پورے ملک میں حکومت کرنے کے ہنر و حرفت نے جلا بخشی ہے۔ پورے ملک کے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری ہی نہیں بلکہ انھیں سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی، صنعتی طور پر حاشیہ پر ڈالتے ہوئے، ان کے وجود کو ختم کرنے کی کامیابی سے بھی ہمکنار کیا ہے۔ ملک میں بسنے والے دلتوں، پچھڑوں اورآدی باسیوں وغیرہ کو بھی اسی طرز پر زیر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہندوتوا ایجنڈے کو نافذ کرنے کی راہ بھی اسی گجرات سے ہموار کی جا رہی ہے۔
اب ظاہر ہے جس ریاست سے اتنے سارے مفادات وابستہ ہوں اور اپنی ان ہی ہنر و حرفت کے باعث گزشتہ چھ بار سے مسلسل اقتدار کا پرچم لہرا رہے ہوں۔وہ ساتویں بار اور وہ بھی ایسے وقت میں جب لوک سبھا انتخاب سر پر ہو اور ان کے خلاف ملک بھر میں زبردست خفگی ہواور کامیابی مشکوک ہو،جس کا اظہار مسلسل پارلیمنٹ اور سڑکوں گلیوں میں احتجاج اور مظاہروں کے ذریعہ ہو رہا ہے، ایسے حالات میں گجرات کو کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے تھے۔ انھیں بہت شدت سے اس امر کا احساس تھا کہ پچھلے ہی الیکشن میں اگر یہ دونوں اپنی انتخابی ”مہارت“ کا اور عوام کے سامنے آنسو بہانے کا ڈرامہ نہیں کرتے تو ناکامی ان کا مقدر بن چکی تھی، لیکن کامیابی ”حاصل“ کرنے کے بعد بھی اپنی روش نہیں بدلی اور پرانی ڈگر پر ہی چلتے رہے،دن بہ دن گجرات کے عوام کی ناراضگی بڑھتی جا رہی تھی۔ جس کی وجہ سے کئی بار یہاں کے وزیر اعلیٰ کو بدلا بھی گیا اور اتنا اور ایسا ایسا بدلا گیا کہ گجرات کے انتخاب کے دنوں میں انتخابی رخ کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ”آج تک“ چینل کی مشہور اینکر انجنا اوم کشپ نے گجرات کے ایک شہر میں ایک عوامی ڈیبیٹ منعقد کیااور دوران ڈیبیٹ لوگوں سے گجرات کے وزیر اعلیٰ کا نام پوچھا تو عوام کے درمیان سے ایک فرد بھی وزیراعلیٰ کا نام نہیں بتا سکا، جسے سن کو انجنا اوم کشپ ہکّا بکّا رہ گئی تھی، اس واقعہ سے گجرات کے وزیر اعلیٰ کی مقبولیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اس لیے ان تمام وجوہات اور بی جے پی کا اپنااندرونی سروے جو مخالف ہوا کے رخ کو بتا رہا تھا، یہاں کے عوام نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ خواہ کچھ ہو اس بار گجرات میں کیچڑ کے کنول کو کھلنے نہیں دیں گے بلکہ کانگریس کے پنجہ کا کامیاب کریں گے۔ ہر جانب سے جب مخالف خبریں آنے لگیں اور اندر ہی اندر لوگوں کی کانگریس کے لیے محبت کی پینگیں بھرنے لگیں تو دہلی میں بیٹھے ان دونوں کو چوکنا ہونا پڑا اورپھر پوری مستعدی سے پوری طاقت جھونکتے ہوئے میدان میں آنا پڑا اور وہ کام کیا جو ان کی کامیابی کو یقینی بنا سکے۔ ایک طرف جہاں مودی نے سب سے زیادہ عوامی میٹنگوں کو خطاب کیا، لوگوں سے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے ہمیشہ کی طرح وعدے اور دعوے کیے، غلطیوں کو درگزر کرنے کی گزارش کی،گلی محلّوں میں روڈ شو کیا، وہیں دوسری طرف شاہ کو دہلی چھوڑ کر گجرات میں کیمپ کرنا پڑا تاکہ وہ ہر طرح کے جگاڑ سے ناکامی کو کامیابی میں بدل سکیں۔ اس لیے سب سے پہلے گجرات کے مسلمانوں کے ووٹ کے شیرازہ بکھیرنے کے لیے ان تمام علاقوں میں جہاں جہاں مسلمانوں کا اثر تھا وہاں وہاں بڑی تعداد میں مسلم امیدوار کھڑا کرائے، خاص طور پر مسلمانوں کے 19 ایسے اسمبلی حلقے تھے جہاں مسلمان اگر اپنی ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ نہ کرتے اور سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے تو شاید ان کے ووٹ اتنے بے اثر اور بے وقعت نہ ہوتے۔ ان تمام سیٹوں پر خود مسلمان کامیاب نہیں ہوتے کچھ ہی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتے لیکن یہ ضرور ہوتا کہ یہاں پر اپنے پسندیدہ کسی بھی سیکولر امیدوار کو کامیاب کرا سکتے تھے۔ یہی وجہ رہی کہ ان علاقوں سے زیادہ سے زیادہ آزاد مسلم امیدواروں کے ساتھ عآپ اور مجلس کے امیدوار کھڑے کیے گئے تاکہ کامیابی ان مسلمانوں کی نادانی پر دور کھڑی ہو کر ان پر قہقہہ لگائے۔ دشمن اپنی اس چال میں پوری طرح کامیاب رہا اور 19 مسلم حلقوں میں سے 17 اسمبلی سیٹوں پر بی جے پی کے امیدواروں نے بڑی آسانی سے کامیابی حاصل کی۔ اس مہم میں بلا شبہ عآپ اور اویسی کی پارٹی جو بات تو کرتی ہے اور پارٹی کا نام رکھتی اتحاد المسلمین، لیکن افسوس کہ کام کرتی ہے اتحاد مخالف۔ اویسی اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ گجرات کے ان مسلم علاقوں میں ان کا کوئی اثر نہیں ہے پھر بھی انہوں نے مسلمانوں کے ووٹوں کو بے اثر کئے جانے اور کانگریس کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے 13 اسمبلی حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے اور اس بری طرح سے ہارے جو بلا شبہ ایک پارٹی کے لیے شرمناک ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اویسی گجرات میں کیمپ کرتے اور ان تمام علاقوں کا دورہ کرتے جہاں جہاں مسلمانوں اور سیکولر امیدواروں کی کامیابی کی امید تھی اور وہاں بڑی تعداد میں مسلم امیدوار آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہوئے تھے، انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے اتحاد و اتفاق کا واسطہ دیتے، ملک میں بڑھتی منافرت کا احساس کراتے، لیکن انھوں نے یہ سب کچھ نہیں کیا بلکہ صرف کانگریس کی ناکامی کو یقینی بنانے میں منہمک رہے۔ وہ قسمت تھی کانگریس کے امیدوار عمران کھیڑاوالا کی، جو مخالف کوششوں کے باوجود کامیاب ہوا،ورنہ گجرات اسمبلی،مسلمانوں کی نمائندگی سے ہی محروم ہو جاتی۔ گزشتہ انتخاب میں جہاں تین مسلمان گجرات اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے وہیں اس بار یہ تعداد گھٹ کر ایک رہ گئی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اویسی یا اویسی کی پارٹی مسلمانوں کے درمیاں کچھ اثر رکھتی وہ خواب غفلت میں ہیں۔اس لیے کیا ہی بہتر ہو کہ اویسی مسلمانوں کے ووٹوں کا شیرازہ بکھیرنے کی بجائے اپنی ریاست میں محنت کریں اور پورے ملک میں اس نقش کو مٹانے کی کوشش کریں کہ وہ بی جے پی کی بی ٹیم ہیں، جیسا کہ اب عآپ کے سلسلے میں بھی یہ بات یقین میں بدل گئی ہے کہ عآپ دراصل بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔
اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھنے کے بعد کوئی بھی جس کے اندر ذرا بھی سیاسی شعور اور سیاسی بصیرت ہے وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس بار گجرات کے انتخاب کا ریکارڈ کیونکر بنا۔ دراصل مودی اور شاہ کسی طرح کا رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔اس لیے آپریشن لوٹس کو پوری طرح بروے کار لایا گیا۔یہی وجہ رہی کہ ان لوگوں نے اپنی کامیابی کے لیے ملٹی لیئر تیاری کی تھی اور اسی تیاری کا حصہ ہے کہ ووٹنگ جو کہ دن بھر سست رفتار سے ہو رہی تھی، آخری وقت یعنی شام پانچ بجے کے بعد اس میں اتنی تیزی آئی کہ ہر اسمبلی حلقے میں تیس سے پینتیس ہزار تک ووٹ ڈالے گئے۔اس ”دھاندلی“ کی روشنی میں آنے کے بعد لوگ پریشان ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک ووٹ ڈالنے میں جہاں بہت کم تو ایک منٹ کا وقت لگتا ہے، وہیں شام پانچ بجے کے بعد اس رفتار سے ووٹ ڈالے گئے کہ ہر عقل حیران ہے۔ اسے کہتے ہیں حیران کن نتیجے کا کھیل، جن کے آگے دوسرے سب ماہرین سب فیل ہیں۔ اس سلسلے میں کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں الزامات کی جھڑی لگاتے ہوئے اعداد و شمار کے ساتھ بتایاہے کہ کس طرح شام کے آخری وقت میں پولنگ میں دھاندلی کی گئی اور آخری ایک گھنٹے میں سولہ لاکھ ووٹ بی جے پی نے اپنے امیدواروں کے لیے ڈلوائے ہیں۔ ای وی ایم کا جو کھیل کھیلا گیا وہ الگ ہے۔ جس کی تفصیل آئے دن گجرات کے اخبارات میں شائع ہو رہی ہے۔ گجراتی زبان کے اخبار ”نو گجرات“ کے مطابق ماتر اسمبلی حلقہ کے دو ہزار سے زائد لوگوں نے ایک میٹنگ کی اور بتایا کہ جب پورے گاؤں نے کانگریس کو ووٹ دیا تو پھر ان کے حلقہ کا ووٹ بی جے پی کو کیسے پڑ گیا۔ اکوٹا میں یہی سب دیکھنے کو ملا ہے۔ گاؤں کے لوگ سپریم کورٹ جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن سے ان علاقوں کے بوتھوں کے سی سی ٹی وی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایک ٹرک بھی پکڑا گیا جس میں اس طرح کے سامان لدے ہوئے تھے۔ ایسے میں گجرات کا یہ انتخاب کئی طرح کے سوال کھڑا کرتا ہے، جن کا جواب دینا مشکل ضرور ہے۔ اس لیے فلم پٹھان کا سہارا لیا گیا اور کسی حد تک انھیں کامیابی بھی ملی ہے۔