یکساں سیول کوڈ کو مسترد کرنے مسلمان،لاء کمیشن سے رجوں ہوں: صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ
آزادی کے وقت ہندوستان کے تمام فکر و نظر، تہذیب، قومی مفادات، زبان، نسل اور جغرافیائی تعلق میں تفاوت کے باوجود جو چیز ان سب کو سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بنائے ہوئی تھی، وہ یہی تصور تھا کہ آزادی کے بعد یہ ملک سیکولرازم کی راہ پر چلے گا۔
بیدر: تنظیم رابطہ ملت بیدر کی جانب سے بیدر شہر کی تاریخی جامع مسجد میں خطاب عام کا اہتمام کیا گیا۔
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بعنوان ”ملک عزیز اور یکساں سیول کوڈ“ خطاب میں کہا کہ آزادی کے وقت ہندوستان کے تمام فکر و نظر، تہذیب، قومی مفادات، زبان، نسل اور جغرافیائی تعلق میں تفاوت کے باوجود جو چیز ان سب کو سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بنائے ہوئی تھی، وہ یہی تصور تھا کہ آزادی کے بعد یہ ملک سیکولرازم کی راہ پر چلے گا۔
آزادی سے پہلے ’قومی لیڈران‘ ہمیشہ مسلم پرسنل لا کے تحفظ اور اس میں عدم مداخلت کا یقین دلاتے رہے۔ آزادی کے بعد ملک کا دستور بنا تو قانون کے سب سے اہم حصہ ’بنیادی حقوق‘ کی فہرست میں ایسی دفعات بھی رکھی گئیں جن سے ”مسلم پرسنل لا“ کی حفاظت ہوتی ہے۔
مولانا نے کہا کہ ملک میں مذہبی آزادی ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت ملک کے آئین کی شق نمبر 25-28 میں دی گئی ہے۔ دستور ہند نے ملک میں بسنے والے ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گذارنے کی اجازت دی ہے، اور اس کو بنیادی حقوق میں شامل رکھا گیا ہے۔
اسی حق کے تحت اقلیتوں اور قبائلی طبقات کے لئے اُن کی مرضی اور روایات کے مطابق الگ الگ پرسنل لا رکھے گئے ہیں، جس سے ملک کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے، بلکہ آپسی اتحاد اور اکثریت و اقلیت کے درمیان باہمی اعتماد کو قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
لاء کمیشن آف انڈیا نے ملک کے باشندوں سے یونیفارم سیول کوڈ (یو سی سی) کے بارے میں رائے مانگی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملک کے باشندوں سے یہ اپیل کی ہے کہ اس سلسلہ میں لاء کمیشن آف انڈیا کو ضرور جواب بھیجیں، ہمارا ملک مختلف مذاہب اور تہذیبوں سے جڑے ہوئے لوگوں کا ملک ہے، اس لیے یہاں یونیفارم سیول کوڈ نہ توقابل قبول ہے اور نہ قابل عمل۔
مولانا نے کہا کہ یکساں سیول کوڈ مسلمانوں کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے۔ مولانا نے کہا کہ بورڈ کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے، بلکہ ایک محب وطن شہری ہونے کے اعتبار سے بھی ہم اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ تمام مذہبی اور تہذیبی اکائیوں کو دستور ہند کے مطابق اپنے تشخصات کے ساتھ رہنے کے حق سے محروم کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور ان پر زبردستی کوئی قانون مسلط نہ کیا جائے۔
یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف کے خلاف سپریم کورٹ میں حکومت ہند کی طرف سے داخل کئے جانے والے حلف نامہ اور لاء کمیشن کی طرف سے کامن سیول کوڈ کے بارے میں جاری کئے جانے والے سوال نامہ کے پس منظر میں مسلمانوں نے زبردست اتحاد، ہم آہنگی اور اشتراک عمل کا ثبوت دیا ہے اور مسلک و مشرب اور تنظیمی و جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر پوری ملت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے۔
مولانا نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ لڑائی اکثریتی فرقہ یا کسی خاص مذہب پر یقین رکھنے والوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ان فرقہ پرستوں اور فاشست طاقتوں کے خلاف ہے، جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو برباد کرنے اور اس کی جمہوری قدروں کو پامال کرنے پر تلی طاقتوں کے خلاف ہے۔
مولانا نے کہا کہ حکومت مسلم خواتین پر ظلم و زیادتی کا جھوٹا بہانہ لے کر اپنی جھوٹی ہمدردی جتائی رہی ہے۔ اسلام کی رو سے دین کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اسلام نے مرد اور خواتین کوباہم ایک دوسرے کے ولی اور نیکی کے کاموں میں معاون قرار دیا ہے۔
اسلام کی روسے وراثت میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کا بھی حق ہے۔ قرآن مجید میں صاف صاف کہا گیاہے کہ ماں باپ کی وراثت میں لڑکیوں کا بھی حصہ ہے۔ https://tinyurl.com/nouccisAIMPLB لنک پر کلک کرکے آپ کا ای میل لاگ اِن کریں تو لکھا ہوا مضمون آپ کے سامنے آئے گا۔ اس پر کلک کر کے لاء کمیشن آف انڈیا کو جواب بھیج سکتے ہیں۔اسی طرح کیو آر کوڈ کو اسکین کرنے سے بھی مضمون سامنے آجائے گا جسے ای میل کیا جاسکتا ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر تاسیسی رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و صدر رابطہ ملت بیدر نے ائمہ مساجد سے خصوصی اپیل کی ہے کہ پنج وقتہ نمازوں کے موقع پر مصلیان مسجد کو یونیفارم سیول کوڈ کے بارے میں بتائیں۔
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے جو کیو آر کوڈ اور لنک جاری کی گئی ہے اسے زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور اس کے ذریعے لا کمیشن آف انڈیا کو جواب بھیجا جائے۔ لا کمیشن کو جواب بھیجنے رہنمائی کیلئے بیدر بیٹرمنٹ فاؤنڈیشن بیدر کے 500 والینٹرس ہیں اور اس کیلئے بیدر میں 9مراکز قائم کئے ہیں۔