سیاستمضامین

احتجاجی رویوں کاشاعر غدرؔ

سیّد مقصود
صدر راشٹریہ مسلم مورچہ نئی دہلی
پیدائش: 1949ء وفات: /6ا گسٹ 2023
یوروپ کی تاریخ میں DEMASADHYENSHنامی ایک مقرر گزرا ہے جس کی تقریر قربانی ، ہمت ، شجاعت کے بارے میں سن کر لوگ میدان ِ جنگ میں لڑنے مرنے کے لئے کود پڑتے تھے۔ ہزاروں آدمی ہتھیار اٹھالیتے تھے ۔ایک دن جب وہ خود میدانِ جنگ میں پہنچاتو موقع ملتے ہی وہ وہاں سے فرار ہوگیا۔ عام طورپر قلم کاروں ، مقرروں ، قائدین ، اور شاعروں کے بارے میں یہ بات مشہور ہیکہ وہ جو بھی تلقین کرتے ہیں دوسروں کے لئے ہوتی ہے۔ اس سے وہ اپنے آپ کو مبرّا سمجھتے ہیں۔گوماڑی وٹھل غدرؔ اس کے برعکس تھے۔ غدرؔ نے ہزاروں عوام کودعوت دی اور انہیں تیارکیا۔یہاں تک کہ ایک پوری فوج تیارکرلی۔ اوروہ خود بھی میدان ِ جنگ میں برسرِپیکار رہے۔ اُن کے گیتوں میں ایسا جادوتھاکہ بس گلے سے آواز نکلی اور دل میں اُتر گئی۔ اسی لئے وہ اپنے گیتوں کے بارے میں کہتے ہیں، میر اگیت بندوق کی گولی سے زیادہ طاقتورہے۔وہ اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں میری شاعری اُس چیخ کے مانند ہے جو ضرب کاری کے نتیجے میں بے ساختہ نکل پڑتی ہے، اس میں تصنع کا دخل نہیں ہوتا ۔ یہ دل کی صدا ہوتی ہے اور یہی اس کی خوبی ہے تاثیر کی وجہ بھی ۔
6؍اپریل 1997؁ء کو ان پر چھ گولیاں داغی گئیں ، ایک گولی ابھی بھی ان کی ریڑھ کی ہڈی میں موجودتھی ۔ اس کے باوجو داس واقعہ کے26سال بعدتک وہ زندہ رہے۔اور کبھی اپنے کام اور جدوجہدسے پیچھے نہیں ہٹے ۔ غدرؔ حیدر آباد کے نیمس اسپتال میں زیر علاج تھے۔ بہوجن سماج پارٹی کے بانی جناب کانشی رام ان کی عیادت کو گئے اور ان سے کہا’وہ بی ایس پی میں شامل ہوجائیں‘ غدر ؔنے آنسو بھری آنکھوں سے رقت آمیز آواز میں ان کوجواب دیا۔ ’’میری آواز پر ہزاروں لوگ نکسلائٹ تحریک میں شامل ہوکر اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا ہے۔ میں ان کی روحوں سے دھوکا نہیں کرسکتا۔ میں ایک جہدکارہوں ۔ انقلابی گیت کارہوں ، اسی حیثیت سے میں زندہ رہنا چاہتاہوں‘ ان کایہ کہنا، ان کے اپنے مقصد سے لگاؤ ، اور ایثار وقربانی کی نظیر ہے۔
غدرؔ احتجاجی رویوں کے شاعر تھے۔ ان کایہ رویہ سماج کی حالت دیکھنے کے بعد مجبور ہوکر انھوں نے اختیار کیاتھا۔ وہ کہتے ہیں ذات پات کے نظام نے یہاں کی کثیرعوام کو بے زبان کردیاہے۔ ان بے زبانوں ، اوربے نواؤں کی ترجمانی میرے گیت کرتے ہیں۔ ہمارابھارتی سماج قانون بناکر ایسی تعلیم دے کر، عقیدے کے طورپر منواکر ہزاروں سال سے ابن ِ آدم کی بے قدری و بے عزتی کرتاآرہاہے۔ میں چاہتاہوں کہ اس روش میں تبدیلی لاؤں ۔ اور یہ تبدیلی احساسِ غلامی کا شعور ، دِلانے سے ہی آسکتی ہے۔ کیوں کہ غلاموں کو ہزاروں سال سے غلامی کا احساس نہیں رہا۔ بس وہ غلام ابن غلام چلے آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی غلامی پختہ سے پختہ تر ہوگئی ہے۔
انھوں نے اپنے گیتوں میں کئی انداز ، کئی زاویوں سے اس غلامی کوظاہر کیا۔ ان کاایک مشہور گیت جو،ان کی اپنی والدہ لکشماں کے بارے میں ہے، کہتے ہیں ، سبھی خواتین کمر کس کر ہاتھ میں ہتھیار لے کر میدان ِ جنگ میں کود پڑی ہیں۔ اس آزادی کی جنگ میں تم بھی کود پڑو۔ اس طرح کی ناامیدی کی حالت میں بیٹھے رہنا، انسانی زندگی کے لئے داغ ہے۔
غدرؔ کاتخیل اپنی بالائیوں کوپہنچا ہواہے۔ وہ کہتے ہیں سماج میں جو افراد اور اشیاء ، کم ترسمجھی جاتی ہیں، ان کو عزت بخشنے کے لئے انھوں نے اپنے گیتوں کاموضوع حقیر سمجھی جانے والی جھاڑو، چپل ، کچرا کنڈی ، وغیرہ کو بنایا۔اوران موضوعات پر گیت کہے۔ کچر اکنڈی ان کا ایک شاہکار گیت ہے۔و ہ کچر اکنڈی کو محبت بھری اور خوبصورت وہمدرد ماں سے تعبیر کرتے ہیں۔ یتیموں اور یسیروںکی وہ ماں ہے۔ کس طرح ماں ہے وہ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، بھوک سے بے تاب بچے ٹاٹ کی تھیلیاں بغلوں میں لٹکائے جب گلی گلی گھوم کر کچر اکنڈی کے پاس آتے ہیں تو کچر اکُنڈی اُن سے کہتی ہے۔کانچ کے ٹکڑے ، لوہے کے ٹکڑے، تمہارے لئے میں چھپا کر رکھی ہوں ، لے لو اور پیٹ بھر کھاناکھالو، کبھی فکر نہیں کرنا ۔ اسی لئے کچر اکنڈی ماں ہے۔ بھوک سے بے تاب کتے کے بچے جب غذاحاصل کرنے کے لئے کچر اکنڈی میں کودجاتے ہیں، سیر ہوکر کھانے کے بعد جب باہرنکلنے کی کوشش کرتے ہیںتو نکل نہیں پاتے۔ آخر کارجب وہ باہر نکلنے کی کوشش میں کامیاب ہوتے ہیںتو غدرؔکہتے ہیں ان بچوں کامنہ پونچھ کر ان کو پیا رلے کر کہتی ہے کچر اکنڈی ،میرے بچے ، جب بھی بھوک لگے آجانا، اسی لئے وہ ماں ہے۔
گائے اپنی ماتا ہے۔ کہہ کر اس کو پوجاکیا ، اس کادودھ اور دہی کھایا۔ جب وہ بوڑھی ہوگئی تو دانہ پانی دئے بغیر گھر سے نکال دِیا۔ تیری ماتا کی آنکھوں میں موت گھوم رہی تھی۔ اس حالت میں جب وہ کچراکنڈی کے پاس پہنچی تو اس نے کاغذاور چار ا کھانے کے لئے دیاتو اس کی آنکھوں میں پھر زندگی آگئی۔ اسی لئے تو ماتا کی ماں کچرا کنڈی ہے۔ اپنے خاص اور مخصوص انداز میں پیغام پہنچانے کے لئے کچراکنڈی کااستعمال انھوں نے اس طرح کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ گاؤں کاکچرا، جب تو اپنے پیٹ میں بھرلیتی ہے ، جب اس کے اندر کوئی تیلی (ماچس) ڈال دیتاہے تو ساری رات آہستہ آہستہ جل کر سارے شہرکو وہ دھواں دھواں کردیتی ہے۔جب توبھڑک اٹھتی ہے ، تو انقلابیوں کی مشعل بن جاتی ہے۔ اور یہ جو آگ ہے، یہ انقلابی آگ ہے ، یہ کوئی ارتھی کی آگ نہیں ہے جسکو لوگ آنکھوں سے لگالیتے تھے۔ اس دیش میں ہر چیز کی بھی ذات ہے۔ ایک آگ مقدس ہے ،کچر اکنڈی کی آگ اچھوت آگ ہے۔ اسی لئے اس کے قریب مت آ،ورنہ جل کر خاک ہوجائے گا۔ اسی لئے یہ ہزاروں لوگوں کی ماں اور انقلابیوں کی مشعل ہے۔
جھاڑو کے بارے میں وہ کہتے ہیں ، جب وہ نئی ہوتی ہے ، توسارا گھر جھاڑ کر دروازے کے پیچھے خاموش ٹہر جاتی ہے۔ جب وہ ادھیڑعمر کی ہوجاتی ہے ، تو گھر کا آنگن صاف کرنے کے کام آتی ہے۔ جب بوڑھی ہوجاتی ہے تو بیت الخلاء صاف کرنے کے کام آتی ہے۔ جب وہاں بھی اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی تو اس کو آگ کے حوالے کردیاجاتاہے ۔ یہ ناکارہ جھاڑو انقلابیوں کی مشعل بن جاتی ہے۔
چپل کے بارے میں کہتے ہیں، ان کے ماں باپ گاؤں کے باہر گندے نالے کے اس پار رہتے ہیں۔ جب یہ خوبصورت چپل بن جاتے ہیں، تو دورا(سرمایہ دار) کے پیروں کے لئے مخمل کا بچھونا ہوجاتی ہے مگر جب یہ غصہ میں آجاتی ہے تو اسی دورا (سرمایہ دار) کے سرکا غرور جو سرچڑھ کر بول رہاتھااس سرپر خود چڑھ کر اُس غرور کو اُتار دیتی ہے۔
مشہور سلام ’’یاشفیع الوریٰ ‘‘ہی کی بحر میں تیلگو زبان میں انھوں نے گیت لکھا۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا’’تم بیواؤں کے یتیموںکے ، بے نواؤں کے ، غلاموں کے ، مظلوموں کے نمائندے بن کر اس جہاں میں آئے اسی لئے آپ پر سلام ہو، سلام ہو، سلام ہو‘‘
غدرؔ ایک فی البدیہہ شاعر تھے۔ ان کوموضوعات تلاشنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ان کا ایک نکسلائٹ ساتھی ، جب انکاؤنٹر میں ماراگیااس نکسلائٹ کی ماں کس طرح سوچتی ہے ، اس کاتخیل ایک ماں سے متعلق سوچ کر غدرؔ نے کہا’تو جانے سے پہلے گھر کے پچھواڑے میں جو مکئی کی کھیتی بوکر گیاتھا، بھری چاندنی رات میں جب دریچہ سے اس کھیت کو دیکھتی ہوں ،جس پر ہزاروں مکئی کی بالیں نکل آئی ہیں، ایسامحسوس ہوتاہے ، میں تجھے اپنے گود میں اٹھائی کھڑی ہوں ۔جب وہ تاروں کو دیکھتی ہے ، دیکھ کر گنگنانے لگتی ہے ،’’ تو بے سمت مسافروں کو راہ بتانے والاتارا بن کر آسمان میں چمک رہاہے ۔ میرے بیٹے، توسچ بتا تو کہاں ہے ؟‘‘ماں کی سوچ کی ترجمانی جس خوبی اورجس انداز سے کی ہے ، یہ غدرؔ ہی کاملکہ ہے ۔ ان ہی کاحق ہے۔
غدرؔ نے ہر موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔ ایک غریب مزدور کی بیٹی جب وہ کام کے لئے کھیت میں جاتی ہے ۔ اس کے پھٹے ہوئے کپڑوں سے چھلک رہے جوان جسم کو دیکھ کر زمیندارکی نیت میں فرق آجاتاہے اورمستی بھری نظروں سے گھورنے لگا اس کو رجحانے کی کوشش کی توغدر ؔ کہتے ہیں، اے میری بہن ، تو طوفان بن کے اٹھ ، میں تیرے ساتھ ہوں۔
’بچہ مزدور‘ کے بارے میں کہتے ہیں ، بستی کے نکڑ پر ایک معصوم بچہ ، جس کاقد سائیکل میں ہوابھرنے والے پمپ سے بھی کم ہے وہ اچھل اچھل کر اپنے پیٹ سے پیٹ بھرنے کی خاطر سائیکل میں ہوا بھرتارہتاہے ۔ وہ کہتے ہیں، آہ ، جس کے ہاتھ میں قلم ہونا چاہیے تھا ،آج اس کے ہاتھ میں سائیکل میں ہوا بھرنے والا پمپ ہے ۔ کیایہ ہماری جمہوریت ہے ، کیساہمارا تعلیمی نظام ہے؟ او ننھے تیرے آنسو ، میرے آنسو، سرمایہ داروں کے لئے امرت ہوگئے ہیں۔ یہ ہمارے دیش کی حالت ہے۔
دنیا میں طاقت اور کمزور کے درمیان کشمکش جاری ہے اس کشمکش کے فلسفے کو ایک مثال سے سمجھاتے ہیں ۔ ـ’’جب کتّا۔کمزور مرغی پر حملہ کرتا ہے مرغی پر پہلاکر چونچ تیز کرکے اپنے پنجوں کو کتّے کے آنکھوں میں گاڑھنے کے لئے مورچہ سنبھال لیتی ہے اُس وقت اپنے وسائل اور طاقت کو نہیں دیکھتی صرف جذبہ ہی اسکو مقابلے کے لئے تیار کرتا ہے ۔ جذبے سے قربانی ، قربانی سے ہمّت ،ہمّت سے طاقت حاصل ہوتی ہے ، یہی طاقت تحریکوں کو کامیابی دلاتی ہے یہ کامیابی کی راہ ہموار کرتی ہے ناکام کبھی نہیں ہوتی۔ایک منظم حکومت سے ٹکرانے کے پیچھے یہی جذبہ تھا ۔ جس کی وجہ سے میں نکسلائیٹ موؤمنٹ میں شامل ہوا۔
ایک انٹرویو کے دوران اُن سے پوچھا گیا آپ کے ساتھ کبھی بھید بھاؤ کا تلخ تجربہ ہوا ہے تو انہوں نے جواب میں کہا میرے سماج کے ساتھ ہزاروں سالوں سے ہورہا ہے مگر جب میری ذات کے بارے میں پوچھتے ہیں کچھ واقعات میرے دل پر نقش کر گئے جب میں اسکول میں داخلے کے لئے گیا میرے برہمن ٹیچر نے میرے والد کے رکھے ہوئے نام گوماڑی وٹھل راؤ سے راؤ ہذف کردیا۔کیونکہ راؤ صرف راؤ اعلی ذات والوں کو رکھنے کا حق تھا شودرکو نہیں۔ ؍؍جب میں بینک کی نوکری حاصل کی مگر میرے عہدے کے مطابق مینیجر نے جگہ نہیں دی چپراسی کی جگہ بیٹھ کر آفس کا کام کرنا پڑا۔
موجودہ تلنگانہ حکومت نے بھی مجھے اور میرے کام کو بری طرح سے نظر انداز کیا ،موجودہ ٹی آر ایس حکومت کے اندازے حکمرانی کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ! مافیہ ،لائنڈ مافیہ، سائنڈ مافیہ(ریت مافیہ)، مائننگ مافیہ (کانکنی مافیہ ) کے زور پر چل رہی ہے ۔ میرے ساتھ عوام کی بائنڈنگ ہے ۔
تلنگانہ تحریک کے لئے بہت سارے لوگوں نے اپنے ہدف متعین کئے :جماعت اسلامی نے کہا’’تلنگانہ برائے انصاف ۔انصاف برائے تلنگانہ‘‘ غدرؔ نے کہا ’’سماجی تلنگانہ‘‘۔ کے چندرشیکھر نے کہا’’علیحدہ تلنگانہ‘‘۔ حصول تلنگانہ کے بعد سرمایہ داروں کا تلنگانہ، زمینداروں کا تلنگانہ ہوگیا۔اس دھوکے کے سبھی شکار ہوئے غدرؔنے بڑی قربانی دی تھی اسی لئے انکو افسوس بھی بڑا ہوا۔
غدرؔ کے ہزاروں گیت ، کا احاطہ کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ اس کے لئے دفتر چاہیے۔ اسی پر اکتفا کرنا بہتر ہے۔
غدرؔ نے اس سماج کاتصور کیاتھا، جو عدل ، انصاف ، اور بھائی چارہ پر قائم ہو۔ جب تک وہ سماج قائم نہیں ہوگا،یہ جدوجہد جاری رہے گی ۔تاحیات غدرؔاسی راہ میں جدوجہد کرتے رہے ۔ انھوں نے جو قربانی دی ، وہ یقینا ایک نہ ایک دن رنگ لائے گی۔
’ایک تارا ٹوٹا، ایک بادشاہ کی موت ہوئی
ایک تارا نمودار ہوا،تو ایک شاعر پیداہوا
شاہ زندہ رہتاہے پتھر کی مورتیوں میں
ایک عظیم شاعر زندہ رہتاہے عوام کے دِلوں میں ‘‘
(گُورّم جاشوا)
۰۰۰٭٭٭۰۰۰