حیدرآباد

اردو اکیڈیمی ایوارڈ تقریب: تلگو تہذیب مسلط کرنے پر صلاح الدین نیر کا سخت اعتراض

سینئر شاعر صلاح الدین نیر نے اپنے صحافتی بیان میں کہا کہ میں ایک سینئر شاعر ہوں حکومت تلنگانہ کی یوم تاسیس تقریب میں تلنگانہ کے سب سے بڑے اہم‘ پہلے سینئر شاعر کی حیثیت سے راج کوی کی حیثیت سے سرکاری ایوارڈ دیا گیا۔

حیدرآباد: سینئر شاعر صلاح الدین نیر نے اپنے صحافتی بیان میں کہا کہ میں ایک سینئر شاعر ہوں حکومت تلنگانہ کی یوم تاسیس تقریب میں تلنگانہ کے سب سے بڑے اہم‘ پہلے سینئر شاعر کی حیثیت سے راج کوی کی حیثیت سے سرکاری ایوارڈ دیا گیا۔

متعلقہ خبریں
اردو اکیڈمی کی کارکردگی مفلوج، فنڈز کی اجرائی نہ ہونے سے شعراء، ادیب اور جرنلسٹوں میں مایوسی
اُردو اکیڈمی جدّہ کی جانب سے بین الاقوامی یادگار مشاعرہ
اردو خبر رساں اداروں سے مالی اعانت کیلئے درخواستوں کی طلبی
اردو اکیڈیمی کے بیسٹ ٹیچر ایوارڈز، آخری تاریخ میں توسیع

اس اعزاز کے حوالہ سے مجھے یہ حق پہنچتا ہے کہ اردو اکیڈیمی کی اس تقریب پر تبصرہ و تنقید کروں۔ یہ پروگرام خاصل اردو پروگرام تھا لیکن اس پروگرام پر تلگو اور ہندو تہذیب کو مسلط کیا گیا۔ تقریب سے پہلے اور تقریب کے دوران تلگو میں اعلان ہوتا رہا۔

پروگرام کے آغاز سے قبل ہندو تہذیب کی روشن علامت سرسوتی دیوی ماتا کی ایک بڑی شمع کے قریب جاکر دیپ جلائے گئے۔ دیپ جلانے والوں میں محمود علی وزیر داخلہ، اے کے خان مشیر اقیتی اُمور، چیرمین اردو اکیڈیمی خواجہ مجیب الدین، شفیع اللہ ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی، طارق انصاری صدرنشین مائناریٹی کمیشن اور دیگر اصحاب شامل تھے۔

شہ نشین پر صلاح الدین نیر موجود تھے، وہ اپنی کرسی پر بیٹھے رہے۔ انہوں نے دیپ نہیں جلایا۔ اس خالص ادبی پروگرام کو مذہبی رنگ دینا ضروری تھا تو قرأت کلام پاک کو بھی پروگرام کا حصہ بنانا چاہیے تھا۔ شہ نشین پر تلگو میں بیانر تھا، بعد میں ہٹا دیا گیا۔

تمام ایوارڈس پانے والوں اور مدعو شعراء سے 9 بجے صبح شرکت کرنے کی خواہش کی گئی تھی۔ صدرنشین اردو اکیڈیمی خواجہ مجیب الدین 10 بجے ہال میں داخل ہوئے۔ وہ ایوارڈ پانے والے شاعر، ادیبوں، جماعتوں سے ملاقات کئے بغیر شہ نشین پر چلے گئے۔

ایوارڈ پانے والے شاعر، ادیبوں، جماعتوں کو نشہ نشین پر نہیں بیٹھا گیا۔ قلم کار شرکائے محفل کے ساتھ بیٹھے رہے۔ ان قلم کماروں کا خیر مقدم نہ تو چیرمین اردو اکیڈیمی نے کیا اور نہ ہی ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی نے کیا۔ شروع سے آخر تک ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی نے زبان نہیں کھولی۔

ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی کو قلم کاروں کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا۔ مشاعرہ کا کا کوئی صدر نہیں تھا۔ پروگرام میں صدر کی حیثیت سے صدرنشین اردو اکیڈیمی کا نام شامل ہے۔