سیاستمضامین

اسلامی شریعت میں مالِ تجارت پر زکواۃ کی ادائیگی کا لزوم ہے۔ کیا یہ اصول تجارت کی غرض سے خریدے ہوئے کروڑوں روپیہ مالیتی اراضی کے پلاٹس‘ مکانات پر بھی لاگو ہوگا؟ ایک سوالہماری ناچیز رائے میں رہائشی مکان کی قیمت پر زکواۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی

٭ ایک سال کی جمع پونجی اور مالِ تجارت پر زکواۃ کی ادائیگی کا لزوم ہے۔ ٭ کیا رئیل اسٹیٹ تجارت بھی مالِ تجارت کی تعریف میں آئے گی؟ ٭ رئیل اسٹیٹ میں لاکھوں کروڑ روپیہ مصروف ہیں جن میں اضافہ ہوتا ہی جارہاہے۔ ٭ اس ضمن میں ہندوستان کی بڑی بڑی اسلامی جامعات کے مفتیانِ کرام سے فتویٰ مطلوب ہے۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

زکواۃ دین ِاسلام کا ‘صلواۃ کے بعد سب سے بڑا فرض ہے۔ کلام اللہ میں تقریباً ہر جگہ جہاں جہاں نماز کا حکم آیا ہے وہیں ادائیگی زکواۃ کا حکم ہے۔ تاریخ اسلام کے جھروکوں میں جھانکنے کے بعد اس بات کا علم ہوگا کہ منکرینِ زکواۃ کے خلاف کس طرح حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جہاد کیا تھا اور وہ اس معاملہ میں اس قدر سخت گیر تھے جس کا اس بات سے پتہ چلے گا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ میں اونٹ باندھنے کی رسی کی بھی زکواۃ وصول کروں گا۔ آپؓ نے فوج کی لام بندی کا حکم دیا۔ دیگر صحابہؓ نے عرض کیا کہ امیرالمومنین اگر آپ ساری فوج کو لے کر جہاد کیلئے نکل جائیں گے تو پھر مدینہ منورہ کی حفاظت کون کرے گا۔ آپؓ نے فرمایا مجھے پرواہ نہیں اگر مدینہ کی بستی میں رہنے والوں پر جنگل کے درندے حملہ کرکے ہلاک کردیں لیکن منکرینِ زکواۃ سے میں جہاد کرکے ہی دم لوں گا۔ امیرالمومنین کے کڑے تیور دیکھ کر لوگ جوق درجوق زکواۃ کی ادائیگی کے لئے دوڑے چلے آئے۔ پھر اس واقعہ کے فوری بعد جھوٹے مدعیانِ نبوت نمودار ہوئے جن کا مقصد صرف حصولِ مال تھا جس پر زکواۃ کی ادائیگی نہ ہو۔ امیرالمومنین کی اس اوالوالعزمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت خون خرابے کے بعد جس میں سینکڑوں حفاظِ صحابہ کرام شہید ہوئے‘ منکرین جہاد اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کا خاتمہ ہوا۔
صحابۂ کرامؓ کے مبارک دور میں زکواۃ کی وصولی کا ایک موثر انتظام تھا اور مالِ زکواۃ کا خزانہ بیت المال تھا۔ بیت المال کے عمّال ہوا کرتے تھے جن کاکام زکواۃ کی وصولی اور مالِ زکواۃ کی ذخیرہ اندوزی تھا۔ ان عمّال کو ان کے گزارے کے لئے زکواۃ کی رقم میں سے تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ گویا نظم وصولی زکواۃ کو آج کے انکم ٹیکس سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
صحابہ کے مبارک دور کے بعد اسلامی حکمرانی کے مراکز بدلتے گئے۔ کوفہ سے دمشق اور دمشق سے بغداد پھر اس کے بعد زکواۃ کی وصولی کا کوئی مرکز نہیں رہا اور زکواۃ کی ادائیگی کو مسلمانوں کے ایمان اورضمیر پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے لیکن پھر بھی لاکھوں کروڑوں مسلمان آج بھی ایسے ہیں جو اپنے مال پر ایک سال گزرجانے کے بعد مقررہ زکواۃ ادا کرتے ہیں جس کا پیمانہ ‘مال پر ایک سال گزرجانے کے بعد چالیس پر ایک یعنی ڈھائی فیصد ہے۔ اس زکواۃ پر سب سے پہلے غریب اقرباء کا حق ہے ‘ پھر اس کے بعد یتیموں ‘ بیواؤں اور غریبوں کا۔
آغازِ اسلام کے وقت ممالکِ عرب اور خصوصاً حجاز میں دولت کا معیار اونٹ اور بکریاں تھیں۔ جس کے پاس جتنے اوٹ ہوتے اسے اتنا ہی دولت مند سمجھا جاتاتھا۔ یہی حال بکریوںکا تھا۔ گویا کسی مسلمان کے پاس چالیس اونٹ ہوتے اور ان پر ایک سال گزرجاتا تو اسے ایک ایک اونٹ بطورِ زکواۃ ادا کرنا پڑتا تھا۔ علاوہ ازیں کھجور کی پیداوار پر بھی زکواۃ وصول ہوتی تھی۔ یعنی پیداوار کا چالیسواں حصہ بطورِ زکواۃ ادا کرنا پڑتا تھا۔ زکواۃ صرف صاحبِ نصاب سے وصول کی جاتی تھی۔ اگر اس زمانے کے ریال یا دینار اور سونے چاندی میں سے ایک سال کے گزرجانے کے بعد چالیسواں حصہ وصول کیا جاتا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں اس قدر مالِ غنیمت آیا کہ جب اس کی تقسیم تمام عوام میں ہوئی تو ہر کوئی دولت مند ہوگیا اور کہیں بھی کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جسے زکواۃ دی جاسکے۔
صحابۂ کرام کے مبارک دور کے بعد سے لے کر آج تک ادائیگی زکواۃ کیلئے کوئی مرکزی ایجنسی نہیں ہے۔ پاکستان میں کچھ عرصہ کے لئے ایسی کوشش کی گئی تھی لیکن بعد میں خاموشی اختیار کرلی گئی۔ لب لباب یہ کہ ادائیگی زکواۃ صرف ایمان اور ضمیر پر چھوڑ دی گئی ۔
ہر زمانے میں دولت کے معیارات جداگانہ رہے۔ کبھی گھوڑے ‘ مویشی ‘ مالِ تجارت و زراعت ‘ روپیہ ‘ پیسہ‘ درہم و دینار وغیرہ ‘ سرزمینِ ہندوستان میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ عروج کے دوران مسلمانوں کے ایک طبقہ امراء کے پاس لاکھوں کروڑوں کی دولت تھی یہاں ہم ایمان و ضمیر کی بات کررہے ہیں ۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے دورِ حکمرانی میں صوبۂ گجرات کے شہر سورت کے ایک صدرقاضی صاحب کے پاس بے پناہ دولت تھی۔ خافی خان نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کے گھر میں کئی کمرے تھے جس میں سونا چاندی تجوریوں میں بند تھے۔ لیکن قاضی صاحب زکواۃ کی ادائیگی کے سخت پابند تھے۔ ایک سال گزرجانے کے بعد جو بھی بچ رہتا اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکواۃ ادا کرتے تھے۔ لیکن ہر سال ٹھیک گیارہ ماہ بعد وہ اپنی ساری دولت سونا چاندی ‘ روپیہ اور مال اپنی بیوی کے نام ہبہ کردیتے تھے۔ اور جب بارہ ماہ پورے ہوتے تو ان کے پاس کچھ نہ ہوتا کیوں کہ ان کی ساری دولت اب ان کی بیوی کے نام ہوچکی ہے۔ وہ شرعی احکامات کی آڑ میں بیوی کے نام اپنی ساری دولت ہبہ کردیتے اور جب مدت پوری ہوجاتی تو ان کی بیوی ان کے نام ساری دولت ہبہ کردیتی ‘اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا اور بطورِ زکواۃ ایک پیسہ بھی ادا نہیں کیا جاتا۔ جب اورنگ زیب عالمگیرؒ کو اس بات کی اطلاع ملی تو آج کے (E.D) کی طرح ان کے گھر پر دھاوا کیا گیا اور ساری دولت برآمد کرلی گئی اور سرکاری خزانہ میں داخل کردی گئی۔ (دیکھئے تاریخِ مغلیہ ۔ خافی خان)
لیکن آج دولت کے معیارات بدل گئے ہیں۔ ہر کوئی اپنا پیسہ رئیل اسٹیٹ تجارت میں مصروف کررہا ہے۔ چاہے دولت مند افراد ہوں یا دینی مدارس کے اساتذہ‘ ہر کوئی اس تجارت میں گلے تک ڈوبا ہوا ہے ۔ دولت کو دوگنی چوگنی کرنے کا یہی تو واحد ذریعہ رہ گیا ہے۔ سال دو سال گزرجانے کے بعد دولت دوگنی چوگنی ہوجارہی ہے۔ زمینات کی ذخیرہ اندوزی ہورہی ہے اور صرف تجارت یا مال دار بننے کے لئے ۔ یہ اراضیات یا ا راضیات کے پلاٹس مکان کی تعمیر کے لئے بہت ہی کم خریدے جارہے ہیں۔ اس خرید کا مطلب صرف دولت کمانا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ ایک درمیانی آمدنی والا شخص اگر زندگی بھر کی تنخواہ صرف اس غرض کے ساتھ جمع کرے کہ کوئی پلاٹ یا مکان خریدے تو بھی روپیہ اتنا نہیں رہے گا جس سے زمین کا پلاٹ یا مکان خریدا جاسکے۔ دوسری جانب لوگوں کی دولت میں دن دونی رات چونی اضافہ ہورہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ دولت جو اراضیات یا پلاٹس کی خریدوفروخت سے حاصل ہوئی ہے اس پر زکواۃ کی ا دائیگی کا لزوم ہے یا نہیں؟
لوگوں نے ہم سے اس بارے میں استفسارات کئے ہیں کہ وہ دولت یا دولت کی شکل میں لاکھوں روپیہ مالیتی پلاٹس‘ اراضیات پر زکواۃ کی ادائیگی لازم ہے یا نہیں کیوں کہ ایسے لوگ اس شرعی موقف کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اراضیات یا مکانات پر زکواۃ کی ادائیگی ضروری نہیں ۔ لوگوں میں تجارت کی غرض سے سونے کو خریدنے کا رجحان نہیں ہے کیوں کہ سونے کی قیمت اس رفتار سے نہیں بڑھتی جتنی رفتار سے رئیل اسٹیٹ تجارت میں بڑھتی ہے۔
ہم خود کو اس قابل نہیں گردانتے کہ اس نازک مسئلہ پر کوئی رائے دیں اور حتمی طور پر کہہ سکیں کہ رئیل اسٹیٹ کی تجارت سے ہونے والی آمدنی اور اس پر ایک سال گزرجانے کے بعد زکواۃ کی ادائیگی کا لزوم ہے ۔ لیکن اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ زکواۃ فرائض میں دوسرا درجہ رکھتا ہے اور زکواۃ کی ادائیگی سے روگردانی یا انکار گناہ بلکہ کفر کی تعریف میں آئے گا کیوں کہ اوپر جس واقعہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اس میں منکرِ زکواۃ کو کافر قراردیا گیا تھا اور ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا گیا تھا۔
اب یہ بات ایمان اور ضمیر پر منحصر ہے کہ ایسی آمدنی یا جمع پونجی پر زکواۃ ادا کی جائے یا نہیں چونکہ ایسی کوئی ایجنسی یا ادارہ نہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر آوری نہ کرنے پر عمل پیرا ہو۔
لہٰذا ہم اس رائے کا دینا پسند کریں گے کہ اس ضمن میں ملک کی عظیم دینی جامعات کے علمائے دین و مفتیان شرع متین سے فتویٰ طلب کیا جائے کہ رئیل اسٹیٹ کی تجارت میں مصروف لاکھوں کروڑوں روپیہ جو محض تجارت کے لئے صرف کیا ہے‘ اس کی فروخت کی جملہ رقم پر ایک سال گزرجانے پر ادائیگی زکواۃ کا لزوم ہے یا نہیں۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ رہائشی مکان جس کی قیمت جس قدر بھی ہو ادائیگی زکواۃ سے مستثنیٰ ہے اور شائد ہم نے اس ضمن میں جامعہ نظامیہ سے جاری کیا گیا فتویٰ بھی دیکھا تھا جس میں یہ بات کہی گئی تھی۔
اس ضمن میں قیاس کی بات کی جائے گی۔ ایک بار کی بات ہے کہ رسول ﷺ نے ایک نوجوان صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ سے یمن کا گورنر مقرر کرتے وقت کچھ باتیں کی تھیں جو قیاس کا باعث بنیں جو بعد میں شرعِ اسلام کا ایک حصہ بن گیا۔ حضورﷺ نے فرمایا معاذؓ تم وہاں پہنچ کر فیصلے کس بنیاد پر کروگے ۔ صحابیؓ نے جواب دیا میں اپنا حکم قرآن کریم کے احکامات کے مطابق جاری کروں گا ۔ حضورﷺ نے فرمایا اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس کا قرآن میں تذکرہ نہ ہو تو کیا کروگے؟ جواب تھا کہ میں آپﷺ کی باتوں ‘ احکامات ‘ اعمال کے مطابق فیصلہ صادر کروں گا۔ حضورﷺ نے پھر دریافت کیا اگر تمہیں کوئی ایسا مسئلہ درپیش آئے جس کا جواب نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ میرے کسی عمل یا قول میں ہو تو کیا کروگے؟ صحابیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ تو پھر ایسی صورت میں اپنے قیاس کو استعمال کروں گا اور جو بات مجھے مناسب نظر آئے اسی کے مطابق میں فیصلہ صادر کروں گا۔ اس واقعہ کے بعد شرع اسلام میں قیاس کی ایک قانونی حیثیت ثابت ہوگئی۔
ہماری ناچیز رائے میں اس مسئلہ میں علمائے کرام کو موجودہ حالات میں قیاس کو استعمال کرتے ہوئے اس مسئلہ پر فتویٰ جاری کرنا چاہیے۔
اگر علمائے کرام کا فتویٰ ہمارے اس خیال کے مطابق آئے جس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے تو ایسی صورت پیدا ہوجائے گی کہ دلوں میں سویا ہوا ایمان جاگ اٹھے گا اور زکواۃ کی فرضیت کے بارے میں سوچنے پر صاحبِ ثروت مسلمان مجبور ہوجائیں گے کیوں کہ ترازو کے ایک پلڑے میں دولت ہوگی اور دوسرے پلڑے میں ایمان۔ مسلمانوں کو مال اور ایمان میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنا ہوگا۔
سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ سطحِ غربت کے نیچے رہنے بسنے والے مسلمانوں کو ان کا حق ملے گا جو صاحبانِ ثروت کا فرض ہوگا۔
مسلمانوں کی غربت و افلاس ختم ہوجائے گی اور انہیں زندہ رہنے کا حوصلہ ملے گا۔ تو دوسری جانب صاحبانِ ثروت کا ضمیر مطمئن ہوگا اور وہ نفسِ مطمئنہ کے حامل ہوکر اللہ تبارک تعالیٰ کے مقرب بندے بن جائیں گے۔
وما توفیق الا باللہ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w