مضامین

اقربامیرے کریں خون کا دعویٰ کس پر!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں ایک بار پھر انصاف کا قتل ہوا ۔ مظلوموں کا خونِ ناحق رائیگاں گیا ۔ عدلیہ کی اعلیٰ مسندوں پر براجمان معزز جج صاحبان نے انصاف کے نام پر ظالموں کو بَری کردیا۔ مثل مشہور ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے !! کیا واقعی یہ بات سچ ہے ؟ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں جہاں قانون کی حکمرانی کے دعوے ہر روز کئے جاتے ہیں کیا ایسا بھی ہوتا ہے کہ دن کے اُجالے میںبے گناہ انسانوں کا قتل عام کرنے والے اور معصوم عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کرنے والوں کو ملک کی عدالتیںبیک جنبش قلم باعزت بری کر دیتی ہیں۔ ہاں ! اب ملک میں یہ سب ہونا کوئی غیر معمولی یا غیر متوقع بات نہیں رہی۔ سال 2002میں گجرات میں ہوئی خون آشام تباہی مچانے والے قاتلوں اور زانیوں کو جس انداز میں گجرات کی عدالت نے گزشتہ دنوں کلین چِٹ دیتے ہوئے بری کر دیا اس سے یہ بات ثابت ہو چکی کہ ملک میں قانون کے پیمانے بدل گئے ہیں۔بعض عدالتیں اب فیصلے انصاف کی بنیاد پر نہیں دے رہی ہیں بلکہ اپنے اپنے سیاسی آقاو¿ں کو خوش کرنے کے لیے انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ گجرات کا وہ خونین فساد جس میں دوہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ہزاروں مسلم خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں آج 20سال پورے ہونے کے باوجود بھی ان مظلومین کے ساتھ انصاف نہ ہو سکا۔ دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے لیے گجرات کی حکومت نے ان بدبختانہ واقعات کی تحقیقات کے نام پر کمیشن اور کمیٹیاں بنائیں لیکن کسی مجرم کو کوئی سزا آج تک نہیں ملی۔ سپریم کورٹ میں برسوں تک مقدمات چلتے رہے لیکن انصاف کی کوئی راہ نکلتی اب بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ بیسٹ بیکری کیس سے لے کر بلقیس بانو کے مقدمہ میں مظلوم ،انصاف کے لیے ترستے رہے۔ ذکیہ جعفری ، اپنے شوہر اور گلبرگ کالونی میں قتل کیے جانے والوں دیگر مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے گجرات ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے چکّر کاٹتی رہی لیکن انہیں بھی مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہونے والا یہ پہلا فساد ہے جس کو فساد نہیں بلکہ منصوبہ بند مسلم نسل کشی کہنا غلط نہ ہوگا۔ ہندو دہشت گردوں نے سابر متی ٹرین حادثہ کو بنیاد بناکر مسلمانوں کا جو قتل عام کیا اس کی کوئی مثال ملک کی آزادی کے بعد ہونے والے کسی اور فساد سے نہیں دی جا سکتی۔ زندہ انسانوں کو آگ کے شعلوں میں ڈال کر جلادیا گیا۔ حاملہ عورتوں کی اجتماعی عصمت ریزی کر کے ان کو خاکستر کر دیا گیا۔ 72گھنٹوں تک حیوانیت رقص کر تی رہی اور نیرو بانسری بجاتا رہا۔ حکومت کی مجرمانہ غفلت ہی نہیں بلکہ پشت پناہی نے نفرت و عناد اور خوں ریزی کے شعلوں کو بھڑکنے کا پورا موقع دیا۔ اس لرزہ خیز دہشت گردی کے دوران سنگ دلی، شقاوت اور بے رحمی کے جو دلخراش منظر دیکھے گے شایدجنگل میں جانوروں کے درمیان بھی ایسی خونریزی نہیں دیکھی جا تی ! قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے جو کچھ واقعات ہوئے اس پر حکمرانوں کو پشیمانی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے خاطیوں کو سزا دینا تھا۔ اس کے بر عکس یکے بعد دیگر قاتلوں کی نہ صرف رہائی عمل میں آ تی رہی بلکہ ان کو سیاسی عہدے بھی دیے جا تے رہے۔ گزشتہ سال یوم آزادی کے موقع پر جب وزیراعظم نریندر مودی لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی خواتین کو انصاف دلانے کی باتیں کر رہے تھے، عین اسی دن گجرات کی حکومت ان 11مجرموں کو جیل سے آزاد کر دیتی ہے جو عمر قید کی سزا بھگت رہے تھے۔ انہوں نے انسانیت کو شرمسار کرنے والے جرائم کئے تھے۔
ان درندوں نے پانچ ماہ کی حاملہ خاتون بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کی تھی اور اس خاتون کے سامنے اس کی چار سالہ لڑکی کو پتھر پر مار کر ختم کر دیا تھا۔ اور پھر بلقیس بانو کے خاندان کی چار خواتین بھی ان درندوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں اور انہیں بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ ان روح فرسا واقعات کو پورے ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش کیا گیا۔ اس کی بنیاد پر ممبئی کی سی بی آئی عدالت ان ملزموں کو عمر قید کی سزا سناتی ہے۔ لیکن گجرات کی حکومت ان انسانیت سوز حرکت کرنے والوں کو آزاد کر دیتی ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر عام معافی کے نام پر ان کی رہائی عمل میں آ تی ہے۔ یہ ہے گجرات کا ماڈل۔ جس کو سارے ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالتوں سے سزا یا فتہ بھی آزاد ہو جا تے ہیں اور بعض وقت عدالتیں بھی ملزموں کے ساتھ رعایت کرتے ہوئے ان کے مظالم سے چشم پوشی کرتی ہیں ۔ گز شتہ دنوں گجرات کی ایک ایڈیشنل سیشن جج کورٹ نے ایسے 26ملزمین کو بری کردیا، جن پر 12سے زائد افراد کے قتل عام اور ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کرنے کا الزام تھا۔ ایڈیشنل سیشن جج لیلا بھائی چڈا نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے ان کو باعزت بری کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ بیس سال سے اس مقدمہ کی سماعت جا ری تھی۔ ملزمین کے خلاف 190گواہان اور 334دستاویزی ثبوت پیش کئے گئے۔لیکن عجیب بات یہ رہی کہ جج صاحب کی نظر میں ایک بھی گواہی قابل اعتبار نہ رہی اور استغاثہ انہیں یہ قائل نہ کراسکا کہ یہ واقعی ان جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ اس واردات میں کُل 39ملزمین ماخوذ تھے جن میں سے 13کی دوران مقدمہ موت ہو گئی۔ بقیہ 26کو عدالت نے بری کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتیں قانونی ثبوتوں اور عینی شہادتوں کی بنیاد پر ہی فیصلے دیتی ہیں ۔ لیکن کیا عدالت حکومت کو پابند نہیں کر سکتی کہ وہ کسی بھی مقدمہ میں صحیح جانچ کرے اور پورے حقائق کے ساتھ عدالت میں پیش ہو تا کہ مظلوم کو انصاف مل سکے۔ گجرات فسادات کی تحقیقات کے معاملہ میں ہمیشہ سے ہی یہ ہوتا رہا کہ حکومت کی کوشش رہی کہ سچائی سامنے نہ آئے۔ چناچہ جتنے کمیشن بنائے گئے اورجتنی تفتیشی ایجنسیاں ان فسادات کی تحقیقات کیں ان میں کوئی شفافیت نہیں تھی۔ ہر ایک نے تحقیقات کے نام پر اس وقت کی حکومت کو ان فسادات کے لیے بری الذ مہ قرار دیا۔ جتنے ملزمین قانون کی گرفت میں آئے، ان سب کو رہا کرنے کا انتظام حکومت نے کیا۔ بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی رہائی کے بعد کلول وارادت کے 26ملزمین کو عدالت سے باعزت بری کر دینا انصاف کی دہائی دینے والوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ بیس سال تک مقدمہ بازی کے نام پر ڈرامہ بازی ہو تی رہی ۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے سارے گواہوں اور ثبوتوں کے ہوتے ہوئے قتل عام کرنے والے اور عصمت ریزی کے مرتکب درندے آزاد ہوجاتے ہیں۔
اسی دوران ملیانہ اور ہاشم پورہ کے ملزمین کی بھی رہائی عمل میں آئی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ یوپی کے شہر میرٹھ کے نواحی علاقہ ملیانہ میں 23مئی 1983میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔ اس فساد میں 72بے گناہ مسلمانوں کی جانیں گئیں ۔ قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوا تھا اور ملزمین کی تعداد 93تھی۔ دوران مقدمہ 23کی موت ہوگئی اور 11ملزمین کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ چشم دید گواہوں کا عدالت میں بیان ریکارڈ ہوا کہ اس دن ریاستی مسلح پولیس ملیانہ میں داخل ہوئی اور مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ 72مسلمان شہید ہوئے۔ بچوں اور عورتوں کو بھی ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک ہی خاندان کے 11افراد کو گولی ماردی گئی۔ سانحہ کے 36سال بعدتک مقدمہ چلتا رہا۔ 900سماعتیں ہوئی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ عدالت نے اسی عذر لنگ کی بنیاد پر کہ ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے 39ملزمین کو بری کردیا ۔
مجرمین کی رہائی کا معاملہ یوپی کی عدالت کا ہو یا پھر گجرات کی عدالت کا ، دونوں عدالتوں کے جج صاحبان نے ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی دلیل دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔ ملیانہ کیس میں 36سال مقدمہ کی سماعت ہوتی ہے اور پھر سارے ملزمین بری ہوجا تے ہیں ۔ گجرات میں 20سال سے متاثرین انصاف کے لیے قانونی جنگ لڑتے ہیں لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھرجاتا ہے۔ بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرنے والے اور مجبور و بے بس خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کرنے والوں کو اپنے گھناو¿نے جرائم کی سزا قانون کے ذریعہ نہیں ملتی ہے تو پھر ملک میں درندہ صفت انسان نما خونخوار حیوانوں کو معصوم انسانوں کو ہلاک کرنے کے موقعے بار بار ملتے رہیں گے۔ بد ترین فرقہ وارانہ تشدد کے برپا کرنے والے اگر قانون کے شکنجہ میں کسَے نہ جائیں تو پھر مظلوم انصاف کے لیے کہاں جائے گا؟ قانون کا مشہور مقولہ ہے کہ "Justice delayed is Justice denied "یعنی انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔ گجرات اور ملیانہ کے مظلوموں کے ساتھ یہی ہوا۔ انصاف کے انتظار میں مظلوموںنے کئی دہے گزار دیے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ دردناک منظر گھوم رہے تھے کہ کیسے ان کے چہیتوں کی جانیں لے لی گئیں اورکیسے ان کی خواتین کی عصمت تار تار کر دی گئی۔ 1987کے ہاشم پورہ فساد میں پی اے سی نے 42مسلمانوں کو گرفتار کر کے دریائے گنگا کے کنارے گولی مار کر ان کی لاشیں دریا میں پھینک دی تھیں۔ آج ان مرنے والوں کے تعلق سے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے۔ عدالتوں کے ان عجیب و غریب فیصلوں نے ملیانہ، ہاشم پورہ اور گجرات کے مظلوموں کے حوصلوں اور ان کے عزم کو کاری ضرب لگائی ہے۔ لیکن ابھی ایک عدالت کا فیصلہ باقی ہے۔ وہ عدالت کائنات کے مالک کی عدالت ہے۔ جو دیکھ رہا ہے کہ ایک آزاد اور جمہوری ملک میں کس طرح اس کا نام لینے والوں کو تہہ تیغ کیا جا رہا ہے۔ کیسے ان کی بستیوں کو اُ جاڑا جا رہا ہے۔ کیسے ان کے نوجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کر دی جا رہی ہیں۔ 2019میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کو فسطائی قوتوں نے فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل کردیا اور دہلی میں فساد پرپا کردیا۔ لیکن دہلی پولیس نے مسلم نوجوانوں کو اس میں ماخوذ کر کے جیل پہنچادیا۔ مقدمہ کی جب سماعت شروع ہوئی اور ان نوجوانوں کی بے گناہی ثابت ہو گئی تو عدالت نے انہیں بری کر دیا۔ لیکن دہلی پولیس کو یہ بات ہضم نہیں ہو ئی۔ شرجیل امام ، آصف اقبال اور صفورہ زرگر اور دیگر کے خلاف نئے الزامات وضع کئے گئے اور دہلی ہائی کورٹ کو غلط باور کرکے ٹرائیل کورٹ کے فیصلے کو الٹ دیا گیا۔ ان ملزمین کو جو راحت ملی تھی وہ ختم کر دی گئی۔ ان نوجوانوں نے نہ کسی کا قتل کیا تھا اور نہ کسی خاتون کی عصمت ریزی کی تھی۔ وہ اپنے حق کے لیے دہلی کے شاہین باغ میں پر امن احتجاج کر رہے تھے۔پولیس نے ان کے خلاف ملک سے غداری اور بغاوت کاالزام لگا کر ان کی زندگی اجیران کردی ۔ لیکن بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرنے والے اورمعصوم عورتوں کی عصمتیں لوٹنے والوں کی پشت پناہی کر کے کون سا فرض انجام دیا؟نفرت اور عناد پھیلانے والوں اور خون ریزی کا بازار گرم کرنے والوں کو عدلیہ اسی طرح چھوٹ دیتی رہی تو اس ملک میں قانون کی بالا دستی ایک قصہ پارینہ بن جائے گی۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے تحت کی ان عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کرے اور خاطیوں کو قرار واقعی سزا دے تاکہ ملک میں قانون کی حکمرانی کا تصور باقی و بر قرار رہے۔ سپریم کورٹ سے امیدہے کہ وہ انصاف رسانی میں ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا نہیں کرے گی۔ ورنہ یہی کہنا پڑے گا کہ
وہی قاتل، وہی شاہد، وہی منصف ٹہرے
اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر!
٭٭٭

a3w
a3w