مضامین

”ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل“

منور مرزا

جی۔20ممالک کا موسمیاتی تبدیلیوں پر سربراہی اجلاس اِس سال ستمبر میں ہندوستان میں ہو رہا ہے اور اْس کا تھیم بے حد متاثر کْن ہے، جب کہ کلائمیٹ چینج پر ہونے والی اب تک کی تمام کانفرنسز کا رہا ہے۔یہ تھیم ہے ”ایک زمین، ایک خاندان، ایک مستقبل۔“ظاہر ہے، اِس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ اِس زمین پر بسنے والے تمام انسان ہی نہیں، بلکہ ہر قسم کے جان دار اور بے جان ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اگر زمین پر کوئی آفت آتی ہے، تو سب ہی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے جو موسمیاتی تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں، اس کے بعد اب کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ اس کے تباہ کْن اثرات سے امریکہ، چین، پاکستان، مشرقِ وسطیٰ اور افریقا کا کوئی ملک محفوظ نہیں، اِسی لیے پیرس کانفرنس کے بعد ہر سال اِس سلسلے میں تمام ممالک سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور اِس مصیبت سے نمٹنے کے حل تلاش کرتے ہیں۔لیکن مشکل یہ ہے کہ دنیا اِس معاملے کی سنگینی پر تو متفق ہے، مگر مسائل کے حل پر منقسم ہے کہ ہر ملک یا قوم اپنے اپنے مفادات کو اوّلیت دیتی ہے۔ اس میں تین قسم کے ممالک شامل ہیں۔ترقّی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک اور غریب ممالک۔
زمین کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، وہ کاربن گیس کے اخراج سے پہنچا ہے، جس میں بڑا ہاتھ اْس توانائی کا ہے، جو فاوسل فیولز یا کوئلے سے تعلق رکھتی ہے۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جو تیل ہم اپنی فیکٹریز، گاڑیوں اور انرجی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اْس کے جلنے کے بعد جس کاربن کا اخراج ہوتا ہے، اْس نے اپنی ہی زمین اور اس پر آباد مخلوق کے لیے زہر کا کام کیا ہے۔سب سے خطرناک بات یہ ہوئی کہ اس سے زمین کے درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا، جس سے عالمی موسم کا توازن بگڑ گیا۔ منجمد علاقوں میں گلیشیئر پگھلنے لگے، جو سمندری طوفانوں کا سبب بنے۔اْدھر جن ممالک میں کبھی گرمی نہیں پڑی تھی، وہاں گرم ترین موسم آگیا، جس کے لیے وہ مْلک تیار تھے اور نہ ہی وہاں کے باشندے اور دوسرے جان دار اس گرمی کے عادی تھے۔ بارشوں نے ایسی شدت اختیار کی کہ سیلاب کی شکل اختیار کرگئیں اور ان کے نتیجے میں شہر کے شہر غرق ہو رہے ہیں۔ برفانی طوفان آرہے ہیں، جو پہلے صرف قبل از مسیح زمانے میں سنے گئے تھے۔
ترقی یافتہ اور کسی حد تک ترقی پذیر ممالک میں اتنا دَم خم موجود ہے کہ وہ قدرتی آفات یا اْن آفات کے، جو انسانوں کی وجہ سے آ رہی ہیں، اثرات زائل کرسکیں، لیکن غریب ممالک اِن حالات سے مقابلہ کرنے کی بالکل سکت نہیں رکھتے۔ان کے لیے تو اپنے عوام کو بنیادی سہولتیں تک دینا مشکل ہے، تو وہ ان طوفانوں اور سرد، گرم موسم کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت کہاں سے لائیں۔
جولائی میں ہندوستان کے شہر، گوا میں جی۔20 کے وزرائے توانائی کی کانفرنس سے یہ بات کْھل کر سامنے آگئی کہ پیرس کانفرنس میں جو اہداف طے کیے گئے تھے، اْن پر اصولی طور پر تو سب متفق ہیں، لیکن اْنہیں کب اور کیسے پورا کیا جائے، اس پر اتفاق میں بہت سی مشکلات درپیش ہیں اور جب تک یہ خلیج نہیں پاٹی جاتی، اْس وقت تک موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونا بہت مشکل ہے۔مثال کے طور پر فوسل فیولز کے معاملے میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کے مفادات کی نوعیت کچھ اور ہے، جب کہ تیل استعمال کرنے والے ممالک اِس معاملے کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ اِسی طرح جو زیادہ ترقی یافتہ ملک ہیں، وہ زیادہ تیل خرچ کرتے ہیں،وہی کاربن کا زیادہ اخراج کرتے ہیں، یوں اْن کا آلودگی پھیلانے میں حصہ زیادہ ہے، لیکن وہ اس معاملے پر کسی فوری سمجھوتے پر آمادہ نہیں کہ اِس سے اْن کی ترقی پر اثر پڑتا ہے، جو عوامی ردّ ِعمل کی صورت سامنے آتا ہے، جسے ان کے لیے برادشت کرنا مشکل ہے۔ جی-20 ممالک مجموعی طور پر دنیا کی آبادی کا دو تہائی حصہ ہیں۔ یہ عالمی جی ڈی پی کے 85 فی صد کے نمائندے ہیں، جب کہ بین الاقوامی تجارت میں بھی ان کا حصّہ85 فی صد ہے اور کاربن اخراج کے60 فی صد سے زائد حصے کے ذمہ دار ہیں۔ان میں چین بھی شامل ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والا ملک ہے، اس کے بعد امریکہ، یوروپ اور روس ہیں۔ پاکستان کا کاربن کے اخراج اور تیل سے پھیلنے والی آلودگی میں حصّہ محض.023 فی صد ہے، لیکن گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے جو تباہی پھیلائی، اْس کا تخمینہ20 ارب ڈالر لگایا گیا۔قیمتی انسانی جانوں کا نقصان اور لاکھوں افراد کا بے گھر ہونا الگ ہے۔یہ تو وہی مثال ہوئی کہ ”کرے کوئی اور بھرے کوئی۔“اس مسئلے کا فوری حل یہ تلاش کیا گیا تھا کہ امیر ممالک، غریب ممالک کے لیے ایک فنڈ مختص کریں گے، جسے سیلاب جیسی آفات سے نمٹنے کے لیے استعمال کیا جائے گا، لیکن اس فنڈ سے رقوم جاری کرنے کے لیے جو رویّہ اختیار کیا جاتا ہے، وہ ایسا ہے، جیسے بھیک دی جارہی ہو۔
جولائی میں منعقدہ جی۔20 ممالک کانفرنس میں ہندوستان کسی ایک نقطے پر سب کو متفق کرنے میں ناکام رہا، حالاں کہ اِس سے قبل بالی کانفرنس میں کافی پیش رفت ہوئی تھی۔ایک تو اس میں مشکل یہ ہوئی کہ گوا کانفرنس کے پس منظر میں یوکرین کی جنگ بھی شامل ہوگئی، جس پر دنیا منقسم ہے۔ایک طرف امریکہ، یوروپ اور اس کے اتحادی ہیں، تو دوسری طرف روس کے حامی ہیں اور تیسری طرف وہ ممالک ہیں، جو غیر جانب داری اختیار کیے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یوکرین تنازعے کا حل پْرامن طریقے سے نکل آئے، لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی کسی حل کی طرف پیش قدمی تو کیا، کوئی امید افزا جھلک بھی نظر نہیں آرہی۔ یوکرین جنگ کی ایک تباہی تو مہنگائی کی وہ لہر ہے، جس نے امیر و غریب ممالک کو یکساں طور پر متاثر کیا، خاص طور پر تیل اور کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں جو بلندی دیکھی گئی، اْس نے تو ترقی پذیر ممالک کے ہوش ہی اْڑا دیے۔ افسوس نہ تو روس جھکنے کو تیار ہے اور نہ ہی مغربی ممالک لچک دِکھانے پر آمادہ۔جی-20 کانفرنس میں ان ممالک کی طرف سے مہنگائی کے اثرات کا ذکر کیا گیا، تو اس پر روس نے اعتراض کردیا، جب کہ چین کا موقف یہ رہا کہ جی۔20کا فورم اقتصادی معاملات دیکھنے کے لیے ہے، اس میں سیکیوریٹی معاملات زیرِ بحث نہیں لائے جاسکتے۔میزبان ہندوستان نے غیر جانب داری اختیار کی۔
ستم بالائے ستم یہ کہ کلائمیٹ چینج کی سختیاں روز افزوں بڑھتی جارہی ہیں، جسے سیاسی تقسیم نے مزید گمبھیر کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں تو سچّی بات ہے کہ”ایک زمین، ایک خاندان اور ایک مستقبل“ جیسے تھیم مذاق ہی لگتے ہیں۔معاملات کی بہتری کے لیے دْعا تو کی جاسکتی ہے، لیکن دوا اب بھی بہت دْور ہے۔گوا کانفرنس میں یہ اتفاق تو ہوا کہ متبادل انرجی کے وسائل زیادہ سے زیادہ استعمال کیے جانے چاہیے، لیکن یہ اتفاق نہیں ہوسکا کہ فوسل فیولز میں فوری کمی لائی جائے۔روس اور سعودی عرب کی طرف سے اس کی مخالفت سامنے آئی۔سعودی عرب اور روس، ہندوستان کو سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والے ملک ہیں اور ظاہر ہے کہ بھارت کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت کو توانائی کی اشد ضرورت ہے اور اسے یہ جہاں سے بھی میسّر ہوگی، وہاں سے حاصل کرے گا۔ سعودی عرب اور روس فوسل فیول پیدا کرنے والے بڑے ملک ہیں، جب کہ جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔ ان چاروں ممالک کی معیشت، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ان کے بجٹ کا دارومدار اسی تیل یا کوئلے کی آمدنی پر ہے، تو اگر اِس آمدنی میں رکاوٹ یا کسی بھی شکل میں کمی آتی ہے، تو ان کے لیے ترقی ہی نہیں، بقا کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
یاد رہے، 2016 ء میں جب تیل کی قیمتیں گرتے گرتے30 ڈالر فی بیرل تک آگئی تھیں، تو ان ممالک کے لیے شدید معاشی چیلنجز سامنے آئے،یہاں تک کہ اْس وقت یہ بحث شروع ہوگئی کہ کہیں مشرقِ وسطیٰ کے یہ ممالک دیوالیہ ہی نہ ہوجائیں۔گوا کانفرنس میں جہاں تیل اور کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک نے اِن اشیاء پر پابندی عائد کرنے کی مخالفت کی، وہیں چین بھی اْن کا ہم نوا تھا، جو توانائی کے یہ ذرایع سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔چین کا یہ استعمال دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی کا باعث ہے، کیوں کہ وہ اِس وقت سب سے زیادہ مال تیار کرتا ہے۔
اس معاملے کے بھی دو پہلو ہیں۔ سعودی عرب یا مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک ضرورت مند مْمالک کو اربوں ڈالرز کی مدد بھی فراہم کرتے ہیں، اگر اْن کی آمدنی کم ہوتی ہے، تو وہ یہ مدد کیسے کرسکیں گے اور ضرورت مند ممالک کا کیا بنے گا، جو اِس پوزیشن میں نہیں کہ فوری طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔دوسری طرف اگر چین کا معاملہ دیکھا جائے، تو وہ اِس وقت دنیا کے تقریباً ہر مْلک کو مال سپلائی کرتا ہے اور وہ بھی مناسب داموں پر، اگر اْس کے مال بنانے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے، تو سپلائی کم ہوجائے گی اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔اب تیل اور خوراک تو پہلے ہی یوکرین جنگ کی وجہ سے مہنگے ہوگئے ہیں، اگر یہ مال بھی زیادہ قیمت پر بکنے لگا، تو دنیا کے عام لوگوں کا کیا ہوگا۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے دیگر سوالات ہیں، جو فوسل فیولز اور کوئلے کے استعمال میں فوری کمی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
دوسری جانب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین کے درجہ حرارت کو1.5 ڈگری پر رکھنے میں ناکامی ہوتی ہے، تو یہ دنیا کے لیے تباہ کْن ہوگا اور پھر اس کے منفی اثرات پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔ماہرین نے2029 ء تک کی حتمی تاریخ دی ہے کہ اْس وقت تک ہر صورت درجہ حرارت پر کنٹرول کرنا ہے۔ جی۔20 کے ستمبر کے سربراہی اجلاس کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ سائنسی اور معاشی ضروریات کو کیسے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ویسے سعودی عرب، روس یا دوسرے تیل اور کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک اِس امر پر تو متفق ہیں کہ متبادل انرجی کے ذرائع کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے، لیکن فوسل فیولز میں کمی کس قدر جلد لائی جائے، اِس معاملے پر وہ مختلف رائے رکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ معاملہ اْن کی معیشت کی بنیاد ہے۔ غریب ممالک کا معاملہ فوری توجہ کا طالب ہے، کیوں کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں کی زدمیں بری طرح پھنس چکے ہیں۔
پیرس کانفرنس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ ان ممالک کی مدد کے لیے ابتدائی طور پر100بلین ڈالرز کا فنڈ رکھا جائے گا، لیکن چھ سال گزرنے کے بعد بھی یہ فنڈ وجود میں نہیں آیا اور جب بھی کسی ملک کو قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو اْسے اقوامِ متحدہ سے مدد کی اپیلیں کرنی پڑتی ہیں۔پھر ڈونر کانفرنس بلائی جاتی ہے اور اس کے بعد بھی عمومی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ امداد کا اعلان تو ہو جاتا ہے، مگر اعلان کردہ رقوم دی نہیں جاتیں۔

سائنسی طور پر تو یہ طے ہے کہ زمین کے درجہ حرارت کو ایک ڈگری پر رکھنے کی 2029 ء کی تاریخ حتمی ہے اور دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، لہٰذا اب اِس معاملے میں سْستی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی لچک۔لیکن اِس طرح کے اہداف کے حصول کی ذمّے داری ترقی یافتہ ممالک ہی پر عاید ہوتی ہے کہ وہی کاربن کے اخراج اور زمین کو موجودہ حالت میں لانے کے ذمّے دار ہیں، لیکن جو کام فوری ممکن ہے، وہ کلائمیٹ چینج کی تباہ کاریوں سے شدید متاثرہ مْمالک کی بحالی کا کام ہے۔اس مقصد کے لیے جو فنڈ مختص کیا گیا ہے، اس کے ذریعے مدد میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
متاثرہ ممالک کی امداد اور بحالی ہی وہ نقطہ ہے، جس پر ستمبر کی جی- 20 کانفرنس آسانی سے متفق ہوسکتی ہے۔اقوامِ متحدہ اور آئی ایم ایف دونوں کی یہ پیش گوئی ہے کہ غریب ممالک کی معیشت پر مہنگائی اور ان تباہ کاریوں کی وجہ سے جو دباؤ آرہا ہے، اس کی وجہ سے اْن کے لیے اپنا نظامِ سیاست چلانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ جب لوگ تباہی اور مہنگائی کے بوجھ تلے پستے ہیں، تو وہ یہ معلوم کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے کہ اس کے پسِ پردہ عوامل کیا ہیں، وہ تو صرف یہی دیکھتے ہیں کہ اْن کے حکم ران کون ہیں اور وہ اْنہی کو اپنی پریشانیوں اور غربت کا ذمّے دار ٹھہرا دیتے ہیں۔اس سے سیاسی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ہم اس کی مثال سری لنکا، پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔یہاں تک کہ فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی ہیلتھ، ٹرانسپورٹ اور دوسرے شعبوں کے ملازمین کی ہڑتالیں عام ہوگئی ہیں اور اگر ان کے مطالبات دیکھیں، تو وہ سہولتوں کی فراہمی ہی سے متعلق ہیں۔ اگر جی۔20 کانفرنس میں ایک سو بلین ڈالزر کے فنڈز اور اس کی فراہمی کا طریقہ کار ہی طے ہوجاتا ہے، تو یہ غریب ممالک کی بڑی مدد ہوگی۔ اس سے عالمی سیاسی نظام کے استحکام میں بھی مدد ملے گی اور کورونا جیسی عالمی وبا کے بعد تو یہ اور بھی ضروری ہوگیا ہے، کیوں کہ دنیا پہلے ہی پچھلے دو، تین سالوں میں بہت کچھ بھگت چکی ہے۔٭٭