طنز و مزاحمضامین

اس زندگی سے ایک لڑائی لڑا ہوں میں…

حمید عادل

لڑائی سے ہمیں سخت نفر ت ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم نے کبھی کسی سے آنکھ تک نہیں لڑائی …البتہ کسی کسی کے ساتھ یوں بھی ہوتا ہے :
ہم ہی ان کو بام پہ لائے اور ہمیں محروم رہے
پردہ ہمارے نام سے اٹھا آنکھ لڑائی لوگوں نے
بہادر شاہ ظفر
معروف شاعر لالہ مادھو رام جوہرکہہ گئے ہیں:
لڑنے کو دل جو چاہے تو آنکھیں لڑائیے
ہو جنگ بھی اگر تو مزے دار جنگ ہو
بھلے ہی ہم نے آنکھ نہ لڑائی ہو،بھلے ہی مزے دار جنگ کا ذائقہ ہم نے نہ چکھا ہو ، پھول بانوہم سے اور ہم پھول بانو سے کبھی کبھار لڑضرور لیتے ہیں… معروف ادیب اور افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی کہہ گئے ہیں ’’ہر معقول آدمی کا بیوی سے جھگڑا ہوتا ہے کیونکہ مرد عورت کا رشتہ ہی جھگڑے کا ہے۔ ‘‘
لڑائی ہے تو اچھا رات بھر یوں ہی بسر کر لو
ہم اپنا منہ ادھر کر لیں تم اپنا منہ ادھر کر لو
مضطر خیرآبادی
بعض جھگڑے لفظی بلکہ لفاظی پر مبنی ہوا کرتے ہیں، جھگڑنے والے ایک دوسرے کو مارنے مرنے کی باتیں توکرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے کی تک ہمت نہیں رکھتے…ایک پرانا لطیفہ ہے ، دو افراد میں جھگڑا ہوجاتا ہے۔ جھگڑے کے دوران ایک فریق غصے میں کہتا ہے کہ وہ دوسرے کو گولی مار دے گا۔ سامنے والا اسے طعنہ دیتا ہے کہ تو بزدل گولی کیا مارے گا۔ یہ سن کر پہلا شخص گھر میں جاتا ہے کہ اپنی بندوق نکالے… لیکن اس کی بیوی پہلے ہی اس کی بندوق چھپا چکی ہوتی ہے تاکہ خون خرابا نہ ہو۔ اسے بندوق نہیں مل پاتی، البتہ گولیاں مل جاتی ہیں۔ وہ جھوٹا اور بزدل کہلانے کے طعنے سے بچنے کے لیے یہی گولیاں لے کر باہر آتا ہے اور سامنے والے پر مارتے ہوئے کہتا ہے کہ’’ یہ لے، مار دی گولی۔‘‘
جھگڑنے سے پہلے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے آپ سے پوچھیں کہ جھگڑے کی وجہ کیاہے؟ 99فیصد جھگڑوں کی وجہ معمولی اور غیراہم معاملات ہوتے ہیں…ایسے معاملات جنہیں بآسانی نظر انداز کیا جا سکتا ہے … لیکن کیا کریںجس طرح پینے والے کو پینے کا بہانہ چاہیے، لڑنے والے کو بھی لڑائی کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے :
عجب نہیں کہ اسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہوا ہے کہ اب لڑیں گے نہیں
شہزاد احمد
ہم سمجھتے ہیں کہ لڑائی جھگڑا شرفا کا کام نہیں اور پھرہم تو ٹھہرے قلم کے آدمی…لہٰذا اعزاز کاظمی کا یہ شعر موقع بے موقع پڑھتے رہتے ہیں:
تیز ہے میرا قلم تلوار سے
دوست خائف ہیں مری رفتار سے
آدمی کو مارنے کے لیے گھونسہ ، تھپڑ، چانٹا، تلوار یا بندوق ضروری تو نہیں …مثل مشہور ہے ’’گڑ سے مرے تو زہر کیوں دیں؟‘‘ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے سخت حامی اور شدید گرویدہ تھے۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ اگر کوئی آپ کے گال پر ایک چانٹا مارے تو دوسرا حاضر کر دیں …. چنانچہ آزادی سے کچھ سال قبل گاندھی جی ہندوستان کے وائسرائے لنلتھگو سے ملنے گئے جو شملہ میں دفتر سجائے بیٹھا تھا۔ گاندھی جی نے بیٹھتے ہی وائسرائے لنلتھگو کو عدم تشدد کے فلسفے پر لیکچر دینا شروع کیا اور تجویز کیا کہ انگریز حکومت کو چاہئے وہ جرمنی کو انگلستان پر قبضہ کرنے دے۔ ہٹلر آپ کے خوبصورت ملک پر قبضہ کر کے اگر آپ کے شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کرنا چاہے تو اسے خون کی ندیاں بہانے دیں۔ جرمنی کے جہاز لندن پر حملہ آور ہوں تو انہیں آرام سے بم گرانے دیں اور خطرے کے سائرن بجانے یا جوابی کارروائی کرنے سے پرہیز کریں۔ ایک دن ہٹلر تھک کر خود ہی آرام سے بیٹھ جائے گا۔ عدم تشدد پر لیکچر دیتے ہوئے گاندھی جی نے روحانی قوت پر زور دیا اور انگریز قوم سے ہٹلر کا مقابلہ روحانی قوت سے کرنے کو کہا بجائے اس کے انگریز بموں کا جواب بموں سے دیں۔ لارڈ لنلتھگو گاندھی جی کی باتوں سے اس قدر حیرت زدہ اور خفا ہوا کہ جب گاندھی جی ملاقات کے بعد جانے کے لئے اٹھے تو وائسرائے گھنٹی بجا کر اے ڈی سی کو بلانا ہی بھول گیا۔ پروٹوکول یہ تھا کہ جب کہ کوئی بڑا لیڈر وائسرائے سے میٹنگ کے بعد رخصت ہوتا تھا تو وائسرائے اے ڈی سی کو بلاتا تھا جو اسے وائسرائے کی جانب سے رخصت کرتا، اس کی گاڑی پورچ میں منگواتا اور بائی بائی کرتا تھا۔ اس روز وائسرائے گھنٹی بجانا بھول گیا اور گاندھی جی کو اپنی گاڑی خود ہی تلاش کرنا پڑی تھی…
یوں توہم ’’ تلوار چمکی یار فرار‘‘ پر یقین رکھتے ہیں لیکن دو ایک بار ہم نے کسی کے پھٹے میں ٹانگ اڑانے کی نادانی کی تو خود پھٹتے پھٹتے رہ گئے ….
چمن بیگ کے تندرست و توانابھائی گارڈن بیگ ہمارے گہرے دوست رہے ہیں…ہم دونوں ہوٹل سے نکلے تو ایک شخص اُن سے الجھ پڑا…ہم نے الجھنے والے شخص سے بس اتنا کہا ’’ چلو جانے دو یارو‘‘ اتنا کہنا تھاکہ ہمارے گال پر ایسازناٹے دار تھپڑ پڑا کہ ہماری دونوں آنکھوں کے دیے فوری بجھ گئے،سر چکرا یا اور گلا خشک ہوگیا…ہم تھے تو عدم تشدد کے علمبردار لیکن ہم میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ تھپڑمارنے والے کی خدمت میں اپنا دوسراگال پیش کریں… حالانکہ ہم نے سوچ رکھا تھا کہ کوئی ہمارے دوسرے گال پر بھی تھپڑ ماردے تو دوبارہ پہلا گال پیش کردیں گے اور اُس وقت اس عمل کر دہراتے رہیں گے جب تک تھپڑمارنے والا ہاتھ نہ باندھ لے …گارڈن بیگ جنہیں اپنے کسرتی بدن پر بڑا غرور تھا،تھپڑ کی شدت دیکھ کر مخالف سے کہنے لگے ’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے ،بات بھی تو کرسکتے ہوبھائی، تھپڑ کیوں مارتے ہو؟‘‘
دوسرے دن امی نے پوچھا :یہ صبح صبح منہ میں کیا دبائے پھررہے ہو؟‘‘ ہم نے آئینہ دیکھا تو پتا چلا ہمارا نصف چہرہ کسی اور کاہے…
ہمارے پڑوس میں ایک صاحب ہر روز شراب پی کر آتے اور ہنگامہ برپا کرتے ، ایک دن انہوں نے تو حد ہی کردی،بیوی کو مارنا پیٹنا شروع کردیا… خاتون کی چیخ و پکار سے ہم تڑپ اٹھے اور پہنچ گئے پڑوسی کے گھر اور دروازے پر کھڑے ہوکرتقریر شروع کردی ’’ہرروز شراب پی کر آتے ہو اور بیوی کو پیٹتے ہو،شرم تم کو مگر نہیں آتی…بے شرم انسان‘‘اس سے پہلے کہ ہم مزید کچھ کہتے اندر سے خاتون نے جواب دیا ’’دیوانے باتاں نکو کرو، یہ میرا اور میرے شوہر کا معاملہ ہے ، وہ میرے کو پیٹتا ہے تو پیٹنے دو، تم کون؟ ہمارے معاملات میں دخل دینے والے،چلوبھاگو یاں سے …‘‘ اور ہم واقعی وہاں سے بھاگ کر سیدھے اپنے گھر پہنچے اور گھر پہنچ کر سوچنے لگے کہ ایک بیوی ، شوہر کو کس حد تک چاہتی ہے۔
مذکورہ دو عددناخوشگوار بلکہ عبرت ناک واقعات کے باوجود ہم تیسری لڑائی میں اُس وقت کود پڑے ، جب حال ہی میں ہم بس سے اتر کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے دفتر کی سمت بڑھ رہے تھے کہ ایک جگہ جم غفیر کودیکھا …کچھ قریب پہنچے تو دیکھا کہ دو لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہیں …دونوں اس قدر شدت سے ایک دوسرے پر لفظی بمباری کررہے تھے کہ تیسری عالمی جنگ کے چھڑجانے کا خدشہ لاحق تھا۔ تماشائیوں کو دیکھ کر یہ تاڑنے میں ہمیں ذرا سا بھی وقت نہیں لگا کہ وہ انتظار میں ہیں کہ دیکھیں کون کس پر پہلے ہاتھ اٹھاتاہے اور کون کس پر بھاری پڑتا ہے …یو ٹیوب پرفری اسٹائل کشتیوں کو دیکھ دیکھ کر ہم غالباً بے حس ہوچکے ہیں جس میں ایک پہلوان دوسرے پہلوان کی بڑی بے دردی سے ہڈی پسلی ایک کرتا ہے …سڑک کنارے کھڑے لوگ بھی غالباًکچھ ویسے ہی نظارے کے منتظر تھے ۔دونوں ہی پہلوان… ہمارا مطلب ہے جھگڑے میں ملوث دونوں ہی حضرات تنومند اور گٹھیلے بدن کے مالک تھے اورکون کس پر بھاری پڑجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا …ہم نے چپ چاپ کھسک جانے میں ہی عافیت سمجھی لیکن کسی نے ہمارے کان میں سرگوشی کی ’’ بزدل‘‘ ہم نے آواز پرغور کیا تو پتا چلا یہ تو ہمارے ضمیرکی آواز ہے اور دوسرے ہی لمحے ہم نے خود کو ایک دوسرے سے الجھنے والوں کے درمیان کھڑاپایا …ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہم اپنی مرضی سے یہاں نہیں پہنچے بلکہ کسی نے ہمیں ڈھکیلا ہے …سڑک کنارے سجے اس اکھاڑے کاعجب حال تھا،ہم منمناکر ایک فریق کو مناتے تو دوسرا بھڑکتا اور دوسرے کو مناتے تو پہلا تڑختا…جو تڑختا وہ ہماری باتوں سے مان جاتا تو جو بھڑکتا وہ بگڑ جاتا ،جو بگڑتا اسے ہم سمجھاتے کہ لڑائی جھگڑے سے کب کسی کا بھلا ہوا ہے جو آپ کا ہوگا؟وہ ہماری بات کی گہرائی کوسمجھ کرگالیاں بکتا ہواکار میں بیٹھنے لگا تو ٹرک ڈرائیور گالیوں کی تاب نہ لاکر دوڑتے ہوئے ٹرک میں جا گھسا…اور وہاں سے راڈ اٹھا لایا، ہم نے جوراڈ دیکھا ، ہمارے اوسان خطا ہوگئے …لیکن ہم نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرک ڈرائیور کو روکنے کی حماقت کی تو اس نے ہم پر پوری شدت سے راڈ دے مارا …اور ہم ہوا میں اڑتے ہوئے دوسری منزل کی کھڑکی سے ٹکرا کر زمین پر آگرے…جیسے ہی ہم گرے، خوابوں کی دنیا سے باہر آگئے … دراصل ٹرک ڈرائیور نے ٹرک سے راڈ نہیں موبائل فون اٹھا لایا تھا اور وہ اپنے کسی پہلوان دوست کو فون کرنا چاہ رہا تھا، تاکہ سڑک کنارے کھڑے تماشائیوں کو تفریح کا سامان مہیا کرا سکے … ہم نے ایسا نہ کرنے کی مودبانہ گزارش کی تو اسے ہم پر رحم آگیا اور وہ ٹرک میں جا بیٹھا اور انجن اسٹارٹ کردیا ،کارڈرائیور ہنوز گالیاں بک رہا تھا…یہ تو اچھا ہوا کہ ٹرک ڈرائیور کو انجن کے شور میں گالیاں سنائی نہیں دیں … ہم نے کار والے سے منت سماجت کی تو وہ کار میں چپ چاپ بیٹھ گیا …ویسے بھی اب اس کے روبرو ٹرک ڈرائیور تھا بھی نہیں جسے وہ گالیاں سناتا…
اس لڑائی کے پرامن اختتام سے ہمیں کس قدر مسرت حاصل ہوئی ،اس کا پتا ہمیں اُس وقت چلا جب خوشی سے ہماری آنکھیں نم ہوگئیں… ہم خوش تھے، بہت خوش کہ ہم جیسے ناتواں انسان سے بھی خدا نے بڑا کام لے لیا …ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہم بنا لڑے ہی جیت گئے … لڑائی سے ہم چاہے جتنا بھی خود کو بچائیںلیکن زندگی سے ہر شخص کو لڑنا ہے،بنا لڑے کہاںکوئی جیت پایا ہے…
اس زندگی سے ایک لڑائی لڑا ہوں میں
تب جا کے اس مقام پہ آ کر کھڑا ہوں میں
صابر دانش
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w