سیاستمضامین

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

(مولانا)سید احمد ومیض ندوی

اللہ تعالیٰ ہرزمانے میں امت کو کچھ ایسی شخصیات عطا کرتا ہے جو اپنے خلوص وللہیت ،تقویٰ وطہارت ، خشیت وانابت ،دیانت وامانت ،فراست وبصیرت ،ایثار واخلاص اور رجوع الی اللہ کی وجہ سے فتنوں کے لئے سد سکندری ہواکرتی ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کے وجود مسعود کے باعث فتنوں کو دبائے رکھتے ہیں لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو گویا فتنوں کو چھوٹ مل جاتی ہے ، ایسی ہی مغتنم شخصیات میں مرشد الامت جانشین مفکر اسلام ، نسلوں کے استاذ ، عربی کے مایہ ناز ادیب ، عظیم مفکر ،بلند پایہ مصنف، کہنہ مشق مربی ماہر تعلیم بافیض روحانی شخصیت اور خانوادہ حسنی کے چشم وچراغ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ تھے،جو ۲۲؍ر مضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق 13؍اپریل ؍2023ء طویل علالت کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جاملے ، بالیقین ایک عالم کا وجود پورے عالم کے لئے برکت وسعادت کا باعث ہوتا ہے، جب اس کا انتقال ہوتا ہے تو اس سے پورا عالم متاثر ہوتا ہے ، شاید مرشد الامت جیسی ہمہ گیر شخصیات ہی کے لئے ’’موت العالم موت العالم ‘‘ کا مقولہ کہا گیا ہو، ملت ِ اسلامیہ ہند کے لئے حضرت کا وجود سایہ ٔ رحمت سے کم نہ تھا جس کی گھنی چھاؤں میں ہر مکتبہ فکر کا انسان سکون محسوس کرتا تھا، آج جبکہ وہ ہمارے درمیان نہ رہے ،ملت ِ اسلامیہ خود کو یتیم محسوس کرررہی ہے ، ایک ایسے وقت جب کہ عالم ِ اسلام میں بالعموم اور ہندوستان میں بالخصوص امت مسلمہ انتہائی نازک دور سے گذررہی ہے، چوطرف سے باطل کی یلغار ہے ، نت نئے فتنے سرابھاررہے ہیں ،بھگوا طاقتوں کی جانب سے ملک سے اسلامی تشخص کا صفایا کرنے کی منصوبہ بند سازش ہورہی ہے ، مولانا رابع حسنی علیہ الرحمہ کا انتقال ملت کے لئے ایک ایسا سانحہ ہے جس کی سنگینی کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں ، وفات کی خبر کیا عام ہوئی ،عالم ِ اسلام میں غم کی لہر دوڑگئی اورسارا ماحول سوگوار ہوگیا،ملکی وعالمی ذرائع ابلاغ پر تعزیتی بیانات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا،سوشیل میڈیا اور اخبارات میں اظہار تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا اور کیوں نہ ہوتا جبکہ مولانا کے حادثہ وفات سے ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کی بھرپائی کے بظاہر دور دور تک آثار نظر نہیں آتے، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کو اللہ تعالیٰ نے طویل عمر کے ساتھ بے پناہ خوبیوں سے نوازاتھا ،وہ شریف النفس، حلیم الطبع او رعبقری شحصیت کے مالک تھے ، ان کے تبحر علمی، غیرمعمولی انتظامی صلاحیت ،تحمل وبردباری اور متانت وسنجیدگی کی ایک دنیا معترف تھی ، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کے انتقال کے بعد وہ ان کے نائب اور جانشین جانے جاتے تھے ، انہوں نے اس جانشینی کا حق ادا کردیا، وہ مولانا علی میاں کے بعد آخری ستون تھے ،مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے تعلیم وتدریس ،رشد وہدایت وعظ وتلقین ،دعوت وتبلیغ ، تصنیف وتالیف اورملی قیادت کے متنوع میدانوں میں گرانقدر خدمات انجام دیں،ان کے علمی کمالات کا اعتراف ہندوستان ہی نہیں عالم عرب میں بھی کیا جاتا تھا ،چنانچہ عالم عرب کی متعدد یونیورسٹیوں میں ان کی کتابیں داخل نصاب ہیں ، طویل عمر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہمہ جہت خدمات کے مواقع عطاء فرمائے تھے، انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ تعلیم وتعلم ،انتظام وانصرام ،اصلاح وارشاد اور قیادت وسیادت میں گزار،انہیں مختلف علوم اسلامی میں غیرمعمولی درک حاصل تھا وہ قرآن کے رمز شناس مفسر ، فن حدیث کی باریکیوں سے آشنا محدث ،باکمال سیرت نگار، عظیم مؤرخ اور عربی زبان کے شہرہ آفاق ادیب تھے ، ان کی خوش نصیبی تھی کہ وہ ایک طویل عرصہ تک برصغیر ہندوپاک کی مسند علم وعرفان اور اصلاح وارشاد پر جلوہ افروز رہے ، مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ حسنی خانوادہ کی حسین وپاکیزہ روایات کے امین وپاسبان تھے ، تعلیمی اداروں علمی تحریکوں اور اصلاحی تنظیموں کے لئے ان کا وجود خیروبرکت کا جلی عنوان تھا ، ان کا خاص امتیاز یہ تھا کہ ہر مکتبہ فکر میں انہیں عقیدت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، بلاشبہ وہ موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا مرجع تھے ، ملی مسائل ومشکلات میں عوام الناس کی نگاہیں انہیں پر جاکر ٹکتی تھیں ، عالم عرب میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، رب ذوالجلال کی جانب سے انھیں فراست وبصیرت اور تحمل وبرداشت کا وافر حصہ عطا ہوا تھا ، قناعت اور استغناء کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ سادگی ،شرافت اور حسن کردار کے پیکر تھے ،ان میں سب کو ساتھ لیکر چلنے کی غیرمعمولی خوبی تھی ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اس خوبی سے جوڑدیا تھا کہ بہت کم بدمزگی دیکھنے میں آتی تھی، مولانا میں بلا کی دور اندیشی اور حکمت عملی تھی وہ ہر منصوبے کوبڑی حکمت عملی سے نافذ کرتے تھے ،ملک میں شریعت کے تحفظ اور مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی بقا کے لئے پھونک پھونک کر قدم رکھا، ان کا دور صدارت کافی طویل رہا ،دودہائیوں پر مشتمل تھا اس دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میںبارہا بحرانی دور آئے ،مولانا کی دوراندیشی بورڈ کوثابت قدم رکھنے میں کامیاب رہی۔
حلیہ مبارکہ واخلاق کریمہ:ملک کے معروف صحافی جناب سہیل انجم صاحب نے مولانا رابع حسنی علیہ الرحمہ کی حیات ہی میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز کی فرمائش پر ایک قیمتی مضمون تحریر کیا تھاجس کا آغاز کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’کشادہ پیشانی، چہرہ نورانی، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، گفتگو میں علمیت کی مہک، چال ڈھال میں وقار، مرد ِ مؤمن کا کردار، شیریں مقال وشیریں گفتار، امت مسلمہ کا اعتبار ، خانوادہ علی میاں کے چشم وچراغ ،صورت وسیرت میں بے داغ ، پیکر حلم ومروت ،صاحب مہرومحبت، سراپا شفقت وشرافت ، جانشین رومی ورازی ، میدان فکروفلسفہ کے اسپ تازی، بڑی خاموش طبیعت پائی ہے ، بسیار گوئی یوں بھی باعث رسوائی ہے بہت کم لب کھولتے ہیں ، بولنے سے پہلے تولتے ہیں بولتے ہیں تو کانوں میں رس گھولتے ہیں ، مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی جان ہیں ، قصر قوانین عائلی کے نگہبان ہیں ، ندوۃ العلماء کے سربراہ ہیں ، رابطہ ادب اسلامی کے صدر نائب ہیں اپنی رائے میں بڑے صائب ہیں ‘‘(حضرت مولانا رابع حسنی ندوی رحمہ اللہ )
پیدائش اور تعلیم :مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ کی ولادت 25/اکتوبر /1929 ء تکیہ کلاں رائے بریلی کے ایک معزز سادات گھرانے میں ہوئی ،آپ کے والد گرامی کا نام سیدرشید احمد حسنی تھا اور والدہ کا نام سیدہ امۃ العزیز تھا ، مولانا کی والدہ حضرت مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی بڑی ہمیشرہ تھیں اس طرح مولانا علی میاں ندوی اور ان کے بھائی ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب مرحوم مولانا کے ماموںہوئے ،مولانا رابع حسنی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم خاندانی روایات کے مطابق اپنے خاندانی مکتب میں حاصل کی ،اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سے 1945 میں سند فضیلت حاصل کی ، دریں اثناء انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں بھی ایک سالہ کورس کیا جہاں اساطین علم حدیث سے بھرپور استفادہ کیا ،نیز کچھ عرصہ مظاہر علوم سہارنپور میں بھی قیام کیا اور وہاں کے اکابر اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل کیا، 1949 میں ان کا دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبہ ادب عربی میں بحیثیت معاون مدرس تقررعمل میں آیا، دوسال 1950ء ،1951علمی استفادہ کے لئے حجاز مقدس میں قیام فرمایا، حجاز کے علماء ،ادباء اور علمی شخصیات اور وہاں کے کتب خانوں سے خوب استفادہ کیا ۔
ہمہ جہت خدمات: حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمۃ ان خوش نصیب شخصیات میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خدمات سے بھرپور طویل زندگی عطا فرمائی تھی ، ۹۴سالہ زندگی کے ایک ایک لمحہ کو انہوں نے قیمتی بنایا ،زبان رسالت کے مطابق وہ شخص بڑا خوش بخت ہے جس کی زندگی طویل اور عمل اچھے ہوں (من طال عمرہ وحسن عملہ )مولانا کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع اور ہمہ جہت ہے، دینی خدمات کے کسی شعبہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ، ان کی خدمات کو بنیادی طور پر چارحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: (۱)تعلیمی خدمات (۲)ادبی خدمات (۳)صحافتی خدمات (۴)ملی وسماجی خدمات۔
تعلیمی خدمات: حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمۃ ایک کامیاب استاذ اور بے مثال مربی تھے ،اللہ تعالیٰ نے انہیں تعلیم وتربیت کے میدان میں غیرمعمولی ملکہ عطا فرمایا تھا ، آپ آسان اسلوب میں نہایت دلنشین درس دیا کرتے تھے ، آپ کا انداز تدریس طلبہ میں بے حد مقبول تھا ، آواز دھیمی، گفتگو رواں اور طرز ِ استدلال پختہ ہوا کرتا تھا ،راقم آثم کو بھی حضرت والا سے شرف ِ تلمذ حاصل رہا ، طلبہ آپ کے گھنٹے کے منتظر رہتے تھے ، آپ کے ایک لائق وفائق شاگرد آپ کی تدریسی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ تدریس سے دلچسپی مولانا کی اخیر تک برقراررہی ،مولانا عربی واردو کے صاحب ِ قلم وصحافی تھے ،دونوں زبانوں میں تقریباً پچاس کتابیں مولانا کے قلم سے تصنیف ہوئیں ، وہ ایک باتدبیر منتظم ،بردبار اور متحمل المزاج قائد تھے ، زمانے تک ندوۃ العلماء کے مہتمم رہے ، خاندان حسنی کے سرپرست تھے لیکن جو وصف ان میں سب سے نمایاں تھا وہ ان کا معلم اور مربی ہونا تھا، سات دہائیوں تک پوری دلجمعی ودلچسپی سے تعلیمی وتربیتی فرائض انجام دیتے رہے ، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی بڑی تعداد نے فیض اٹھایا ہوگا ،کتنے ہی پتھروں کو اس پارس نے ہیروں میں بدلا ہوگا‘‘ ۔
مولانا کے ایک اور شاگرد باکمال عظیم سیرت نگار اور بلندپایہ محقق پروفیسر یسین مظہر صدیقی ندویؒ مولانا کے اسلوب تدریس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ ’’مولانا رابع صاحب ترجمہ قرآن پڑھاتے تھے ،صرف ونحو اعراب ولغت میں غلطی کی ان کے یہاں معافی نہیں تھی ، اس سے بہت فائدہ ہوا مولانا چونکہ عربوں کے مزاج وخصوصیات اور بدوی وجاہلی عرب معاشرہ سے خوب واقف تھے اسلئے جغرافیہ حجاز ،تاریخ ادب و نقد اور معلقات کے درس میں خوب طبیعت لگتی تھی، اشعار کی تشریح بڑی دلنشین ہوتی تھی ،جغرافیہ میں ربع خالی کی ہیبتناکی اور خطرناکی کی ایسی تصویر کھینچتے تھے کہ ڈرلگنے لگتا‘ ایسا محسوس ہوتا جیسے ریت کے اس خطرناک سمندر میں سچ مچ ہم پھنس گئے ہیں‘‘
ندوۃ العلماء میں مولانا کی تدریس کا دورانیہ کئی دہائیوں پر مشتمل رہا:1949 میں تعلیم سے فراغت کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں آپ کا بحیثیت معاون مدرس تقرر عمل میں آیا ، آپ کو اگرچہ علوم ادب عربی سے لگاؤ تھا لیکن ابتداء میں آپ کے یہاں تفسیر وترجمہ قرآن کے گھنٹے رہے ۔
1955 میں آپ ندوۃ العلماء میں کلیۃ اللغۃ العربیہ کے وکیل منتخب ہوئے بعد ازاں 1970 میں عمید کلیۃ اللغۃ العربیہ مقرر ہوئے ،اس طرح تدریس سے متعلق مختلف ذمہ داریاں آپ کے تفویض ہوئیں ۔
ایک کامیاب مدرس کےلئے مطلوب ساری صفات آپ کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں ، کامیاب استاذ طلبہ کا بے پناہ ہمدرد ہوتا ہے آپ میں ہمدردی ،خیرخواہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،کامیاب استاذ خلوص وللہیت کا پیکر ہوتا ہے ، آپ بے انتہاء مخلص تھے ، باکمال استاذ غیرمعمولی تفہیمی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے آپ تفہیم کے بادشاہ تھے۔
آپ کی تعلیمی وانتظامی خدمات کا ایک روشن باب عالم اسلام کی شہرہ آفاق درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے زندگی بھر گہری وابستگی اور اس سے متعلق ذمہ داریوںکی احسن طریقہ سے ادائیگی ہے ، ندوۃ العلماء آپ کا مادرعلمی بھی ہے اور آپ کے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی امانت بھی ، آپ نے معین مدرسی سے خدمات کا آغاز کیا اور بتدریج ترقی کرتے ہوئے ناظم ندوۃ کے منصب جلیل پر فائز ہوئے ، آپ کلیۃ اللغۃ العربیہ کے وکیل اور عمید سے ترقی کرتے ہوئے 1993 ندوۃ العلماء کے مہتمم بنائے گئے اس کے بعد 1999 میں نائب ناظم اور 2000 میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی وفات حسرت آیات کے بعد ناظم ندوۃ العلماء کے باوقار منصب پر فائز ہوئے ،آپ کو اپنے مادر علمی سے عشق کی حدتک تعلق تھا اور آخری لمحات تک باقی رہا اپنی پوری زندگی ندوہ کے لئے وقف کردیا۔
تصنیفی خدمات:تدریس کے بعد مولانا کا سب سے محبوب مشغلہ تصنیف وتالیف تھا، مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمۃ کا شمار برصغیر ہندوپاک کے صف اول کے مصنفین میں ہوتا تھا،ان کی تصانیف گہری فکر کے ساتھ محققانہ شان کی حامل ہوتی تھیں ، مولانا نے جس موضوع پر قلم اٹھایا حق ادا کردیا ، انہوں نے اردو ،عربی دونوں زبانوں کو اپنی کتابوں سے مالامال کیا، عالم اسلام اور سامراج آپ کا دلچسپ موضوع تھا ، عالم اسلام کے خلاف سامراج کی چیرہ دستیوں پرآپ کی گہری نظر تھی، مولانا نے اردو عربی میں قریب ۵۰ کتابیں تالیف فرمائیں ، ان کی بعض کتابیں ندوۃ العلماء اور ملک کے دیگر مدارس میں داخل نصاب ہیں ،جبکہ بعض عربی کتابیں عالم اسلام کی کچھ یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں ، مولاناکی تصانیف کا مطالعہ مختلف سمتوں میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ، آپ کی کتابوں میں موضوعات کے اعتبار سے تنوع ہے ، سیرت، تاریخ ،ادب ،جغرافیہ ،فکر اسلامی سب پر قلم اٹھایا،سیرت کے موضوع پر ’’رہبر انسانیت‘‘ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے جس کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں ،اس کتاب کے تعلق سے مولانا کے برادرخورد عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کا کہنا ہے کہ اس میں معاندین ومخالفین کے ذہن کو سامنے رکھا گیا ہے ، اس میں آپ ﷺ کی جامع تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کتاب سے اندازہ ہوگا کہ یوروپی مصنفین نے کتنی بہتان تراشی اور کذب بیانی سے کام لیا ہے ، سیرت کے موضوع پر مولانا کی دوسری تصنیف ’’نقوش سیرت‘‘ ہے،پروفیسر وصی احمد صدیقی سابق معتمد مالیات ندوۃ العلماء نے اس کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ پوری کتاب حضورﷺ کی اعلیٰ اور پاکیزہ زندگی کا مرقع ہے۔
نصابی کتابوں میں الادب العربی بین عرض ونقد اور منثورات کافی مقبول ہیں، اسی طرح جزیرۃ العرب کے جغرافیہ پر آپ نے جزیرۃ العرب نامی کتاب تحریر فرمائی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کی فن تاریخ وجغرافیہ پر گہری نظر تھی ، حضرت علیہ الرحمۃ کی تمام تصانیف کا جائزہ ایک ضخیم کتاب کا موضوع ہے یہاں اسی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
ذیل میں آپ کی عربی واردو تصانیف کی فہرست درج کی جاتی ہے ۔
۱) الأمۃ الاسلامیۃ ومنجزاتھا۔۲)مقالات فی التربیۃ والمجتمع ۔۳)منثورات من أدب العرب۔۴)الأدب العربی بین عرض ونقد ۔۵)تاریخ الادب العربی (العصر الاسلامی)-۶)الأدب الاسلامی وصلتہ بالحیاۃ۔ ۷)الادب الاسلامی فکرتہ ومنھاجہ ۔ ۸)رسائل الاعلام -۹)معلم الانشاء (تیسرا حصہ )۔۱۰)مختار الشعر (دوحصے)-۱۱)واقع الثقافۃ الاسلامیہ ۔۱۲)التربیۃ والمجتمع ۱۳)بین التصوف والحیاۃ -۱۴) أضواء علی الادب الاسلامی۔ ۱۵) فی وطن الامام البخاری ۔۱۶)العالم الاسلامی الیوم -۱۷)فی ظلال السیرۃ – ۱۸) الفقہ الاسلامی۔ ۱۹) حرکۃ ندوۃ العلماء ،فکرتھا ومنھاجھا۔
مطبوعہ اردو کتب : ۱)دین وادب ۔۲)جغرافیہ جزیرۃ العرب -۳)حج ومقامات حج -۴)مقامات مقدسہ-۵)اسلامی شریعت :ایک محکم قانون اور انسانی زندگی کی ضرورت۔ ۶)امت مسلمہ:رہبر اور مثالی امت۔۷)امت اسلامیہ اور اس کی ثقافت۔ ۸)دومہینے امریکہ میں -۹)مسلمان اور تعلیم۔ ۱۰) سماج کی تعلیم وتربیت۔۱۱)سمرقند وبخارا کی باز یافت-۱۲)غبار ِ کارواں۔۱۳)حالات حاضرہ اور مسلمان۔ ۱۴)نقوش سیرت ۔۱۵)عالم اسلام :اندیشے اور امکانات -۱۶)مسلم سماج ۔۱۷)رہبر انسانیت (اردو،ہندی،انگریزی)
ان کے علاوہ سیکڑوں اردوعربی مقالات ومضامینصحافتی خدمات:ندوۃ العلماء لکھنؤ عالم اسلام کی واحد درسگاہ ہے جہاں تعلیم کے ساتھ تصنیف وتالیف اور اسلوب نگارش وصحافت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ،چنانچہ اس عظیم درسگاہ سے جہاں تبحرعلمی کی حامل شخصیات نکلیں وہیں عظیم مؤرخ وسوانح نگار اور باکمال صحافی اور ادیب بھی پیدا ہوئے، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمۃ مصنف بھی تھے اور مؤرخ وسوانح نگار بھی، بلندپایہ ادیب بھی تھے اور کہنہ مشق صحافی بھی ، مولانا نے ندوۃ العلماء کے پندرہ روزہ عربی جریدۃ’’الرائد‘‘ کی بنیاد رکھی اور تادم واپسیں اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔
’’الرائد‘‘ میں پابندی کے ساتھ ان کے ادارئے شائع ہوا کرتے تھے ،ندوہ کے عربی ماہنامہ ’’البعث الاسلامی ‘‘ میں بھی مولانا کے تحقیقی مضامین تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے تھے ، مفکر اسلام کی وفات کے بعد مولانا ہی اس کی سرپرستی فرماتے رہے ، اس کے علاوہ مولانا اردومیں متعدد جریدوں کی سرپرستی فرماتے رہے ،پندرہ روزہ ’’تعمیر حیات‘‘ کے آپ سرپرست اعلیٰ تھے جس کے ہر شمارہ میںآپ کے مضامین شائع ہواکرتے، اسی طرح سہ ماہی ’’تعمیر ِ افکار‘‘ ماہنامہ پیام عرفات‘‘ رائے بریلی اور ماہنامہ ندائے حرم گجرات کے بھی نگراں وسرپرست تھے ، نیز سہ ماہی انگریزی مجلہ ’’دی فریگرنس آف ایسٹ‘‘ ہندی ماہنامہ ’’سچا راہی‘‘ کی بھی سرپرستی فرماتے رہے، رابطہ ادب اسلامی برصغیر کے ترجمان سہ ماہی ’’کاروانِ ادب ‘‘ کے ایڈیٹر تھے ،یہ خالص ادبی وتحقیقی مجلہ تھا جو برسوں تک شائع ہوتا رہا ،رابطہ ادب اسلامی کے سمیناروں میں پیش کئے گئے مقالات اس کی زینت بنتے تھے ،مولانا رابع حسنی صاحب دارالمصنفین سے شائع ہونے والے ماہنامہ معارف کی مجلس ادارت کے معززرکن تھے ۔
مولانا کی ملی وسماجی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں ، مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے مؤقر ادارہ کے دودہائیوں تک صدر رہے ،تحریک ’’پیام انسانیت‘‘ کے حوالہ سے بھی گرانقدر خدمات انجام دیں ، اصلاح معاشرہ اورمسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کی مغفرت فرمائے ،درجات بلند فرمائے ۔آمین۔