ابو متین
اس بات پریقین کرنا مشکل ہے کہ ہمارے گھر شادی کا جو ہنگامہ برپا تھا اور مہمانوں کی جوریل پیل جاری تھی، ان سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا اور یہ شادی ہمارے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں میں سے کسی کی بھی نہ تھی۔ اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا تھا کہ ہمارے اڑوس پڑوس کے لوگ سمجھ رہے تھے کہ ہم بھی بڑے چھپے رستم نکلے اورہم دو میں سے کسی ایک بیٹی کے ہاتھ پیلے کررہے ہیں۔ ہمیں ان کے اٹکل کی خوشی فہمی سے اطمینان نصیب ہوا اور ہم گھر سے باہرنکلتے ہوئے پڑوس کے دروازوں اورکھڑکیوں پرنظر ڈالتے توبڑا فخرمحسوس کرتے رہے اوراندرہی اندرمونچھوں پرتاؤ دینے والی اکڑکی جوالہ بھڑکتی معلوم ہورہی تھی۔ ہمسایوں سے دوری بنائے رکھنے کا نقد فائدہ ان دنوں معلوم ہوا۔خوب اندازے لگاتے ہوئے حسد میں جل بھون کرکباب ہونے کا نادرموقع دستیاب ہوگیا تھا، ادھر ہم اپنے چاروں یعنی دوبیٹوں بیٹیوں پر اچٹتی سی نظر ڈالتے تو خوشی کے لڈو اورپیڑے،برفی وغیرہ یکے بعد دیگر من ہی من میں پھوٹتے نظر آتے تھے اور سینہ تان کر زبان حال سے یوں گویا ہوتے، میرے پٹھو ہم سے جدا ہونے کی ابھی کوئی ایسی سچویشن نہیں آئی ہے،ڈرو نہیں ہمارے جیتے جی ایسا نہیں ہوگا۔ البتہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اپنی دو بیٹیوں پرنظرڈالتے تو بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے، اس لیے اچٹتی سی نظر ڈال کررہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا۔ رہ گئے بیٹے توکالجوں میں ان کو لڑکیوں سے فلرٹ کرنے کے بہت چانسس ہوا کرتے ہیں۔ تعلیم سے فراغت کے بعد کتنے ہی بڑے گھرانوں میں دامادی اورگھردامادی کے رشتوں کے خواب پورے کرنے ہیں۔بیٹیوں کو کب تک میرے مولا کی حالت تک پہنچانے کی ذمہ دارہماری نصف بہترہیں۔ کتنے ہی میریج سنٹرس پر رجسٹرکروانے اور برقعہ پہن کر دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعدبھی کوئی بات بنتی نظر نہیں آتی تھی۔ ادھر ہم بھی جل بن مچھلی کی طرح بے قرار رہے۔ لڑکیوں کی رونمائی اب جگ ہنسائی میں بدل چکی تھی۔ ان کا قصور بس اتنا تھاکہ یہ دودھیارنگ کے بجائے گہیواں رنگ کی تھیں۔ حالاں کہ سب جانتے ہیں کہ گہیوں کی روٹی ہرقسم کے فروٹ جوس میں گھل جاتی ہے۔ لڑکیوں کے لیے آنے والے مہمانوں کو سرآنکھوں پربیٹھانے میں ہم نے کوئی کسرنہ اٹھارکھی تھی۔ ریفرشیمنٹ کابندوبست کرنے میں اس قدر طاق ہوچکے تھے کہ مہمان ٹیبل پررکھے لوازمات سے استفادہ کرنے میں منہمک ہوجاتے تو نظراُٹھا کردیکھنے کے روادار نہ ہوتے، شرم سے سمٹی سکڑی اوربیوٹی پارلر کی سجی لڑکی کونظربھرکر دیکھنے کی زحمت بھی نہ کرتے۔ ہوسکتا ہے پیروں اورہاتھوں وغیرہ پر سرسری نظر کرکے اندازہ کرلیتے ہوں کہ یہ ان کی پسند نہیں ہے۔ کھاپی کر منہ پوچھتے ہنسی خوشی رخصت ہوجاتے۔ پسند کے بارے میں پوچھا جاتا تو بوکھلا کر ہماری مہمان نوازی کوخارج تحسین پیش کرکے رہ جاتے۔ ہم میاں بیوی ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے۔ ہمارا دل رکھنے دوبارہ ملنے کی آس بھی بتاتے تو دعادیتے۔ بات چلی تھی اپنے گھرشادی کے مہمانوں کی، حالاں کہ یہ رواج ہمارے معاشرے سے گدھے کی سینگوں کی طرح ناپید ہوچکا ہے۔ فنکشن ہال کی پرتکلف ملاقات اور بے تکلف دعوت کی حد تک روابط سمٹ کررہ گئے ہیں۔ لگتا ہے دھوم کی شادی کرنے والے سارے ہی لوگ محض مصلحین کوٹھینگا دکھانے کی غرض سے یہ سب کچھ کرنے پہ تلے ہوں، البتہ گھروں پر جمع ہونے کا ایک موقع ابھی باقی رہ گیا ہے۔ چہروں پرماتم کی سنجیدگی لیے منہ میں گپ چپ چھپانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے آموجود ہوتے ہیں۔ یہ رسم فوت ہونے والے کے ساتھ قربت کا اظہار کرنے کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ باقی خلوص ومحبت کے نام ونشان ہماری زندگیوں سے مٹ کر نابود ہوگئے ہیں۔ ان نفسانفسی کے حالات میں ہماری والی نے ایک بے نفسی کا مظاہرہ کیاتھا۔ نہ جانے کیا سوجھی کہ ضرورتمند سہیلی کی بیٹی کی شادی کے لیے موقع فراہم کردیا تھا۔ ہم نے بھی اس نیک کام میں ٹال مٹول کرنا مناسب نہ سمجھا ورنہ آج کل اونگھتے کو دھکیلنے کے سوبہانے کا مقولہ خوب چلتا ہے۔ اس تجربے نے ہمیں یہ ضرور بتادیا تھا کہ مفلسی میں آٹا گیلا ہی نہیں بلکہ مہمانوں کی کثرت بھی ہواکرتی ہے۔ وہ تواچھا ہوا کہ ہمارے بچوں نے بھی صبراور فراخ دلی سے کا م لیا۔ ناک بھؤں چڑھانے تک کی نوبت نہ آئی۔
اس درمیان ہماری بیگم ایسی مصروف ہوگئیں کہ ہم ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اصل دولہن کی ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اور ہماری زوجہ ہر چھوٹے بڑے کام کی انجام دہی میں ایسی جٹی ہوئی تھیں کہ ہم ان سے باتیں کرنے کوترس گئے۔ ہمارے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ یہ یوں ہمارے قابو سے نکل کر پرائی ہوں گی۔ رہ گئے ہماری بیٹیاں اوربیٹے تویہ اپنی روزمرہ کے لگے بندھے معمولات سے باہر ہونے کے روادارنہ تھے۔بارات کی تیاری سے لے کر مہمانوں کے الّے تلے کرنے تک کا سارا بوجھ ان کے کندھوں پرتھا۔ ہم نے سوچا چلواس طرح ان کی برسوں کی آرزوئیں پوری ہورہی ہیں ورنہ اپنے بچوں کا معاملہ ……سوچنے پر بھی بڑی کوفت ہوتی ہے۔ شاید ان ہی تمناؤں کی تکمیل کے لیے گھر میں یہ ہنگامہ کھڑا کیاگیا ہو،اسی سوچ نے ڈھارس بندھائی تھی اور ہم صبرکے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گئے،بات یہیں تک نہیں رکی، ہم نے دیکھا شادی کی گری پڑی اورسڑی قسم کی رسمیں بھی پوری کی جارہی تھیں، جیسے یہ بھی فرائض میں شامل ہوں جیسے دلہن کے کمرے میں گھر کی کسی بیوہ کو اندرجانے سے روکنا،دولہن کے اوپر آٹھوں پہر سرخ منڈپ تانے رکھنا وغیرہ ایسی ہی لایعنی رسومات بصد احترام ادا کی جارہی تھیں کہ انگشت برنداں رہ گئے۔ برسوں ساتھ رہے لیکن ان کا یہ عجیب رخ ہم سے اوجھل رہا۔ یوں بھی عام حالات میں سبھی ساتھ رہنے والے بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن ان کی اندرونی کیفیت خاص خاص موقعوں پراُمڈپڑتی ہے تو یہ اصل حالت ہمیں شرمندہ کرتی ہے۔ اپنی کم عقلی اور مردم ناشناسی کا بھرم کھل جاتا ہے۔ ایسے میں بغلیں جھانکنے کے سوا کیا رہ جاتا ہے؟
مقولہ مشہور ہے، اوکھلی میں سردیے تو موسلوں سے کیاڈرنا“؟ اپنے گھر پرائی شادی کے شادیانے بجنے لگے تو ہوش ٹھکانے لگے، بات یہاں تک پہنچے گی کبھی سوچانہ تھا۔ادھر ہماری میزبان زوجہ پوری طرح اس ہنگامے کی ہراول دستہ کا پارٹ ادا کررہی تھیں اورہم ان کے اندرچھپی صلاحیتوں پر عش عش کرتے رہ گئے۔ البتہ جس باریکی سے ایک ایک رسم کی انجام دہی ہورہی تھی، اس پرحیران تھے اور ان کی یادداشت پردل ہی دل میں چھپے رستم کے الفاظ گونجنے لگے تھے۔ اس کے باوجود کھوج جاری رکھی تو پتہ چلا کہ مہمانوں کے درمیان ایک بڑی بی کرسی پربراجمان ہیں اور ہدایتیں جاری کررہی ہیں۔ کون کہتا ہے مسلم خواتین میں قائدانہ صلاحیتوں کافقدان ہے۔ یہاں، ہم نے دیکھا ہے صلاحیتوں کا فقدان کم عمر خواتین میں ہوتو ہولیکن رسومات کی رہنمائی کرنے والی اس خرانٹ بڑھیا کے ساتھ پان کی پیکوں کا اگالدان تک بھی موجود ہے اوررہنمائی کا فریضہ جاری ہے۔ ریسرچ اسکالر ز علمی میدان میں تحقیق کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے انسانی تہذیب وثقافت کو ساتوں آسمانوں پرپہنچانے میں مصروف ہیں۔ ان کی ذہنی کاوشوں کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ خواتین کولباس کے ذریعہ جسم ڈھانکنے کی ہدایت کرنا سراسرزیادتی ہے، کیوں کہ حسن اورجوانی کو پبلک پراپرٹی تسلیم کرلیاگیا ہے۔ مفاد عامہ کے لیے جو بھی کام انجام دیاجاتا ہے وہ ثواب جاریہ کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ تو مقام شکرہے کہ قابل دید مناظر سے لطف اندوز ہونے کی کوئی پابندی نہیں لیکن ایسی دیدسے بڑھ کر دیدہ دلیری پراترآنے والوں کو بخشا نہیں جاتا۔ اس کے باوجود آئے دن ان کی جراعت رندانہ کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں، لیکن اگر کسی طرف سے جنسی اشتعال دلانے والے لباس کی نشاندھی کی جاتی ہے توکچھ سرپھرے جرائم کے اصل اسباب پرتوجہ دینا تک گواہ نہیں کرتے، وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکیاں اس بکنی کے لباس سے بھی بے نیاز ہوکر بازاروں کورونق بخشیں۔ اس عریاں تہذیب کومسلم گھرانے بھی پوری آزادی سے اختیار کرتے جارہے ہیں۔ خصوصاً شادی کی تقاریب میں موجود دور کا لازمی فیشن بنالیا گیا ہے ہمیں اس سے کیا؟ دیکھو ادھر کو جدھر سب دیکھتے ہیں کے پس منظر میں چلو ادھر کو ہوا ہوجدھر کی کافلسفہ چلتا ہے۔ پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے اعتراض پراترآنا ہمارا شیوہ نہیں رہا، البتہ خود اپنے گھر شادی کے اس ہنگامے میں ان دیدہ زیب جلوؤں سے سابقہ پڑجاتے تو موڈ کا گمبھیر ہوجانا تو بنتا ہے۔ یوں تودل یہی مشورہ دے رہاتھا کہ ایک ناگوار ہنگامے کا اضافہ کرتے ہوئے کھڑے کھڑے ہی ایک نیا بکھیڑا کھڑا کردوں، لیکن اندر سے ضمیر نے سمجھایا کہ اس طرح کی حرکتوں کو لوگ خبطی یا سنکی کا لیبل لگا کر مسئلے کو ٹال دیتے ہیں۔ رہ جاتی ہے بات ہماری نصف بہتر تو ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر شرمندہ ہونا پڑا۔ ہم نے اپنی بچیوں کو اس لعنت سے پاک رکھنے کا جتن تو کر ڈالا تھا، لیکن سماج میں ہمارا کیا رول ہونا چاہیے اورکیا ذمہ داری بنتی ہے کی سمجھ پیدا نہ کرسکے۔ انجام بدبھگتنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ ایک موقع پر ہم نے گھیرکراپنی والی سے دودو ہاتھ کرہی لیا لیکن وہ اندھے کے ہاتھ بیٹرکی طرح نکل کر بھاگ کھڑی ہوئیں کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ مہمانوں کے درمیان ہم ان پرکوئی زورنہیں چلا سکتے۔ شادی کی رسومات بھی پوری آزادی کے ساتھ انجام دی جارہی تھیں۔ ہم نے سوچا اپنے گھر کی شادیوں سے قبل یہ ایک ریہرسل کے طورپر تماشا کیاجارہا ہے۔ ان کے اچھے برے سے کسی کوکیا لینا دینا۔ شرکاء کی تفریح طبع کا بھی توکوئی بہانہ چاہیے۔ ایک کے بعددوسری اور تیسری رسم دیکھنے کا موقع ملتارہا۔ شادیوں کی رسمیں دنیاکی ساری اقوام میں زوردوشور سے جاری ہیں۔ عجیب وغریب اس قدر کہ لگتا ہے آدمی ابھی پتھر کے دور کی گرفت میں ہے۔ ان میں دولہا اوردلہن کو تختہ مشق بنانے کی رسمیں تو ہوں گی ہی، ستانے آزمانے اورتماشہ بنی کے ذریعہ لطف اندوز ہونے کے مقاصد کی تکمیل بھی ہوا کرتی ہے، لیکن یہاں ہمارے گھر کی بیگانی شادی میں ایک نئے تجربے سے گذرے،تورسموں کے مقاصد کووسعت دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہوایوں کہ جب دولہن رخصت ہوکر دولہے کے گھرکورونق بخشی اور دونوں طرف کے لوگ اطمینان کی سانس لے کر رات گزار چکے تو ہم نے بھی بلاٹلی جیسا سکھ کا سانس لیا۔دوسرے دن جوں ہی ہم کمرے کے باہر قدم نکالنا چاہتے تھے کہ گھرکے اندرایک عجیب قسم کا شوربرپاہوگیا،اورموقع کی نزاکت کا احساس کرکے اندرہی رک کراخبارہاتھ میں لیے آرام سے بیٹھ گئے۔ شوربڑھتاہی گیا جوں جوں ہماری زوجہ کی آواز بلند ہوتی گئی۔اس ہنگامے میں کسی کو پیٹنے کی ہلکی ہلکی آوازیں بھی شامل ہوگئیں، تب ہمیں مزید اطمینان کی خوشی بھی نصیب ہونے لگی کہ چلو انصاف کا پلہ بھاری ہوگیا ہے۔ اوردیکھتے ہی دیکھتے شورچند نئی آوازوں کی وجہ سے کمزور پڑگیا۔ معلوم ہوتا ہے اصل مسئلہ حل ہوگیا اور حاضرین کے تبصرے زور وشور سے جاری ہیں۔ یعنی سانپ گزرگیا اور لوگ لکیرپیٹ پیٹ کر بھڑاس نکالنے لگے ہوں۔ شادی کے مہمانوں کی ملامت سن سن کر ہماری زوجہ محترمہ سے رہانہ گیا اور دندناتی ہوئی ہمارے کمرے میں داخل ہوگئیں۔ جھگڑنے والے فریق کی زیادتی پربہت کچھ سنانا چاہتی تھیں، لیکن ہمیں اطمینان سے بیٹھا دیکھ کربڑبڑا کررہ گئیں اور جب ہم نے سرد لہجے میں ان کو قریب کی کرسی پربیٹھنے کوکہا توحیرانی سے منہ کھول کررہ گئیں اورفریادی لہجے میں کہا آپ یہیں تھے لیکن باہر نہیں نکلے، واہ کمال ہے؟ ہم نے پرسکون لہجے میں عرض کیا میں بھی آتا لیکن میرے پاس تمہارے بیٹے جیسی چپل موجودنہ تھی، بوٹ سے پیٹنے کا موقع نہ تھا، اس لیے نہیں آیا۔وہ اچانک کھڑی ہوگئیں توآپ جانتے تھے؟ حیرانی سے کہا۔ ہم جب گھرسے نکل رہے تو دومہمان نوجوان رنگ کی تیاری کررہے تھے۔ اورمیں جانتا ہوں یہ چوتھی کی رسم ہم عمر لڑکیوں پرآزمائی جاتی ہے۔ ان کو کمرے کے بند دروازے پرحملہ کرتے ہوئے تمہارے بیٹے نے دیکھ لیا اور غیرت کا مارا چپلوں سے خاطر و مدارت کرڈالا اوریہ معمول کے مطابق ہی ہوا ہے۔ اس لیے دخل مناسب نہ سمجھا۔